زبیر منصوری لکھتے ہیں:
یہ تصادم نہیں حملہ تھا
پلیز اسے نمایاں کیجئیے بیان کیجئیے لوگوں تک پہنچائیے۔۔۔
وہی دھیمے لب و لہجہ کا درد دل رکھنے والا انسان رابطوں کی مہم پر تھانہ جانےاپنی پریشانی اور تڑپ کو اور کس کس کے سینے میں اتار رہا ہو گا کہہ وہ سچ رہا تھا
وہ پھر بولا زبیر بھائی ضرورت اس بات کی ہے کہ
آج ہی اسلام آباد کے ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے کچھ سمجھدار لوگ رابطے کریں انہیں ساتھ لے کر یونی ورسٹی جائیں ساری جائے وقوعہ دکھائیں اور بتائیں کہ کس طرح بلا اشتعال حملہ کیا گیا کیسے اسلحہ ڈنڈے اور سرئیے استعمال ہوئے کس طرح سارے زخمی صرف جمعیت کے ہیں اس موقعہ پر سب کو بتایا جائے کہ کیا لڑنے کا یہ موقعہ ہوتا ہے کہ آپ کا شاندار ایونٹ ہو رہا ہو کامیاب پروگرام جاری ہو اور آپ کسی تانگہ پارٹی سے عین اپنے پروگرام کے عروج پر جھگڑا مول لے لیں؟ایسے موقعوں پر لوگ جھگڑوں سے بچتے ہیں یا لڑتے ہیں؟
وہ بولے چلے جا رہا تھا اور میں لاہور کے اس سرد موسم میں بھی اس کے جذبے کی گرمی کو محسوس کر رہا تھا
وہ فکر مند تھا
دکھی تھا پریشان تھا
مگر چاہتا تھا کسی طرح اس مسئلہ کو موقعہ بنا کر ان سب لوگوں کو بتایا جا سکے کہ جمعیت تو خود مظلوم ہے مار کھاتی ہے مگر سارا سال کروڑوں روپوں سے سینکڑوں فلاحی پروگرام چلاتی ہے لاکھوں طلبہ تو اس کے صرف ایکسپوز میں شریک ہوتے ہین ہزاروں درس قران کرتی ہے سینکڑوں طلبہ کو چپکے سے اسکالرشپس دیتی ہے کتابین جمع کرتی کتابیں پڑھواتی ہے تکریم استاد کے دن مناتی ہیں ہزاروں طلبہ کے تعلیمی مسائل حل کرواتی ہے اور نہ جانے کیا کیا کرتی ہے ایسے میں ہزاروں گرم جذبات والے نوجوانوں کی جمعیت کا کوئی فرد غلط بھی کر بیٹھتا ہے تو اسے ساری جمعیت کے کھاتے میں ڈال کر اس کے ہزاروں بھلے کاموں کو زیرو سے ضرب دے دینا بھلا کہاں کی صحافت کہاں کا انصاف کہاں کی حق گوئی ہے؟
میں سنتا رہا اور بس ایک جملہ کہا کہ خیر کی ساری قوتوں کا بڑا مسئلہ بس موثر کمیونیکیش کا نہ ہونا ہی توہے۔۔۔