اسلحہ عام آباد

عائشہ خٹک

محفلین
(آج آن لائن ایک کالم پڑھا سوچا آپ سے شئیر کروں ۔ فاروق قیصر میرے پسندیدہ کالم نویس اور ڈرامہ نگار ہے۔ انکا یہ کالم آپ سے شئیر کر رہی ہوں)

اسلام آباد کے بارے میں ہم بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور لکھتے بھی رہیں گے۔ اسلام آباد میں بڑے لوگوں کو اسلحہ رکھنے پر چونکہ کوئی چیکنگ نہیں اس لئے اسے’’ اسلحہ عام آباد‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ پچھلے کسی کالم میں ہم نے لوک ورثہ، نیشنل کونسل آف دی آرٹس، قبرستان ،چڑیا گھر، پی ٹی وی اور ریڈیو جیسے مردہ اداروں کے بارے میں لکھا تھا۔ آج ہم اپنے ضمیر کی فرمائش پہ چند زندہ ادا روں کا ذکر کریں گے جن کی پریکٹس اس شہر میں جوش و خروش سے جاری رہتی ہے۔
چونکہ ہمارے ہاں کرپشن میں بڑی یونٹی پائی جاتی ہے چنانچہ آپ کو یوں لگے گا جیسے یہ سارے واقعات آپ کے شہرکے ہی ہیں۔
انکل سرگم کے مطابق اسلام آباد ایک عجیب و غریب شہرہے ۔
اس میں عجیب لوگ وہ ہیں جوسرکاری بنگلوں کے اندررہتے ہیں اور غریب وہ ہیں جو ان بنگلوں کے باہر رہ کران کی چوکیداری کرتے ہیں۔
اس شہر میں کوئی کلچر نہیں دکھائی دیتا البتہ ہارٹی کلچر ہر طرف نظر آتا ہے۔
شہر میں کوئی سینما ہال نہیں لہذا لوگ تفریح کیلئے اسمبلی ہال چلے جاتے ہیں۔
اس شہرمیں افسروں کی ریل پیل ہے مگر ریل کوئی نہیں۔
سیاسی اڈے تو ہیں مگر بسوں اور ہوائی جہاز کا کوئی اڈہ نہیں۔
یہاں نہ رکشا ہے نہ تانگہ ہے نہ احتجاج ہے نہ ہنگامہ ہے۔
اسلام آباد کی شناخت کے لئے ہم نے چند چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے۔
اسلام آباد کی بولی:
چونکہ اسلام آباد میں پاکستان کے مختلف شہروں کے لوگ آباد ہیں چنانچہ اس شہر کی اپنی کوئی بولی نہیں،ہر کوئی دوسرے کی بولی ہی بولتاہے جس میں حاکم وقت کی بولی بولنا یہاں کے لوگ اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ الیکشن میں اسلام آباد ایک سیاسی منڈی بن جاتا ہے ،جہاں دوسرے علاقوں سے آنے والے سیاسی تاجر جمع ہو کر سیاسی گھوڑوں کی خریداری پہ اپنی اپنی بولیاں لگاتے ہیں اوراونچی بولی لگاکر کمزور کی بولتی بندکروادیتے ہیں۔بقول انکل سرگم، اسلام آباد میں زیادہ تر حاکم وقت کی بولی کا بول بالا رہتا ہے یعنی جو’’ حاکم وقت ‘‘بولتا ہے وہ ’’وقت کا حکم‘‘ بن جاتا ہے۔ دیگرمسئلوں کی طرح پاکستانی تماش بین بولی کے مسئلے پہ بھی یک زباں نہیں ہوسکے۔ یہاں عوام گھر میں مادری بولی بولتے ہیں، دفتری زبان انگلش ہے، قومی زبان اردو ہے، مذہبی زبان عربی ہے اور ترانہ فارسی زبان میں ہے۔
اسلام آباد کے بازار:
سرگم کے ذاتی مشاہدے کے مطابق کراچی بیداروں کا شہر ہے، لاہور بازاروں کا اور اسلام آبادبے زاروں کا شہرکہلاتا ہے۔یہاں بہت عرصہ پہلے والئ شہر یعنی چیئر مین سی ڈی اے نے ایک اتوار بازار لگوایا تھا۔ بعدمیں آنے والی حکومتیں بازار میں اضافہ تو نہ کر سکیں البتہ انہوں نے دنوں میں اضافہ کیا چنانچہ اب ہفتے میں تین دن بازارگرم رہتا ہے۔ان بازاروں کا فائدہ اُن دکانداروں کو ہوتا ہے جنکی سبزی شہروں میں نہیں بکتی اور نقصان اُن سرکاری اداروں کو ہوتاہے جن کے افسران کی بیگمات سرکاری گاڑیوں میں سرکاری پٹرول پہ ’’ اتوار بازاریاں ‘‘کرتی ہیں۔اس بازاری لوٹ مار میں سی ڈی اے کے تنخواہ دار ملازم بھی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بازار سی ڈی اے کے ملازمین کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ ان ملازمین کی مٹھی گرم کرنے سے اُن کی دکھاوے کی سختی اور کنٹرول کو نرمی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اسلام آباد میں مہنگائی کے مارے لوگ ہفتے بھر کی سبزی سستی سمجھ کر خریدتے ہیں اور پھر ہفتہ بھرباسی سبزی کھاتے ہیں۔ بقول سرگم ، اسلام آباد کے بازار اتنے حسین ہیں کہ ہر بازار ’’بازار حُسن‘‘ سا لگتاہے۔
اسلام آباد کے ہسپتال:
اسلام آباد میں چند سرکاری اور کئی بیوپاری ہسپتال ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں دعائیں کام آتی ہیں اور بیوپاری یعنی پرائیویٹ ہسپتالوں میں دوائیں۔سرکاری ہسپتال کو چند من چلے اور من جلے’ سرکاری ہنس کے ٹال‘ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اگر مریض چھوٹے گریڈ کا ہو تو اُسے ’’ہنس کے ٹال‘‘ دیا جاتا ہے جبکہ اونچے گریڈ کی اشرف المخلوقات کو وی آئی پی ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں عام مریض کا داخلہ اتنا ہی مشکل ہے جتناکہ کسی سکول میں۔ بونگا اس بات پہ حیران ہوتا ہے اسلام آباد میں ’’مینٹل ہاسپٹل‘‘ کوئی نہیں ہے۔ انکل سرگم کا کہناہے کہ اسلام آباد کے شہری مہنگائی سے اسقدر بے حس ہوچکے ہیں کہ انہیں نہ تو کسی حادثے سے صدمہ پہنچتا ہے اور نہ ہی کسی بات پہ خوشی محسوس ہوتی ہے لہٰذا جب ان کے پاگل ہونے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تو پھرپاگل خانے کی کیا ضرورت؟ سرکاری ہسپتال میں مریض ڈاکٹر کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور ڈاکٹر چھٹی ہونے کا۔کچھ دانشمند ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں مریض کو’’ چیک‘‘ کرتے ہیں اور پرائیویٹ کلینک میں اُسے ’’کیش‘‘ کرجاتے ہیں۔اس چیک اور کیش میں ڈاکٹروں کا کوئی قصور نہیں۔ ڈاکٹروں کی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ اگر کوئی سولہ گریڈ کا ملازم ڈاکٹر کی تنخواہ سنے تو وہ احساس برتری میں مبتلا ہو جائے۔ ان سرکاری ہسپتالوں کی ایمبولینس کی حالت کسی چھوٹے گریڈ کے مریض کی حالت جیسی ہوتی ہے جس کی تنخواہ رگڑ رگڑ کے چلتی ہے۔ ایمبولینس چونکہ اسلام آباد کی سڑکوں پہ کم ہی دوڑتی نظر آتی ہے اس لئے غیر ملکیوں کو یہی لگتا ہے کہ ’’بیمار کا حال اچھا ہے‘‘۔ان ہسپتالوں میں ’’بخشیش‘‘ کا زبانی قانون نافذ ہے جن پہ سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔خاکروب سے لے کر ایکسرے اور ٹیسٹ لیبارٹریوں تک بغیر بخشیش کے کام نہیں چلتا البتہ مریض چل دیتا ہے۔ بقول سرگم ،ان سرکاری ہسپتالوں میں عوام اپناسب کچھ لگاکرآتے ہیں اور اپنا سب کچھ گنوا کر جاتے ہیں۔
اسلام آباد کے تہوار:
اسلام آباد میں چونکہ ابھی اپنا کوئی تہوار نہیں بنا اس لئے یہاں کے لوگ تہوار منانے اپنے آبائی شہروں کو چلے جاتے ہیں۔بڑے بڑے لوگ دوسرے ملکوں کے تہوار بڑ ے انہماک سے مناتے ہیں۔ چنانچہ مدر ڈے، فادر ڈے، گرینڈ فادر ڈے اور ویلنٹائن ڈے، کرسمس نائٹ اور نیو ایر نائٹ ان کے پسندیدہ تہوار کہلاتے ہیں۔ان کے علاوہ بڑے بڑے لوگ غیر اسلامی ملکوں کی ایمبیسیوں کے خاص تہواروں اور خاص دنوں میں بھی بڑے شوق سے جاتے ہیں جہاں ٹیشو پیپر میں ڈھکے ہوئے گلاسوں میں ’’مشروبِ مغرب‘‘پیتے ہیں جس کے اثر سے ہونے والی گفتگو کو غیر ملکی انجوائے کرتے ہیں۔ مذہبی تہواروں میں بری امام اور گولڑہ شریف کے عرس بھی بڑے شوق و عقیدت سے منائے جاتے ہیں ،جن میں غریب نوجوان نواح میں ہونے والے ڈانس، جوئے ا ور نشے سے اپنا ’’شو ق او ر عقیدت‘‘ پورا کر لیتے ہیں ۔
کالم - فاروق قیصر
 

عاطف بٹ

محفلین
فاروق قیصر بلاشبہ ایک اچھے لکھاری اور معاشرتی نقاد ہیں اور اس کالم میں انہوں نے اسلام آباد کے حال کو بہت ہی عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے۔
شئیر کرنے کے لئے بہت شکریہ!
 
Top