اسلام میں لباس کا تصور اور مغربی ہتھکنڈے

ایک طویل عرصے سے دشمنانِ اسلام پوری دنیا میں مغربی رسم و رواج عام کرنے کے درپے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر مغربی طور طریقے انتہائی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات سے ناآشنا مسلمان مغربی لباس کو اہمیت دیتے ہوئے بتکلف ترقی پسند بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہانتک کہ وہ اسلامی حدود کو ہی بھلا بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ ایک مسلمان کے لئے یہ قطعًا لائق نہیں کہ وہ اسلامی تہذیب و تمدن سے ہٹ کر غیروں کی رسم و رواج کو اپنا شعار بنالے۔ اسلام نے مرد اور عورت کی تخلیق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لباس کے متعلق جو حدود مقرر کی ہیں ان پر عمل کرنا ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے۔ شریعت نے مرد کے لئے ناف سے لے کر بشمول گھٹنوں تک اور عورت کے لئے پورے جسم کا پردہ واجب قرار دیا ہے۔ البتہ ایک عورت کوصرف اپنے محارم (جن سے نکاح حرام ہے) کے سامنے منہ ، ہاتھ اور پیر کھولنے کی اجازت ہے۔
آجکل خصوصًا عورتوں کی طرف سے لباس کے معاملے میں انتہائی بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ تنگ، چست اور باریک لباس کا بے خوف و بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کی نظر میں خود کو فیشن ایبل، روشن خیال اور ترقی پسند ثابت کرنے کے لیے شرعی احکامات کو روندا جا رہا ہے۔ "لوگ کیا کہیں گے……" کے خوف سے ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتے ہیں۔ حالانکہ خالق کی معصیت میں مخلوق کے لیے کوئی فائدہ نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم شریعت پر عمل کرتے ہوئے دقیانوس، بیک ورڈ اور تنگ نظر جیسے طعنے سر آنکھوں پر لے لیتے مگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو تو قبول کر لیا لیکن لوگوں کی طعن و شنیع کو گوارا نہ کر سکے۔ مطلب مخالفینِ اسلام کی طرف سے بے حیائی اور عریانی پھیلانے کے لیے حقوقِ نسواں اور آزادی کے نام پر جو جال بچھایا گیا تھا ہم بآسانی اس میں پہنستے چلے جارہے ہیں۔
کئی سادہ لوح اور بے چارے مسلمانوں سے یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ اسلام تو باطن کا نام ہے لہٰذا ظاہر کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہائے ہمارے سادگی! بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم دنیوی معاملات میں تو ظاہر و باطن دونوں کی رعایت رکھتے ہیں مگر جب بات شریعت پر آتی ہے تو ہماری روایت بدل جاتی ہے۔ خوب یاد رکھیے! ایسی باتیں شیطان کا دھوکہ ہیں۔ اسلام کے احکام ظاہر و باطن دونوں پر شامل ہیں۔
ایک مسلمان کو اپنی کامیابی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے میں ہی سمجھنی چاہیے۔ آج کے مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات سے بیزاری اور مغربی رسم و رواج سے محبت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آج بھی ہمارے ذہنوں پر مغربیوں کا تسلط ہے۔ درحقیقت ہم حقیقت سے بے خبر ہیں۔ پوری دنیا سے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لیے یہ دشمنانِ اسلام کی سازش کا ایک مہرا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اس سازش کا شکار ہورہی ہے۔ یہانتک کہ بعض روشن خیال نیم مولوی حضرات بھی بغیر سوچے سمجھے پینٹ وغیرہ کو جائز قرار دیتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آج یہ وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ حالانکہ موجودہ پینٹ میں ایسی کئی خرابیاں موجود ہیں جن سے شریعت نے سختی سے منع کیا ہے۔ آجکل "لڑکا پہن رہی ہے اور لڑکی پہن رہا ہے" کا ٹرینڈ اسی سازش کا نتیجہ ہے۔
تنگ اور باریک لباس پہننے والی عورتوں کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسی عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہونگی اور نہ ہی وہ جنت کی خوشبو پاسکیں گی۔ حضرت عائشہؓ کے پاس بنوتمیم کی چند عورتیں آئیں جو باریک کپڑے پہنے ہوئی تھیں۔ ام المؤمنین ؓ نے ان سے کہا کہ اگر تم مؤمنہ عورتیں ہوتو یہ لباس مؤمنہ عورتوں کا نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ مؤمنہ عورت کا باریک اور تنگ لباس پہننا اہلِ علم کے نزدیک غیر متصور ہے۔ اسی طرح مردوں کے لیے چادر یا شلوار وغیرہ ٹخنوں سے اوپر رکھنا لازم ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ شلوار کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ آگ میں جلایا جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف رحمت کی نظر نہیں فرماتے جو شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھتا ہو۔
علماءکے نزدیک ایسا لباس پہننے میں بھی کراہت ہے جو شرعی اعتبار سے تو جائز ہے لیکن وہ لباس فاسق یا غیر مسلموں کی طرف منسوب کیا جاتا ہو۔ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ لباس انسان کے باطن پربھی گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ اور یہ بات آج کی سائنس نے بھی ثابت کی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے رسول ِ خدا ﷺ کی زندگی ایک بہترین اور کامل نمونہ ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ آپ ﷺ کے سنت طریقے کو چھوڑ کر غیروں کے راستے کو اپنالے۔ آج ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں بے چینی و بے سکونی کی اہم وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں اسلام پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔
 

م حمزہ

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر اور ہمیں دین کو سمجھ کر اس پر چلنے کی توفیق دے۔

امید ہے کہ آپ محفل پہ باقاعدگی سے آتے رہا کریں گے۔ اور اگر آپ کو پسند ہو تو یہاں تعارف کے زمرے میں جاکر اپنا تعارف بھی پیش فرمائیں۔
 

دوست

محفلین
لباس اور صلحاء کا لباس

لباس کا اصل تعلق موسم سے ہوتا ہے موسم کے لحاظ سے کسی علاقے کے لوگ جو لباس پہننے لگ جاتے ہیں، وہ وہاں کا کلچر ہو جاتا ہے. پھر ہر علاقے میں کچھ لباس روز مرہ اور کام کاج کے مطابق ہوتے ہیں، کچھ لباس تقریبات،، جرگے اور پنچایت کے لیے مختص ہوتے ہیں. عرب اپنے موسم کے لحاظ سے تہمد پہنتے تھے، جیسا کہ ہمارے ہاں پنجاب اور سندھ میں یہی لباس مقبول ہے جس کی بڑی وجہ اس کا ہوادار ہونا ہے. عربوں نے دوسری اقوام سے اختلاط کے باعث اور جنگوں میں تہمد کی خوش مزاجی کے باعث شلوار اور پائجامہ پہننا شروع کر دیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ جنگی لباس کے طور پر پائجامہ متعارف کروایا. خود رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے یورپی چغہ زیب تن فرمایا ہمارے ہاں علماء کرام اور عرب میں شیوخ مساجد جو گاؤن پہنتے ہیں یہ یورپ کے پادریوں کا لباس تھا، وہاں سے مسلم مشائخ نے لیا. اسلام جب سنٹرل ایشیا کے یخ بستہ کرے میں داخل ہوا تو یہاں تہمد باندھنا خود کشی کے مترادف تھا. موسمی ضرورت کے تحت لوگ گرم لباس پہنتے تھے. آج بھی روس کے صدر اور وہاں کی کسی بھی مسلم ریاست کے شیخ الاسلام کا ایک ہی لباس ہے.
جو لوگ صلیب کی حقیقت سے واقف نہیں وہ نکٹای کو صلیب کی علامت قرار دے کر حرمت کا فتوی دینے میں کوتاہی نہیں کرتے حالانکہ مولانا کے گلے کا رومال اور مری ایبٹ آباد والوں کے گلے کا مفلر اور کسی بھی شخص کے گلے کی ٹائ ایک ہی شے ہے بس سلیقے کا فرق ہے.
مغربی لباس درحقیقت محنت کش طبقے کا لباس ہے جس میں نقل و حرکت آسان ہوتی ہے اور صلحاء کا لباس نئ نویلی دلہنوں کی طرح بھاری بھر کم ہوتا ہے جس میں حرکت آسان نہیں ہوتی.
طفیل ہاشمی
 

دوست

محفلین
محمد متولي الشعراوي (1911-1998) عصر حاضر کے ایک بہت بڑے نامور عالم دین ہو گزرے ہیں جنہوں نے قران کی تفسیر کو ایک نئی جہت سے متعارف کرایا کہ اسے عام لوگوں کیلیئے عام زبان میں ایسا عام فہم بنایا کہ کمال ہوگیا۔ معمولی کسان کے اس بیٹے کیلیئے دنیا بھر کے اسلامی ممالک ایسے ایسے مرتبے اور اعزازات اٹھائے پھرتے رہے کہ بیان ممکن نہیں مگر انہوں نے ماسوائے ایک بار "وزیر مذہبی امور" کے علاوہ کوئی اور منصب قبول نا کیا۔ آپ کی زندگی میں ہی آپ کی حیات پر فلمیں بنیں، آپ پر مقالات لکھے گئے، آپ کے نام سے انعامات تخلیق پائے مگر آپ صرف لوگوں کے دلوں میں رہے۔

میں جانتا ہوں کہ جب ان کا کوئی لیکچر ٹی وی پر نشر ہوتا تھا تو ان کی گفتگو سے بھلے آنکھیں پرنم رہیں مگر محفل زعفران بنی رہتی تھی۔

عرب دنیا میں آپ کا ایک کا خاص مقام ہے اور لوگ انہیں "إمام الدعاة" کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ سٹیٹس کی وجہ ان کی ایک نادر تصویر ہے جس میں آپ نے مکمل سوٹ زیب تن کر رھا ہے اور میرے چند دوست جنہوں نے انہیں اس سوٹ میں دیکھا تھا وہ انہیں دولہا اور شہزادہ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔

مکمل سوٹ اچھا اور کھلا سلا ہوا اور شریعت میں وضع لباس کی مکمل تعریف بزبان سیدنا عمر "جسم کی ہئیت اور کمیت" کو چھپانے پر قادر اور پورا اتر رہا ہو تو اسلامی ہی ہوتا ہے۔

میرے لیئے کردستان کے لوگوں کی دس بارہ میٹر کپڑے سے بنی ہوئی خیمہ جیسی شلوار، موریطانیہ کے لوگوں کا پاجامے اور شرٹ کے اوپر اوڑھا ہوا سوپر مین جیسا چوغہ، یمنیوں کی نیچے دھوتی مگر اوپر قمیض کے ساتھ انگریزی کوٹ اور سر پر رومال، لیبیا والوں کا قمیص اور شلوار، حبشہ والوں کا چوغہ اور سر پر رکھی ٹوپی سب ہی اسلامی لباس ہیں۔ حسن ظن رکھیئے اور اسلام کو عالمی مذہب بننے میں معاونت کیجیئے۔ شکریہ
محمد سلیم
 
محمد متولي الشعراوي (1911-1998) عصر حاضر کے ایک بہت بڑے نامور عالم دین ہو گزرے ہیں جنہوں نے قران کی تفسیر کو ایک نئی جہت سے متعارف کرایا کہ اسے عام لوگوں کیلیئے عام زبان میں ایسا عام فہم بنایا کہ کمال ہوگیا۔ معمولی کسان کے اس بیٹے کیلیئے دنیا بھر کے اسلامی ممالک ایسے ایسے مرتبے اور اعزازات اٹھائے پھرتے رہے کہ بیان ممکن نہیں مگر انہوں نے ماسوائے ایک بار "وزیر مذہبی امور" کے علاوہ کوئی اور منصب قبول نا کیا۔ آپ کی زندگی میں ہی آپ کی حیات پر فلمیں بنیں، آپ پر مقالات لکھے گئے، آپ کے نام سے انعامات تخلیق پائے مگر آپ صرف لوگوں کے دلوں میں رہے۔

میں جانتا ہوں کہ جب ان کا کوئی لیکچر ٹی وی پر نشر ہوتا تھا تو ان کی گفتگو سے بھلے آنکھیں پرنم رہیں مگر محفل زعفران بنی رہتی تھی۔

عرب دنیا میں آپ کا ایک کا خاص مقام ہے اور لوگ انہیں "إمام الدعاة" کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ سٹیٹس کی وجہ ان کی ایک نادر تصویر ہے جس میں آپ نے مکمل سوٹ زیب تن کر رھا ہے اور میرے چند دوست جنہوں نے انہیں اس سوٹ میں دیکھا تھا وہ انہیں دولہا اور شہزادہ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔

مکمل سوٹ اچھا اور کھلا سلا ہوا اور شریعت میں وضع لباس کی مکمل تعریف بزبان سیدنا عمر "جسم کی ہئیت اور کمیت" کو چھپانے پر قادر اور پورا اتر رہا ہو تو اسلامی ہی ہوتا ہے۔

میرے لیئے کردستان کے لوگوں کی دس بارہ میٹر کپڑے سے بنی ہوئی خیمہ جیسی شلوار، موریطانیہ کے لوگوں کا پاجامے اور شرٹ کے اوپر اوڑھا ہوا سوپر مین جیسا چوغہ، یمنیوں کی نیچے دھوتی مگر اوپر قمیض کے ساتھ انگریزی کوٹ اور سر پر رومال، لیبیا والوں کا قمیص اور شلوار، حبشہ والوں کا چوغہ اور سر پر رکھی ٹوپی سب ہی اسلامی لباس ہیں۔ حسن ظن رکھیئے اور اسلام کو عالمی مذہب بننے میں معاونت کیجیئے۔ شکریہ
محمد سلیم
اسلام نے لباس کے متعلق جو حدود مقرر کی ہیں ان کو مدِنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی لباس پہنا جاسکتا ہے. اور یہ بات مذکورہ تحریر میں بھی بیان ہوئی. لیکن آج مسئلہ یہ ہے کہ ہم لباس کا انتخاب کرتے وقت شرعی حدود کا خیال نہیں رکھتے. "حدودِ شرعیہ" کو نظر میں رکھتے کوئی بھی لباس پہن لیں وہ اسلامی ہی شمار ہوگا اور یہ مسئلہ متفق علیہ ہے. لیکن یہ بات یاد رہے کہ "حدودِ شرعیہ" .....
 
Top