عبدالرزاق قادری
معطل
نظریہ یا فلسفہ کیا ہے؟قوم کیا ہوتی ہے؟ تہذیب و تمدن کیا ہے ؟ اور ثقافت کسے کہتے ہیں؟ ہر قوم کا ایک نظریہ حیات ہوتا ہے وہی اس کا فلسفہ ہے اور اسی کے تحت اس کی ثقافت پنپتی ہے ۔ قوم کیا ہے ؟ قوم افراد کے مجموعے کا نام ہے اور ملت کیا ہے؟ کسی ایک سوچ ، فکر یا نظریے پر متفق ہو جانے کا نام ملت ہے ۔ یعنی پاکستانی قوم کے مسلمان لو گ ، افغانستان ، ہندو ستان ، ایران ، عراق ، عرب ، افریقہ ، یورپ و امریکہ اور مشرق بعید غرض کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ہی نظریہ حیات پر ایمان رکھتے ہیں ۔ گو کہ وہ الگ الگ پہچان بھی رکھتے ہیں لیکن ایک نظریے کے قائل ہونے کی وجہ سے ملتِ واحدہ ہیں ۔، اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ان سبکا نظریہ حیات ہے ۔ یہ کلمہ صرف عربی زبان کا ایک جملہ نہیں ہے بلکہ ایکمکمل ضابطہ ء حیات ہے ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو پیدائش سے لے کر مرنے تک بلکہ بعداز موت بھی زندگی گزارنے کی مکمل رہنمائی دیتا ہے اور اسی کے تحت ہی مسلمانوں کی ثقافت ہے مصریوں کی ثقافت فرعونی تہذیب نہیں بلکہ محمد ی اور مصطفوی کلچر ہے ۔ ہندو ستانی اور پاکستانی تہذیب گندھارا کے نہیں بلکہ مدینے کے چاند کے غلا م ہیں ۔ ایران والے ایرانی سکندر کے یا نو شیر واں کے سپوت نہیں ہیں بلکہ محمد عربی کے کلمہ گوہیں ۔ یہ سب باہم یک جان و یک قالب والی بات ہے ۔ ایک نظریے کے حامل ہونے کے ناطے باہم ایک امت ہیں ۔ اقبال نے کہاتھا۔
بتانِ رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
آج اگر ہم اپنے گردو پیش کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمسایہ ملک ہندوستان میں نیشنل اِزم (قومیت) کا بہت پر چار کیا جاتا ہے ۔ وہاں جمہوریت ہے ۔ جس کے بل بوتے پر وہ بے شمار مذاہب کے لو گوں اور بہت سے صوبوں پر ایک وقت میں حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں۔ بظاہر وہ سب کو برابر کہتے ہیں لیکن ان کا میڈیا اور حکمران سوائے ہندؤ وں کے کسی بھی مذہب کے لو گوں یا قوم کے لو گوں کے ساتھ ہونے والے غیر مساوی سلوک کی حقیقی عکا سی نہیں کرتے ۔ وہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کرنے والی قوم ہے ۔ وہ میڈیا اور فلموں ، ڈراموں کے ذریعے ، سب اچھا ہے ، کا مظاہر ہ کرکے جمہوریت او ر قومیت کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کے ہر پرو گرام ، ہر ڈرامہ اور ہر فلم میں ہندو مذہب کا کھلم کھلا پر چا ر ہو تا ہے اور ہزاروں سال پرانی برھمو سماج کی تہذیب کی نمائندگی کی جاتی ہے ۔ وہاں مغر بیت کا عفریت بھی دند ناتا نظر آتا ہے اور بچوں کے ذہن میں یہ گھو ل کر ڈالا جاتا ہے کہ ہم پہلے ہندو ستانی ہیں پھر ہمارا کوئی دین یا مذہب ہے ۔ یہ بعد کے معاملا ت ہیں ۔ ہمیں انڈین ہونے پر فخر ہو ناچاہیے ۔ مسلمانوں کے معاملے میں ان کے بچو ں کو پر تھوی راج چوہان ٹی وی ڈرامے جیسے افکار کی روشنی میں پروان چڑھا یا جاتا ہے ۔ کہ ہندو ستان سونے کی چڑیا تھی ۔ یہاں ڈاکو لو گ اسے لوٹنے کے لیے آتے تھے ۔ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہاں تو پانچ ذات پات کے لو گ بستے تھے ۔ تین ذاتوں کے پاس تو جینے کا حق بھی نہیں تھا ۔ انسانیت سسک سسک کر اور بلک بلک کر تڑپ رہی تھی ۔ اور پھر انہی ڈاکوؤں نے یہ ظلم کا طلسم توڑا اور ہندوستان کو ایک اکائی میں پر و دیا ۔ اور نیچ ذات کے لوگوں کو بھی انسان ہونے کا احساس ملا اور وہ بھی دوسری اقوام کے برابر ہوگئے۔ ہر مذہب کے نمائندے کو اپنے اپنے انداز میں عبادت و پو جا کا کھلا اختیار بھی انہی ڈاکوؤں نے دیا ۔ ستی کی رسم کو بھی مسلمانوں نے ختم نہ کر وایا ۔ کیونکہ یہ ہندؤوں کے مذہب کا حصہ تھا اور وہ انگریز جس کی پو جا کا درس دیا جا تا ہے اس نے آتے ہی ستی کی رسم پر پابندی لگا دی۔ پھر بھی ہندو ستان قومیت اور جمہوریت کے نا م پر ہند و انہ ذہنیت کو پروان چڑھانے میں بیش بہا کام کر رہا ہے ۔ کیونکہ یہ ان کا نظریہ حیات ہے ، مکاری ، عیاری اور جھوٹ و فریب ان کا ہتھیار ہے ۔ ان کی ثقافت میں جہاں بدن کے چھپانے کا کوئی اصول نہیں۔ وہیں سچ بولنے کا بھی کوئی رواج نہیں ۔ یہی ان کی تہذیب ، ثقافت اور کلچر ہے ۔ ثقافت اور کلچر کا دارومدار کسی قوم کے نظریہ حیات بعد ازموت پر ہوتا ہے ۔ مثلا جب مکہ کے مشرکین اسلام کو تسلیم نہ کرتے تھے تو ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ نظریہ حیات بعداز مو ت تھا ۔ ان کے نزدیک کوئی آخرت نہ تھی ۔ وہ حیات بعداز مو ت کے قائل نہ تھے ۔ ان کے پیش نظربرے اعمال کی بری سزا اور عدل و انصاف کے نیک کاموں کی اچھی جزا کا کوئی تصور نہ تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا میں آئے ۔ جئے ، بسے ، عیش کی اور کہانی ختم ، حالا نکہ اسلامی نقطہ نظر سے اصل کہانی شروع ہی مرنے کے بعد ہوتی ہے ۔ حساب و کتا ب کے معاملا ت ہیں اور اسی حیات بعداز موت کے نظریے میں مسلمانوں کی ثقافت چھپی ہوئی ہے ۔
پر دہ کا حکم اور گانے بجانے کی ممانعت اسی نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے ہی ہے ۔ اگر یہ ہندو ستان کی قدیم روایت ہے کہ نیم عریاں ہو کر فحش کلا م گاؤ اور ڈھول کی تھاپ پر ناچو تو یہ جہالت کے دور کی روایت تھی اس سے مسلمان ثقافت پر یہ اثر تو ہر گز نہیں پڑتا کہ ہم ہندو ستانی تھے اور یہ میراثیوں کا ناچ گانا ہماری ثقافت کا حصہ ہیں ۔ جب ہمارا نظریہ حیا ت و مو ت ہی ان سے مختلف ہے جن کی یہ رسم تھی تو ہمیں ان سے کیا علاقہ ۔ ناچ گانے کا یہ شیطانی فعل تو ہندو مت کا حصہ ہے وہ تو اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے۔ ان کے قدیم مندروں میں بھی اس کا خاطر خواہ انتظام ہوتا تھا ۔ داسیاں اور پنڈت لوگ اس فعل قبیح کے روح رواں ہوتے تھے ۔ ہم محمد عربی ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے ہیں ۔ آقا کریم ﷺ نے تو ڈھول باجے کو توڑ دینے کا حکم دیااور ان سے نفرت کا اظہار فرمایا تھا اور ان سے منع کیا تھا ۔ آج ہم کس کافرانہ ذہنیت کے غلام ہو گئے ہیں کہ دنیا کے عظیم ترین انسان کے احکامات کا بھول کر رسموں رواجوں کو نبھانے چل دیئے ۔
یہ ہندوستان کا عالم ہے ۔ چین و جاپان یا مغرب کے کسی بھی ملک کو دیکھ لیں اُن کے نظریے میں بھی وطن ہی کو اولیت حاصل ہے اور وہ بھی صرف وطن کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہیں اور ان کی مقامی رسمیں بھی ہیں کچھ وطن کے لحاظ سے اور کچھ مذہب کے لحاظ سے ۔ لیکن عالمگیر فکر کا حامل صرف دین اسلام ہے مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں وہ مقامی ثقافت سے مبرا ہیں وہ مصطفوی کلچر کے نمائندے ہیں اور دین اسلام کے محافظ ہیں ۔ وہ حیات بعد از موت کے نظریے کے مطابق اپنی ثقافت کے علمبردارہیں ۔ ان کی تہذیب و تمدن مدنی ہے اور اسلام ان کی پہچان ہے جو کہ مکمل ضابطہ حیات ہے ، دین فطرت ہے اور امن و آتشی کا علم بردار ہے ۔