دراصل یہ نظم ایوب کے مارشل لا میں تحریر و تقریر پر پابندی لگنے کے بعد اسی حوالے سے لکھی گئی تھی۔ سو اسرافیل اس نظم میں ایسی علامت ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ زندہ ہو جاؤ اور اپنے اعمال کا حساب دو۔ سو اس نظم میں اسرافیل مردوں کو زندہ کرنے والا اور انہیں بولنے پر دعوت دینے والا نمائندہ ہے۔