بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جزاک اللہ بھائی
آج صبح بھی جب میں تلاوت قرآن پاک کر رہا تھا تو دل بھی رو رہا تھا آنسو بھی روا تھے اور ویسے دل میں ان لوگوں کو یادیں تھی کہ آج ہم کتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ ہماری (روحانی) بہنیں کفر کے قید میں ہیں اور ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن میرے والد صاحب کبھی کبھار فرماتے ہیں کہ بیٹا یہ درخت بھی کلہاڑی سے کہتا ہے کہ اگر میرا وجود تمھارے ساتھ نہ ہوتا تو تم کچھ بھی نہیں کر سکتے یعنی کلہاڑی میں لکڑی ہی کا دستہ استعمال ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟
عارف باللہ امام عبدالغفار بنی نوح القوصی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے [ عباسی خلیفہ] معتصم باللہ کو خبر پہنچی کہ ایک رومی فوجی افسر نے عموریہ سے قید ہونے والی ایک مسلمان عورت کو تھپڑ مارا تو اس عورت نے پکار کر کہا وامعتصماہ یہ سن کر فوجی افسر نے اسے [ طنزاً] کہا معتصم تو تمھارے پاس ابلق گھوڑے پر بیٹھ کر ہی آ سکے گا ۔ یہ خبر جب معتصم باللہ کو پہنچی تو اس نے ابلق گھوڑوں کی تلاش میں ہر طرف آدمی دوڑا دیئے اور ان گھوڑوں کو خریدنے کے لیے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے یہاں تک کہ اس نے اسی ہزار ابلق گھوڑے جمع کئے اور پھر اس نے پوری عزم سچی نیت اور اسلامی غیرت کے جذبے سے سر شار ہو کر بھر پور حملہ کیا اور اس پورے علاقے کو فتح کر لیا حالانکہ اس سے پہلے یہ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نہیں ہورہا تھا ۔ معتصم نے اسلامی غیرت میں آکر وہاں کافروں کو خوب قتل کیا اور زیادہ سے زیادہ قیدی بنائے اور شہروں کو آگ لگا دی اور اس عورت کو اور اسے تھپڑ مارنے والے رومی کو حاضر کرنے کا حکم دیا وہ دونوں جب آئے تو معتصم باللہ ابلق گھوڑے پر بیٹھا ہوا تھا ۔ اس نے کہا لو میں ابلق گھوڑے پر بیٹھ کر آچکا ہوں ۔ ( الوحیدفی سلوک التوحید)
واہ معتصماہ