محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی وی نعیم بخاری کو کام سے روک دیا
ویب ڈیسک | طاہر نصیر 14 جنوری 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کارپوریشن کے چیئرمین نعیم بخاری کو کام کرنے سے روک دیا اور ان کی تعیناتی کا معاملہ نظر ثانی کے لیے کابینہ کو ارسال کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نعیم بخاری کی چیئرمین پی ٹی وی کے عہدے پر تعیناتی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، عمر کی بالائی حد میں رعایت کی وجہ فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فیصلے کے دوسرے حصے کے تحت اس عہدے کی تعیناتی کے لیے اشتہار دیا گیا؟ جس پر وزارت اطلاعات و نشریات کے وکیل نے بتایا کہ اس فیصلے میں بورڈ تشکیل دینے کا کہا گیا ہے۔
عدالت نے وکیل سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے زائد عمر سے متعلق ریلیکسیشن دی جس پر وکیل نے وزارت اطلاعات و نشریات کی 13 نومبر کی سمری عدالت کے سامنے پیش کی۔
عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے سمری بھیجتے ہوئے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں پڑھا تھا، آپ نے عطا الحق قاسمی کیس میں جو غلطیاں کی تھیں وہی یہاں کیں ہیں۔
بعدازاں وزارت اطلاعات و نشریات کی 26 نومبر کی نئی سمری بھی عدالت کے سامنے پیش کی تھی جس پرعدالت سے استفسار کیا کہ عمر حد میں استثنیٰ دینے کی مجاز اتھارٹی کی جانب سے دی جانے والی منظوری کہاں ہے؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ہدایت کی کہ عطا الحق قاسمی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں،آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھے بغیر سمری وفاقی کابینہ کو بھیج دی۔
عدالت نے کہا کہ آپ نے سمری بھیجتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پورشن نہیں پڑھا، نہ کابینہ نے واضع طور پر عمر کی ریلیکسشن کا کوئی فیصلہ کیا نہ ہی آپ نے صحیح سمری بھیجی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں، نعیم بخاری صاحب ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیج رہے ہیں وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدنظر رکھ کر اس کو دیکھیں۔
اس پر وکیل اطلاعات و نشریات نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے ہی اس سمری کی منظوری دی تھی۔
جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو چاہیے تھا کہ کابینہ کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق بتاتے، جب آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھے بغیر سمری بنائیں گے تو کابینہ کو بھی شرمندہ کریں گے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت عمومی طور پر ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت اس تعیناتی کو کالعدم قرار نہیں دے رہی اور تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔
بعدازاں کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لئے ملتوی کردی گئی۔
اس سے قبل ستمبر 2020 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کارپوریشن کے چیئرمین ارشد خان اور بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل 6 انڈیپینڈنٹ ڈائریکٹرز کی تعیناتیاں غیر قانونی قرار دی تھیں۔۔
ویب ڈیسک | طاہر نصیر 14 جنوری 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کارپوریشن کے چیئرمین نعیم بخاری کو کام کرنے سے روک دیا اور ان کی تعیناتی کا معاملہ نظر ثانی کے لیے کابینہ کو ارسال کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نعیم بخاری کی چیئرمین پی ٹی وی کے عہدے پر تعیناتی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، عمر کی بالائی حد میں رعایت کی وجہ فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فیصلے کے دوسرے حصے کے تحت اس عہدے کی تعیناتی کے لیے اشتہار دیا گیا؟ جس پر وزارت اطلاعات و نشریات کے وکیل نے بتایا کہ اس فیصلے میں بورڈ تشکیل دینے کا کہا گیا ہے۔
عدالت نے وکیل سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے زائد عمر سے متعلق ریلیکسیشن دی جس پر وکیل نے وزارت اطلاعات و نشریات کی 13 نومبر کی سمری عدالت کے سامنے پیش کی۔
عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے سمری بھیجتے ہوئے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں پڑھا تھا، آپ نے عطا الحق قاسمی کیس میں جو غلطیاں کی تھیں وہی یہاں کیں ہیں۔
بعدازاں وزارت اطلاعات و نشریات کی 26 نومبر کی نئی سمری بھی عدالت کے سامنے پیش کی تھی جس پرعدالت سے استفسار کیا کہ عمر حد میں استثنیٰ دینے کی مجاز اتھارٹی کی جانب سے دی جانے والی منظوری کہاں ہے؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ہدایت کی کہ عطا الحق قاسمی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں،آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھے بغیر سمری وفاقی کابینہ کو بھیج دی۔
عدالت نے کہا کہ آپ نے سمری بھیجتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پورشن نہیں پڑھا، نہ کابینہ نے واضع طور پر عمر کی ریلیکسشن کا کوئی فیصلہ کیا نہ ہی آپ نے صحیح سمری بھیجی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں، نعیم بخاری صاحب ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیج رہے ہیں وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدنظر رکھ کر اس کو دیکھیں۔
اس پر وکیل اطلاعات و نشریات نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے ہی اس سمری کی منظوری دی تھی۔
جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو چاہیے تھا کہ کابینہ کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق بتاتے، جب آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھے بغیر سمری بنائیں گے تو کابینہ کو بھی شرمندہ کریں گے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت عمومی طور پر ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت اس تعیناتی کو کالعدم قرار نہیں دے رہی اور تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔
بعدازاں کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لئے ملتوی کردی گئی۔
اس سے قبل ستمبر 2020 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کارپوریشن کے چیئرمین ارشد خان اور بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل 6 انڈیپینڈنٹ ڈائریکٹرز کی تعیناتیاں غیر قانونی قرار دی تھیں۔۔