اسلام سلامتی کا مذہب کیسے ؟؟؟ جہاد کی حقیقت !!! - قسط نمبر 2 - تحریر از شاہد بھائی

شاہد بھائی

محفلین
اسلام سلامتی کا مذہب کیسے؟؟؟ جہاد کی حقیقت !!!
تحریر: شاہد عبدالباسط
جیسے کہ پچھلی بار ہم یہ تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ قرآن جس جہاد کو سپورٹ کرتا ہے وہ سب سے پہلے ظلم کی روک تھام کے لیے ہی ہے،چاہے وہ ظلم مسلمان کررہے ہوں یا غیر مسلم۔ ظلم کی روک تھام بہرحال ضروری ہے۔اسی وجہ سے قانون بنائے جاتے ہیں اور ظلم کی روک تھام کے لیے ہی مختلف سزائے تجویز کی جاتی ہیں جن میں جرمانے سے لے کر پھانسی تک کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ مقصد تحریر صرف یہ ہے کہ ظلم کے خلاف جہاد صرف اسلام میں ہی نہیں ہے بلکہ غیر اسلامی ممالک جیسے یورپ اور امریکہ میں بھی یہی قانون چل رہا ہے کہ ٹریفک کی خلاف ورزی پر جرمانہ اور کسی کو قتل کرنے پر عمر قید یا پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے جس کو مغرب کا کوئی بھی معاشرہ غلط نہیں کہتا تو پھر بھلا جہاد کو غلط کیسے کہا جاسکتا ہے جس کا مقصد بھی ظالم کے خلاف تلوار اُٹھا کر اُسے ظلم کرنے سے روکنا ہے۔جیسے کہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2444 میں درج ہے:۔
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”تم اپنے بھائی کی مدد کرو،خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول!وہ مظلوم ہو تو اس کی مدد کریں گے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ ؐ نے فرمایا:”(ظلم کرنے سے) اس کا ہاتھ پکڑ لو،یعنی اسے ظلم سے روکو“۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ جہاد کا یہ مقصد کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے اِسے مغرب کا معاشرہ بھی مانتا ہے اور مسلمان بھی۔ظالم کو ظلم سے روکنے کی وجہ انسانیت کی حفاظت ہے ورنہ یہ پوری دنیا ایک لڑائی کا میدان بن کررہ جائے یا جنگل کا سا ماحول پیش کرنے لگے جہاں کوئی بھی طاقتور کسی کمزور کو دبا لے اور اس کے ساتھ کچھ بھی کر ڈالے۔اسی وجہ سے انسانیت کی حفاظت ہی مقصد جہاد ہے۔انسانیت کی حفاظت میں نہ صرف مسلمان آتے ہیں بلکہ غیر مسلم بھی لازماً اس زمرے میں آتے ہیں۔اسی لیے قتل ناحق اور ظلم کے خلاف جو وعیدسنائی گئی ہے،اُس میں قرآن نے مومن اور کافر کا فرق نہیں کیا۔ سورہ المائدہ آیت نمبر 32 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
”ہم نے بنی اسرائیل کو یہ لکھ کر دے دیا کہ جو کوئی کسی کی جان لے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں فساد کیا ہو، تو گویا اس (قاتل) نے تمام انسانوں کا خون کیا۔ اور جس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچایا۔“
اس آیت میں قرآن نے مقتول کے مذہب میں تمیز روا نہیں رکھی کہ جس نے کس مومن کی یا کسی کلمہ گو کی جان لی بلکہ کہا گیا کہ جس نے کسی انسان کی جان لی،اس بات کی تصدیق جملے کے آخری سرے سے مل جاتی ہے کہ اُس قاتل نے گویا تمام انسانوں کا خون کر دیا۔ ایک بار پھر غور کریں، تمام مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جس طرح ایک مسلمان مومن کی جان کی حرمت ہے ویسے ہی ایک غیر مسلم کافر کی جان بھی حرمت رکھتی ہے اور یہ حرمت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب وہ ذمی بھی ہویعنی مسلم ریاست نے اُس غیر مسلم کو پناہ دے رکھی ہو۔جیسے کہ صحیح بخاری حدیث نمبر 3166 میں ہے:
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:”جو شخص کسی عہد والے (ذمی) کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس بر س کی مسافت تک پہنچتی ہوگی۔“
لہٰذاس حدیث سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ذمی کافر کو بھی قتل کرنا کس قدر بھیانک جرم قرار دیا گیا ہے۔ انسانی جان کی اہمیت صرف مسلمانوں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ غیر مسلم کی جانوں کی بھی اسی طرح اہمیت اسلام میں بیان کی گئی ہے جس طرح کے ایک مسلمان کی جان کی اہمیت ہے۔ آج اس بات کا اختتام کرتے ہوئے ہم یہ آخری بات کرتے ہیں کہ جو بھی کسی مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، ملحد، قادیانی غرض جس کو بھی ناحق قتل کرئے گا وہ ان شاء اللہ جہنم کی سزا پائے گا چاہے وہ قتل کرنے والا مسلم ہو، ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، ملحد ہو یا قادیانی ہو۔اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔ اور لوگوں کے جانوں کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top