مہوش علی
لائبریرین
اس تھریڈ کے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ ویڈیو کا انتظار کریں، اور پھر اسکے بعد منہاج کے کسی ممبر کے جواب کا انتظار کریں کہ وہ ہی طاہر القادری صاحب کا مؤقف بہتر طور پر بیان کر سکتے ہیں۔
مجھے طاہر القادری صاحب کے متعلق تو علم نہیں کہ انکے اس معاملے میں کیا نظریات ہیں، مگر چند ایک باتیں جنکا مجھے علم ہے، وہ آپ سے ضرور شیئر کرنا چاہوں گی۔
اشعار میں طاہر القادری کو سجدے کرنے کی بات نہیں
پہلی بات یہ کہ یہ اشعار طاہر القادری صاحب کی شان میں نہیں ہیں۔ مجھے حیرت ہو گی اُن لوگوں پر جو ان اشعار کی بنیاد پر یہ الزام لگائیں کہ طاہر القادری اس میں اپنے آپ کو سجدے کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔
ہم سب کو اللہ کو جان دینی ہے، اور انصاف بڑی شرط اس جہاں میں۔بات کو فقط وہاں تک رکھا جائے جہاں تک وہ کی گئی ہے۔
کسی نے کہا ہے کہ "طاہر القادری صاحب سے پرخاش نہیں ہے"۔ اور ہم اس امید پر گفتگو کر رہے کہ ہم اللہ کے نام پر انصاف کریں گے۔
سجدہ اور چیز ہے۔۔۔۔۔ مگر ہاتھوں کا بوسہ، گھٹنوں کا بوسہ، قدموں کا بوسہ الگ چیز
یہ بات اکثر برادران کو عجیب لگے گی کیونکہ انہوں یہ پہلے شاید کبھی سنا نہ ہو۔ میں نے بھی جب پہلی مرتبہ یہ چیزیں پڑہیں تو حیرت میں مبتلا ہوئی تھی۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ طاہر القادری صاحب تو کسی کھیت کی مولی نہیں، مگر ان سے قبل صحابہ و تابعین کی روایات اور اُن پر بلند پایہ علماء کی اس سلسلے میں رائے یہ ہے کہ یہ چیز شریعت محمدیہ میں حلال ہے۔۔۔۔ تو کیا آپ اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار ہیں؟
چلیں، اس مسئلے پر موجود دلائل اور علمائے سلف کی آراء پر بعد میں آتے ہیں۔ فی الحال اس بات کو سمجھیں کہ اسلام میں "تعظیم" کے فلسفے کی بنیاد کیا ہے۔
تعظیم شعائر اللہ
یہ قرآنی آیت تو ہم نے اکثر سنی ہو گی کہ "[القرآن 22:32] اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں وہ دلوں کے تقوے سے ہیں"
شعائر اللہ کیا ہیں، اس پر بات آگے جا کر کریں گے۔
اور شعائر اللہ کی تعظیم میں جوتیاں اتارنے کا حکم اللہ تعالی اپنے نبی موسی علیہ الصلوۃ و السلام کو دے رہا ہے
[القرآن 20:12]ﯾﻘﯿﻨﺎﹰ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻮﺗﯿﺎﮞ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﮮ, ﻛﯿﻮﻧﻜﮧ ﺗﻮ ﭘﺎﻙ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻃﻮی ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔
سجدہ تعظیمی
اسلام کی تاریخ (یعنی رسول اللہ ص سے قبل کی انبیاء کی شریعت) میں سجدہ تعظیمی ایک بہت ہی نیک، صالح اور تقوے سے بھرپور عمل تھا۔ اسکی گواہی خود قرآن نے کئی جگہ دی۔
[القرآن 12:4] (وہ قصّہ یوں ہے) جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا: اے میرے والد گرامی! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے
عربی متن(إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ)
اور پھر قرآن کی گواہی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور انکے بیٹوں نے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ و السلام کو سجدہ تعظیمی کیا۔
[القرآن 12:100] اور احترام سے بٹھایا اپنے والدین کو تخت پر اور گر پڑے سب یُوسف کے آگے سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا: ابّا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچّا
اور پھر قرآن کی گواہی کی فرشتوں نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام کو اللہ کے حکم سے سجدہ کیا (سوائے لعین ابلیس کے)
[القرآن 2:34] اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجۃً) کافروں میں سے ہو گیا
سجدہ تعظیمی یقینا بہت نیک اور تقوے کا عمل تھا۔ مگر شریعت محمدی میں اللہ تعالی نے اس سے منع فرما دیا۔ اس لیے اب آج سجدہ تعظیمی کے نام پر اگر کوئی سجدہ کرتا ہے تو وہ بالکل غلط کام کرتا ہے۔
سجدہ تعظیمی کے حوالے سے لیکن ایک بات اور یاد رکھیں:
1۔ سجدہ تعظیمی شریعت محمدیہ میں "حرام" ہے۔
2۔ مگر کچھ لوگوں نے "اپنی شریعت" جاری کرتے ہوئے اسے "شرک" قرار دے دیا ہے جو کہ پھر غلط چیز ہے۔
جو لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے آج سجدہ تعظمیمی میں مبتلا ہیں، وہ "حرام" کام کر رہے ہیں، مگر اسکی وجہ سے اُن کو مشرک بنا کر اسلام کے دائرے سے نہیں نکالا جا سکتا۔ بہرحال، کچھ لوگ "شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار" بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی الگ شریعتیں اور توحیدیں قائم کیے بیٹھے ہیں۔
سجدے کے علاوہ تعظیم کے دیگر تعظیمی افعال شریعت محمدیہ میں حلال ہیں
اوپر آپ نے سجدہ تعظمیمی کے متعلق آیات پڑھیں۔ قرآن کی رو تو نہیں، مگر حدیث اس بات پر بہت صاف ہے کہ سجدہ تعظیمی کو شریعت محمدی میں "حرام" قرار دیا گیا ہے۔
پھر آپ نے تعظیم کے حوالے سے قرآن میں حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ پڑھا کہ اللہ تعالی نے انہیں طوی کے مقدس مقام پر پہنچ کر تعظیم کے لیے جوتے اتار دینا کا حکم دیا۔
مگر تعظیم فقط ان دو افعال تک محدود نہیں۔
اگر آپ آگے بڑھ کر حدیث نبوی پر آئیں، تو آپ کو تبرکات نبوی اور ذات نبوی ص کی تعظیم کے دیگر بہت سے اور طریقے صحابہ میں مستعمل نظر آئیں گے (اور یہ سب طریقے صحیح روایات سے ثابت ہیں جن کا کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے)
مثلا حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رسول اللہ ص کے بال اور عبا کو پانی میں دھو کر وہ پانی بیماروں کو پلاتی تھیں تاکہ انہیں انکی برکت سے شفا حاصل ہو اور نظر بد کے خلاف بھی وہ اس پانی کا استعمال کرتی تھیں (صحیح مسلم و بخاری)۔ رسول اللہ ص کی چادر کو بطور کفن استعمال کرنا یا پھر دیگر تبرکات نبوی کو قبر میں اپنے ساتھ لے جانا تاکہ ان تبرکات کی برکت سے نفع ہو۔ تبرکات نبوی کو چومنا، انہیں سر پر رکھنا، انہیں بوسہ دینا۔۔۔ یہ سب چیزیں تعظیم کے وہ افعال ہیں جو بالکل جائز اور حلال ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے سوائے سجدہ تعظیمی کے اور بقیہ تعظیم کے افعال کو کبھی حرام قرار نہیں دیا گیا۔
افسوس کہ آج "توحید" کے نام پر بعض لوگ خود "شریعت ساز" بن بیٹھے ہیں اور شریعت محمدیہ کی اُن چیزوں کو بھی اپنی طرف سے حرام قرار دینا شروع ہو جاتے ہیں جو کہ اللہ نے حرام نہیں ٹہرائیں۔
کیا ہاتھ چومنے، گھٹنے چھونے یا قدم بوسی جیسے تعظیمی افعال کی اجازت ہے؟
البانی صاحب نے ہاتھ چومنے پر اعتراض کیا تھا۔ جواب میں شیخ ہاشم نے اس موضوع پر تفصیلی جواب دیا ہے جس میں گھٹنے چھونے اور قدم چھونے کی روایات اور دلائل بھی ساتھ ہی میں نقل ہو گئی ہیں۔ یہ تمام تر روایات، رسول اللہ ص، صحابہ و تابعین اور پھر مایہ ناز علماء کا اس پر اجتہاد آپ کو اس لنک پر مل جائے گا۔
مثال کے طور پر میں اس آرٹیکل سے صرف چند اقتباس نقل کر رہی ہوں۔
ابن حجر العسقلانی قدم بوسی کے موضوع پر
لوگ امام ابن حجر العسقلانی کو عموما جانتے ہیں۔ مختصرا یہ کہ حدیث کے معاملے میں انکا رتبہ امام بخاری جیسا ہی سمجھا جاتا ہے۔
ہم لوگوں نے بات شروع کی تھی "طاہر القادری صاحب سے پرخاش نہیں" اور اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔
میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ آپ اب امام ابن حجر العسقلانی پر وہ الزام کیوں نہیں لگا رہے جو کہ آپ نے طاہر القادری صاحب پر اوپر لگایا ہے؟
امام ابن حجر العسقلانی Ultimate Hadith Master سمجھے جاتے ہیں (حافظ حدیث)۔ اب یہ نہ کیجئے گا کہ انکا رتبہ گرانا شروع کر دیں کیونکہ انکا فتوی ہماری تمناؤں کے خلاف ہے۔ بلکہ سمجھئے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی بنا پر وہ یہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔
اب ذرا اب ذہن کھول کر سوچئیے کہ اگر واقعی یہ چیز "شرک" ہوتی (ُجیسا کہ آپ لوگوں کے دماغ پہلی پوسٹ پڑھ کر ایک منٹ میں شرک یا جاہلیت کے فتوے تک پہنچ گئے) تو پھر کیسے ممکن ہے کہ بلند پایہ ترین محدثین امام ابو داؤد، امام بخاری، ابن حجر العسقلانی، ابن عبدالبر، المنذری، حافظ ہیثمی وغیرہ اس "شرکیہ جہالت" کو اپنی کتابوں میں نقل کر کے اسے "صحیح" قرار دیتے؟
سوال:
کیا آپ اللہ کے نام پر انصاف کرنے آئے ہیں؟ تو کیا آپ ان ائمہ حدیث پر وہی شرکیہ جہالت کا فتوی جاری کریں گے جو آپ طاہر القادری پر کر رہے ہیں؟
اب اگلی روایت دیکھیں:
اگر یہ چیز واقعی ایسی ہی "شرکیہ جہالت" تھی کہ جس پر پہلی پوسٹ پڑھتے ہیں آپ لوگ پہنچ گئے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ ائمہ حدیث اس شرکیہ جہالت تک نہ پہنچ سکے اور ان چیزوں کو اپنی کتب میں نقل کر کے انہیں صحیح بھی قرار دے رہے ہیں؟
صرف ایک مرتبہ ذہن کھول کر سمجھ لیں کہ ان ائمہ حدیث کا جرم فقط یہ ہے کہ یہ اللہ کی شریعت میں کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام نہیں بنا رہے ہیں۔ بلکہ وہی کچھ آگے پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان تک پہنچا ہے۔
امام مسلم اور امام بخاری
درخواست یہ ہے کہ آپ لوگ خود جا کر اوپر والے لنک پر پورا آرٹیکل پڑھ لیں جہاں بے تحاشہ روایات نقل کی گئی ہیں، اور دیگر اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔
اسی آرٹیکل میں آپ کو امام مسلم کا وہ واقعہ بمع ریفرنسز مل جائے گا جس میں امام مسلم نے امام بخاری کے قدم چومے تھے۔
اختلاف رائے؟؟؟
دو چیزیں ہوتی ہیں۔ صحیح یا غلط ہونا۔۔۔۔۔ اور دوسری چیز ہے "اختلاف رائے"۔
ہمیں ابھی یہ ثبوت دیکھنے ہیں کہ یہ حضرات کس بنیاد پر ان چیزوں کو حرام بیان کرتے ہیں۔ بہرحال، پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ ان ائمہ حدیث کو اختلاف رائے کا حق دیتے ہیں؟ اور دوسرا سوال آپ ان ائمہ حدیث کو چھوڑ کر براہ راست طاہر القادری صاحب پر کیوں معترض ہو رہے ہیں؟
اللہ کرے ایسا ہی ہو اور آپ انکے ساتھ انصاف کریں۔از ابن حسن:
مجھے طاہر القادری سے کوئی پرخاش نہیں ہے
مجھے طاہر القادری صاحب کے متعلق تو علم نہیں کہ انکے اس معاملے میں کیا نظریات ہیں، مگر چند ایک باتیں جنکا مجھے علم ہے، وہ آپ سے ضرور شیئر کرنا چاہوں گی۔
اشعار میں طاہر القادری کو سجدے کرنے کی بات نہیں
پہلی بات یہ کہ یہ اشعار طاہر القادری صاحب کی شان میں نہیں ہیں۔ مجھے حیرت ہو گی اُن لوگوں پر جو ان اشعار کی بنیاد پر یہ الزام لگائیں کہ طاہر القادری اس میں اپنے آپ کو سجدے کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔
ہم سب کو اللہ کو جان دینی ہے، اور انصاف بڑی شرط اس جہاں میں۔بات کو فقط وہاں تک رکھا جائے جہاں تک وہ کی گئی ہے۔
کسی نے کہا ہے کہ "طاہر القادری صاحب سے پرخاش نہیں ہے"۔ اور ہم اس امید پر گفتگو کر رہے کہ ہم اللہ کے نام پر انصاف کریں گے۔
سجدہ اور چیز ہے۔۔۔۔۔ مگر ہاتھوں کا بوسہ، گھٹنوں کا بوسہ، قدموں کا بوسہ الگ چیز
یہ بات اکثر برادران کو عجیب لگے گی کیونکہ انہوں یہ پہلے شاید کبھی سنا نہ ہو۔ میں نے بھی جب پہلی مرتبہ یہ چیزیں پڑہیں تو حیرت میں مبتلا ہوئی تھی۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ طاہر القادری صاحب تو کسی کھیت کی مولی نہیں، مگر ان سے قبل صحابہ و تابعین کی روایات اور اُن پر بلند پایہ علماء کی اس سلسلے میں رائے یہ ہے کہ یہ چیز شریعت محمدیہ میں حلال ہے۔۔۔۔ تو کیا آپ اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار ہیں؟
چلیں، اس مسئلے پر موجود دلائل اور علمائے سلف کی آراء پر بعد میں آتے ہیں۔ فی الحال اس بات کو سمجھیں کہ اسلام میں "تعظیم" کے فلسفے کی بنیاد کیا ہے۔
تعظیم شعائر اللہ
یہ قرآنی آیت تو ہم نے اکثر سنی ہو گی کہ "[القرآن 22:32] اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں وہ دلوں کے تقوے سے ہیں"
شعائر اللہ کیا ہیں، اس پر بات آگے جا کر کریں گے۔
اور شعائر اللہ کی تعظیم میں جوتیاں اتارنے کا حکم اللہ تعالی اپنے نبی موسی علیہ الصلوۃ و السلام کو دے رہا ہے
[القرآن 20:12]ﯾﻘﯿﻨﺎﹰ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻮﺗﯿﺎﮞ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﮮ, ﻛﯿﻮﻧﻜﮧ ﺗﻮ ﭘﺎﻙ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻃﻮی ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔
سجدہ تعظیمی
اسلام کی تاریخ (یعنی رسول اللہ ص سے قبل کی انبیاء کی شریعت) میں سجدہ تعظیمی ایک بہت ہی نیک، صالح اور تقوے سے بھرپور عمل تھا۔ اسکی گواہی خود قرآن نے کئی جگہ دی۔
[القرآن 12:4] (وہ قصّہ یوں ہے) جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا: اے میرے والد گرامی! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے
عربی متن(إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ)
اور پھر قرآن کی گواہی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور انکے بیٹوں نے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ و السلام کو سجدہ تعظیمی کیا۔
[القرآن 12:100] اور احترام سے بٹھایا اپنے والدین کو تخت پر اور گر پڑے سب یُوسف کے آگے سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا: ابّا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچّا
اور پھر قرآن کی گواہی کی فرشتوں نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام کو اللہ کے حکم سے سجدہ کیا (سوائے لعین ابلیس کے)
[القرآن 2:34] اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجۃً) کافروں میں سے ہو گیا
سجدہ تعظیمی یقینا بہت نیک اور تقوے کا عمل تھا۔ مگر شریعت محمدی میں اللہ تعالی نے اس سے منع فرما دیا۔ اس لیے اب آج سجدہ تعظیمی کے نام پر اگر کوئی سجدہ کرتا ہے تو وہ بالکل غلط کام کرتا ہے۔
سجدہ تعظیمی کے حوالے سے لیکن ایک بات اور یاد رکھیں:
1۔ سجدہ تعظیمی شریعت محمدیہ میں "حرام" ہے۔
2۔ مگر کچھ لوگوں نے "اپنی شریعت" جاری کرتے ہوئے اسے "شرک" قرار دے دیا ہے جو کہ پھر غلط چیز ہے۔
جو لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے آج سجدہ تعظمیمی میں مبتلا ہیں، وہ "حرام" کام کر رہے ہیں، مگر اسکی وجہ سے اُن کو مشرک بنا کر اسلام کے دائرے سے نہیں نکالا جا سکتا۔ بہرحال، کچھ لوگ "شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار" بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی الگ شریعتیں اور توحیدیں قائم کیے بیٹھے ہیں۔
سجدے کے علاوہ تعظیم کے دیگر تعظیمی افعال شریعت محمدیہ میں حلال ہیں
اوپر آپ نے سجدہ تعظمیمی کے متعلق آیات پڑھیں۔ قرآن کی رو تو نہیں، مگر حدیث اس بات پر بہت صاف ہے کہ سجدہ تعظیمی کو شریعت محمدی میں "حرام" قرار دیا گیا ہے۔
پھر آپ نے تعظیم کے حوالے سے قرآن میں حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ پڑھا کہ اللہ تعالی نے انہیں طوی کے مقدس مقام پر پہنچ کر تعظیم کے لیے جوتے اتار دینا کا حکم دیا۔
مگر تعظیم فقط ان دو افعال تک محدود نہیں۔
اگر آپ آگے بڑھ کر حدیث نبوی پر آئیں، تو آپ کو تبرکات نبوی اور ذات نبوی ص کی تعظیم کے دیگر بہت سے اور طریقے صحابہ میں مستعمل نظر آئیں گے (اور یہ سب طریقے صحیح روایات سے ثابت ہیں جن کا کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے)
مثلا حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رسول اللہ ص کے بال اور عبا کو پانی میں دھو کر وہ پانی بیماروں کو پلاتی تھیں تاکہ انہیں انکی برکت سے شفا حاصل ہو اور نظر بد کے خلاف بھی وہ اس پانی کا استعمال کرتی تھیں (صحیح مسلم و بخاری)۔ رسول اللہ ص کی چادر کو بطور کفن استعمال کرنا یا پھر دیگر تبرکات نبوی کو قبر میں اپنے ساتھ لے جانا تاکہ ان تبرکات کی برکت سے نفع ہو۔ تبرکات نبوی کو چومنا، انہیں سر پر رکھنا، انہیں بوسہ دینا۔۔۔ یہ سب چیزیں تعظیم کے وہ افعال ہیں جو بالکل جائز اور حلال ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے سوائے سجدہ تعظیمی کے اور بقیہ تعظیم کے افعال کو کبھی حرام قرار نہیں دیا گیا۔
افسوس کہ آج "توحید" کے نام پر بعض لوگ خود "شریعت ساز" بن بیٹھے ہیں اور شریعت محمدیہ کی اُن چیزوں کو بھی اپنی طرف سے حرام قرار دینا شروع ہو جاتے ہیں جو کہ اللہ نے حرام نہیں ٹہرائیں۔
کیا ہاتھ چومنے، گھٹنے چھونے یا قدم بوسی جیسے تعظیمی افعال کی اجازت ہے؟
البانی صاحب نے ہاتھ چومنے پر اعتراض کیا تھا۔ جواب میں شیخ ہاشم نے اس موضوع پر تفصیلی جواب دیا ہے جس میں گھٹنے چھونے اور قدم چھونے کی روایات اور دلائل بھی ساتھ ہی میں نقل ہو گئی ہیں۔ یہ تمام تر روایات، رسول اللہ ص، صحابہ و تابعین اور پھر مایہ ناز علماء کا اس پر اجتہاد آپ کو اس لنک پر مل جائے گا۔
مثال کے طور پر میں اس آرٹیکل سے صرف چند اقتباس نقل کر رہی ہوں۔
ابن حجر العسقلانی قدم بوسی کے موضوع پر
لوگ امام ابن حجر العسقلانی کو عموما جانتے ہیں۔ مختصرا یہ کہ حدیث کے معاملے میں انکا رتبہ امام بخاری جیسا ہی سمجھا جاتا ہے۔
میرا سوال:Umar Ibn Khattab kneeling down in front of Rasool Allah (saw)
Tabari narrates it mursal [missing the Companion-link] through al-Suddi in his Tafsir in commenting on verse 5:101:
"Do not ask of things which once shown to you would hurt you" with the wording: "`Umar ibn al-Khattab got up and kissed the foot of Allah's Messenger and said: O Messenger of Allah, we are pleased with Allah as our Lord, with Islam as our religion, and with Muhammad as our Prophet, and with the Qur'an as our Book. Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka). And he did not cease until the Prophet softened."
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:
al-Zuhri said: Anas bin Malik told me: The Prophet came out after the sun passed the mid-point of the sky and offered the Zuhr prayer (in congregation). After finishing it with Taslim, he stood on the pulpit and mentioned the Hour and mentioned there would happen great events before it. Then he said, "Whoever wants to ask me any question, may do so, for by Allah, you will not ask me about anything but I will inform you of it as long as I am at this place of mine." The people were weeping profusely (because of the Prophet's anger). Allah's Apostle kept saying, "Ask Me! " Then a man got and asked, ''Where will my entrance be, O Allah's Apostle?" The Prophet said, "The Fire." Then `Abd Allah ibn Hudhafa got up and asked, "Who is my father, O Allah's Apostle?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." The Prophet then kept on saying (angrily), "Ask me! Ask me!" `Umar then fell to his knees and said,"We have accepted Allah as our Lord and Islam as our religion and Muhammad as our Apostle." Allah's Apostle became quiet when `Umar said that. Then Allah's Apostle said, "Woe! By Him in Whose Hand my life is, Paradise and Hell were displayed before me just now, across this wall while I was praying, and I never saw such good and evil as I have seen today."
Bukhari narrates it in the third chapter of Kitab al-i`tisam bi al-kitab wa al-sunna, entitled:
"What is disliked in asking too many questions, and those who take on what does not concern them, and Allah's saying: "Do not ask about things which once shown to you would hurt you" (5:101)"
English: Sahih Bukhari, Volume 9, Book 92, Number 397
The Sahih contains other versions of this hadith such as in Kitab al-`ilm, chapter 28:
"On anger during exhortation" and chapter 29: "On kneeling before the Imam or muhaddith."
English: Sahih Bukhari, Volume 1, Book 3, Number 90-93
And in Kitab mawaqit al-salat, chapter 11:
"The time of Zuhr is after the sun passes the zenith."
Sahih Bukhari, Volume 1, Book 10, Number 515
Ibn Hajar in his commentary on the collated accounts of this hadith says (Fath al-Bari 1989 ed. 13:335):
"There is in this hadith [evidence for]:
- the Companions' acute observation of the states of the Prophet and the intensity of their fear when he became angry, lest it result in a matter that would become generalized and extend to all of them;
- `Umar's confidence in the Prophet's love (idlal);
- the permissibility of kissing the foot of a man;
- the permissibility of anger in exhortation;
- the student's kneeling in front of the one who benefits him;
- the follower's kneeling before the one followed if he asks him for a certain need;
- the lawfulness of seeking refuge from dissension when something occurs which might result in its foreshadowings;
- the use of pairing [subjects] in du`a in his words: Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka)."
ہم لوگوں نے بات شروع کی تھی "طاہر القادری صاحب سے پرخاش نہیں" اور اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔
میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ آپ اب امام ابن حجر العسقلانی پر وہ الزام کیوں نہیں لگا رہے جو کہ آپ نے طاہر القادری صاحب پر اوپر لگایا ہے؟
امام ابن حجر العسقلانی Ultimate Hadith Master سمجھے جاتے ہیں (حافظ حدیث)۔ اب یہ نہ کیجئے گا کہ انکا رتبہ گرانا شروع کر دیں کیونکہ انکا فتوی ہماری تمناؤں کے خلاف ہے۔ بلکہ سمجھئے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی بنا پر وہ یہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔
Umm Aban, daughter of al-Wazi` ibn Zari` narrated that her grandfather Zari` al-`Abdi, who was a member of the deputation of `Abd al-Qays, said: "When we came to Medina, we raced to be first to dismount and kiss the hand and foot of Allah's Apostle..."
References:
- Abu Dawud narrates it in his Sunan, book of Adab.
- Imam Bukhari relates from her a similar hadith in his Adab al-mufrad: We were walking and someone said, "There is the Messenger of Allah," so we took his hands and feet and kissed them.
- Ibn al-Muqri' narrates it in his Kitab al-rukhsa (p. 80 #20), al-Tayalisi in his Musnad, al-Bazzar in his Musnad (3:27,
- Bayhaqi in the Sunan (7:102),
- and Ibn Hajar in Fath al-Bari (1989 ed. 11:67 Isti'dhan ch. 28 #6265) said: "Among the good narrations in Ibn al-Muqri's book is the hadith of al-Zari` al-`Abdi." It was declared a fair (hasan) hadith by Ibn `Abd al-Barr, and al-Mundhiri confirmed it in Mukhtasar al-sunan (8:86)
اب ذرا اب ذہن کھول کر سوچئیے کہ اگر واقعی یہ چیز "شرک" ہوتی (ُجیسا کہ آپ لوگوں کے دماغ پہلی پوسٹ پڑھ کر ایک منٹ میں شرک یا جاہلیت کے فتوے تک پہنچ گئے) تو پھر کیسے ممکن ہے کہ بلند پایہ ترین محدثین امام ابو داؤد، امام بخاری، ابن حجر العسقلانی، ابن عبدالبر، المنذری، حافظ ہیثمی وغیرہ اس "شرکیہ جہالت" کو اپنی کتابوں میں نقل کر کے اسے "صحیح" قرار دیتے؟
سوال:
کیا آپ اللہ کے نام پر انصاف کرنے آئے ہیں؟ تو کیا آپ ان ائمہ حدیث پر وہی شرکیہ جہالت کا فتوی جاری کریں گے جو آپ طاہر القادری پر کر رہے ہیں؟
اب اگلی روایت دیکھیں:
امام ابن ابی شیبہ استاد تھے امام بخاری کے۔ امام ترمذی کے تعارف کی ضرورت نہیں اور نہ ہی امام نسائی اور امام ابن ماجہ کے تعارف کی ضرورت ہے۔From Safwan ibn `Asal al-Muradi: "One of two Jews said to his companion: Take us to this Prophet so we can ask him about Musa's ten signs... [the Prophet replied in full and then] they kissed his hands and feet and said: we witness that you are a Prophet..."
Reference:
1. Narrated by Ibn Abi Shayba (Book of Adab, Chapter entitled A Man Kissing Another Man's Hand When He greets Him),
2. Tirmidhi (Book of Adab) who declared it hasan sahih, al-Nasa'i, Ibn Maja (Book of Adab),
3. and al-Hakim who declared it sahih
اگر یہ چیز واقعی ایسی ہی "شرکیہ جہالت" تھی کہ جس پر پہلی پوسٹ پڑھتے ہیں آپ لوگ پہنچ گئے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ ائمہ حدیث اس شرکیہ جہالت تک نہ پہنچ سکے اور ان چیزوں کو اپنی کتب میں نقل کر کے انہیں صحیح بھی قرار دے رہے ہیں؟
صرف ایک مرتبہ ذہن کھول کر سمجھ لیں کہ ان ائمہ حدیث کا جرم فقط یہ ہے کہ یہ اللہ کی شریعت میں کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام نہیں بنا رہے ہیں۔ بلکہ وہی کچھ آگے پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان تک پہنچا ہے۔
امام مسلم اور امام بخاری
درخواست یہ ہے کہ آپ لوگ خود جا کر اوپر والے لنک پر پورا آرٹیکل پڑھ لیں جہاں بے تحاشہ روایات نقل کی گئی ہیں، اور دیگر اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔
اسی آرٹیکل میں آپ کو امام مسلم کا وہ واقعہ بمع ریفرنسز مل جائے گا جس میں امام مسلم نے امام بخاری کے قدم چومے تھے۔
اختلاف رائے؟؟؟
دو چیزیں ہوتی ہیں۔ صحیح یا غلط ہونا۔۔۔۔۔ اور دوسری چیز ہے "اختلاف رائے"۔
ہمیں ابھی یہ ثبوت دیکھنے ہیں کہ یہ حضرات کس بنیاد پر ان چیزوں کو حرام بیان کرتے ہیں۔ بہرحال، پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ ان ائمہ حدیث کو اختلاف رائے کا حق دیتے ہیں؟ اور دوسرا سوال آپ ان ائمہ حدیث کو چھوڑ کر براہ راست طاہر القادری صاحب پر کیوں معترض ہو رہے ہیں؟