ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
اسلام میں مسواک کی اہمیت
محمد رضامرکزی،ریسرچ اسکالر جامعۃالرضا ۔بریلی شریف
علامہ یحیی بن شرف امام نووی شافعی فرماتے ہیں کہ۔۔ائمہ لغت نے کہا ہے کہ لکڑی سے دانتوں کے صاف کرنے کے عمل کو سواک کہتے ہیں اور سواک اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں اور علماء کی اصطلاح میںلکڑی یا اسکی مثل کسی چیزسے دانت صاف کرنے کو سواک کہتے ہیںجس سے دانتوں کا میل اور پیلاہٹ زائل ہوجائے (شرح مسلم ، ج۱، ص ۱۲۷)
سنن نبویہ علی صاحبہا الصلوۃواسلام میں بعض سنتیں ایسی بھی ہیں جو بادی النظر میں بہت معمولی نظر آتی ہیں مگر در حقیقت وہ مہتم بالشان اور عظیم ثواب کی حامل ہیں انہیں سنن جمیلہ میں سے ایک مسواک بھی ہے ۔جس کی فضیلت واہمیت سے کتب احادیث وفقہ مالا مال ہیں ۔یہاں چند احادیث رقم کی جاتی ہیں ۔
(۱)حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایامسواک کیا کرو کہ اس میں منہ کی پاکی اور حق تعالی کی خوشنودی ہے۔
(۲)رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے مسواک کی وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خوف ہواکہ کہیں مجھ پر اور میری امت پر فرج نہ ہو جائے اگر مجھے اپنی امت پر دشواری کا خوف نہ ہوتا تو میں ان پر مسواک کو فرض کر دیتا۔مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ میںاسقدر کثرت سے مسواک کرتا ہوںکہ مجھے اپنے منہ کے اگلے حصے کے چھل جانے کا خوف ہے ۔(ابن ماجہ شریف)
۔۔(۳)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایامسواک منہ صاف کرنے والی ہے اور اللہ کی رضاکا سبب ہے ۔
(۴)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے منہ مبارک کو مسواک سے اچھی طرح مزین کرتے ۔
(۵)حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ بندہ جب مسواک کر لیتا ہے پھر نماز کو کھڑا ہوتا ہے تو ایک فرشۃاس کے پیچھے کھڑے ہو کر قرات سنتاہے پھر اس سے قریب ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ۔
(۶)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایامیرے نزدیک دورکعتیں جو مسواک کر کہ پڑ ھی جائیں افضل ہیں بے مسواک کی ستررکعتوں سے۔
(۷)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺگھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔(مسلم شریف،حدیث۴۹۹)
مسواک کا حکم:
ہر وضو میں مسواک سنت ہے ۔وضو کے علاوہ ان اوقات میں مستحب ہے ۔(۱)ہرنماز کے وقت (۲)تلاوت قرآن مجید کے لئے (۳)سو کر اٹھنے کے بعد(۴)منہ میں جب بھی کسی وجہ سے بد بو پیدا ہو جائے (۵)جمعہ کے دن (۶)سونے سے پہلے(۷)کھانے کے بعد (۸)سحر کے وقت(نزہۃالقاری شرح بخاری،ج۲،ص۱۶۹)
اعلی حضرت امام احمد رضا خاں محقق بریلوی قدس سرہ’’ذیل الدعاء لاحسن الوعائ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ۔۔’’جب قصد دعا ہو پہلے مسواک کرے کہ اپنے رب سے مناجات کرے گاایسی حالت میںرائحہ متغیرہ سخت نا پسند ہے خصوصاحقہ پینے والے اور تمباکو کھانے والوں کو اس ادب کی رعایت ذکر ودعا ونماز میں نہایت اہم ہے اور حضور اقدس ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ مسواک رب کو راضی کرنے والی ہے اور ظاہر ہے کہ رضائے رب باعث حصول رب ہے ۔‘‘(احسن الوعاء لآداب الدعائ،ص۳۶)
مسواک کے دنیا وی واخروی فوائد:
مسواک کے وہ فضائل جو ائمہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے بروایت حضرت علی ،حضرت عبداللہ بن عباس،حضرت عطاء رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہے ان کو عارف باللہ شیخ احمد زاہدرحمۃاللہ علیہ نے جمع فرمایاان میں سے کچھ یہاں نقل کئے جاتے ہیںکہ’’مسواک کو لازم پکڑلواور کبھی اس سے غفلت نہ کرو،مداومت کرتے رہو۔کیونکہ مسواک کرنے والے سے رحمن راضی ہوتاہے اور مسواک کرنے والے کی نماز کا ثواب ننانوے درجہ تک بڑھ جاتا ہے اور بعض روایتوں میں چارسوتک ہے۔
۱۔مسواک کی پابندی کشادگی وغنا پیدا کرتی ہے ۔
۲۔رزق کو آسان کرتی ہے۔
۳۔منہ کو پاک وصاف کرتی ہے ۔
۴۔مسوڑھوں کو مضبوط بناتی ہے ۔
۵۔درد سر میں سکون بخشتی ہے ۔اور سر کی رگوں میں سکون ہو جاتا ہے یہاں تک کہ کوئی ساکن رگ حرکت نہیں کرتی ہے۔اور کوئی چلنے والی رگ ساکن نہیں ہوتی ۔
۶۔سرکا درد اور بلغم جاتا رہتا ہے۔
۷۔دانتوں کو قوت اور آنکھو ں کو جلا بخشتی ہے ۔
۸۔معدے کو درست کرتی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ بدن کو قوت دیتی ہے ۔
۹۔ الفاظ کی صحیح ادائیگی اورحفظ وعقل میں بھی اضافہ کرتی ہے ۔معا نیکیوں میں خوب خوب اضافہ کرتی ہے ۔
۱۰۔قلب کو پاکیزگی عطا کرتی ہے ۔
۱۱۔فرشتے خوش ہوتے ہیں اور اس سے مصافحہ کرتے ہیں اس کے چہرے کی روشنی کی وجہ سے۔
۱۲۔اور جب نماز کے لئے مسجد جاتاہے تو فرشتے اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں اور جب مسجد سے نکلتا ہے تو حاملین عرش کے فرشتے اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں یوں ہی حضرات انبیاء کرام ورسلان عظام علہیم السلام بھی اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔
۱۳۔مسواک شیطان کو ناراض اور دور کرنے والی ہے ۔
۱۴۔دہن کی صفائی اور ہضم طعام میں بھی معاون ہوتی ہے۔
۱۵۔اولاد کی کثرت کاسبب ہوتی ہے۔
۱۶۔پل صراط سے کوندتی بجلی کی طرح گذار دیتی ہے۔
۱۷۔بڑھاپے کو موخر کرتی ہے ۔اور پشت کو مضبوط بناتی ہے۔
۱۸۔قیامت کے دن مسواک کنندہ کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ہو گا۔
۱۹۔مسواک بدن کواطاعت خداوندی کے لئے چست کرتی ہے۔
۲۰۔بوقت نزع کلمہ شہادت کو یاد دلاتی ہے ،نزع کو آسان کرتی ہے ۔
۲۱۔دانتوں کو سفید اور چمکدار کرتی ہے۔منہ کی بو پاک کرتی ہے۔حلق اور زبان کو صاف وستھراکرتی ہے۔
۲۲۔سمجھ کو تیز کرتی ہے اوررطوبت کو روکتی ہے ۔نگاہ کو تیز کرتی ہے ۔اجر یعنی نیکی کے بدلے کو بڑھاتی ہے۔
۲۳۔قبر میں وسعت وکشادگی کاسبب ہوتی ہے قبرمیںاس کی مونس وغمخوار ہوتی ہے۔
۲۴۔مسواک کرنے والے کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔اور جہنم کے دروازے اسکے لئے بند کر دیئے جاتے ہیں ۔
۲۵۔روزانہ اس سے فرشتے کہتے ہیں کہ یہ حضرات انبیاء کرام علہیم السلام کی اقتداء کرنے والا،ان کے نقش قدم پرچلنے والااور ان کی سنت وطریقہ کو اپنانے والا ہے۔
۲۶۔فرشتہ موت اس کے پاس اس صورت میں آتاہے جس صورت میںاولیاء اللہ کے پاس آتا ہے۔
۲۷۔مسواک کرنے والادنیا سے کوچ نہیں کرتاجب تک کہ ہمارے آقاﷺکے حوض سے سیراب نہ ہو جائے جو کہ مہر شدہ شراب ہے۔۔۔۔۔اور ان سب فوائدسے بڑھ کریہ ہیکہ’’یہ منہ کی طہارت کا ذریعہ اور رضائے الہی کاسبب ہے۔‘‘وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔(حاشیہ الطحطاوی علی المراقی الفلاح،ج۱،ص۳۷)
مسواک کے مکروہات:
۱۔مسواک لیٹ کر نہ کرے کہ تلی بڑھنے کا سبب ہے۔
۲۔مٹھی سے پکڑنا ممنوع ہے کہ اس سے بواسیرپیداہوتی ہے۔
۳۔مسواک کو چوسا نہ جائے کہ اس سے وسوسہ اور اندھا پن پیداہوتا ہے۔
۴۔فارغ ہونے کے بعد نہ دھونا کہ اس سے شیطان کرتا ہے۔
۵۔بیت الخلاء میں مسواک کرنا مکروہ ہے۔
۶۔مسواک کھڑی کر کہ رکھنا چاہیے اسے زمین پر نہ ڈالیں ورنہ جنون کا خطرہ ہے ۔حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص مسواک کو زمین پر رکھنے کی وجہ سے مجنون ہو جائے تو وہ اپنے نفس کے علاوہ کسی کو ملامت نہ کرئے کہ یہ خود اس کی غلطی ہے۔
۷۔انار،ریحان اور بانس کی لکڑی سے مسواک کرنا مکروہ ہے اور حضور نبی کریم ﷺ نے ریحان کی مسواک سے منع فرمایا کہ یہ محرک جذام ہے ۔
۸۔مسواک ابتداء ایک بالشت کے برابر ہونی چاہیے بعد میں اگر کم ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اور ایک بالشت سے زیادہ لمبی نہ ہو کہ اس پر شیطان سوار ہوتا ہے ۔(ایضاً)
ایک نہایت ہی اہم اور ضروری فتوی… …مسواک کی جگہ منجن یا برش اور ٹوتھ پیسٹ کا استعمال :
منجن ،برش اور ٹوتھ پیسٹ کے استعمال سے مسواک کی سنت ادا ء نہیں ہو گی کہ ’’مسواک‘‘درخت کی ایک ایسی شاخ کو کہتے ہیں جس سے دانت کی صفائی کی جائے۔اس لحاظ سے منجن اور برش مسواک نہ ہوئے منجن کا مسواک نہ ہونا تو ظاہر ہے کہ نہ وہ درخت کی شاخ ،نہ اس میں مسواک کی طرح ریشے،نہ مسواک کی جیسی ہیئت۔اور برش میں گو کہ مسواک کی طرح ریشے ہوتے ہیں لیکن یہ درخت کی شاخ نہیں۔اور نہ اس میں مسواک کی طرح سے کڑوا پن ،اور نی ایسا مزہ پایا جاتاہے جومنہ کی بو دور کرئے اور پت وبلغم کو دور کر کہ طبعیت کو پر سکون بنائے اس لئے کہ یہ سنون مسواک کے حکم سے نہیںہو سکتے۔’’ برش‘‘ جس کو مسواک سے یک گونہ مشابہت ہے اس کے متعلق امام احمد رضا خاں محقق بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اصل تو یہ ہے کہ مسواک کی سنت چھوڑ کرنصرانیوں کا برش اختیا ر کرنا ہی سخت جہالت وحماقت اور مرض قلب کی دلیل ہے ۔(فتاوی رضویہ ، ج ۱۰،ص۸۰)
اس سے معلوم ہوا کہ برش کو اختیار کرنا مسواک کی سنت کو چھوڑنا ہے ۔ہاں اگر مسواک نہ ملے تو اب ان کے استعمال سے سنت مسواک ادا ء ہو جائے گی اس کی نظیر یہ مسئلہ ہے کہ ۔۔۔مسواک مفقود ہو تو انگلی یا سنگین کپڑا اس کے قائم مقام ہے ۔اور عورتوں کے لئے ’’مسی‘‘مطلقا ادائے سنت کے لئے کافی ہے ۔عالمگیری میں ہے کہ ’’انگلی مسواک کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ہاں اگر مسواک نہ ملے تو داہنے ہاتھ کی انگلی مسواک کے حکم میں ہو گی،ایسا ہی محیط وظہیریہ میں ہے ۔اور عورت کے لئے ’’مسی‘‘مطلقامسواک کا بدل ہے،ایسا ہی بحرالرائق اور در مختار میں بھی ہے۔’’مسواک نہ ہو یا دانت ہی نہ ہو تو کھردرا کپڑایا انگلی مسواک کے قائم مقام ہے ‘‘(بحر الرائق،ج۱،ص۷۸)
اعلی حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’مسواک نہ ہو تو انگلی سے دانت مانجنا ادائے سنت اور حصول ثواب کے لئے کافی نہیں ۔ہاں مسواک نہ ہو تو انگلی یا کھرکھرا کپڑا ادائے سنت کر دے گااور عورت کے لئے مسواک موجود ہو تب بھی مسی ہی کافی ہے ‘‘(فتاوی رضویہ،ج۱،ص۱۴۸)
مسواک اگر چہ جمہور علماء کے نزدیک سنت ہے لیکن فر ض یا واجب نہیں ۔مگر اس کے باوجوداس کے آداب ومستحبات کی رعایت نہایت ضروری ہے۔اس میں کوتاہی کرنا او ر لاپرواہی برتنانقصان دہ ہے۔حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر کسی شہر کے باشندے مسواک کا انکار کر دے تو امام وقت ان سے مرتدین کی طرح قتال کرے‘‘(خانیہ وغیرہ)
حضرت علامہ امام شعرانی رحمہ اللہ علیہ ’’کشف الغمہ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مسواک سے اعراض اور بے رغبتی کرئے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘۔۔پرور دگار عالم ہم تمام مسلمانوں کو اس سنت جمیلہ پر عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔۔آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ