اسلم کولسری کے انمول کلام سے ایک انتخاب: ہم دیوانے اپنے ایسے خواب کہاں لے جائیں

ہم دیوانے اپنے ایسے خواب کہاں لے جائیں
ننھی چڑیاں ہاتھ پہ بیٹھ کے دُنکا کھائیں
کس پتّی کی اوٹ میں سوئے،کس کانٹے سے اُلجھے
رات گئے تک جگنو اپنا اپنا حال سنائیں
صبح اگر ہم کاگ نہ پائیں،باغ کے سارے پنچھی
روشندان سے کمرے میں بھر جائیں،شور مچائیں
ساون رُت میں جب دیوانہ بادل چھم چھم برسے
پیپل کے پتوں پر بوندیں وہ تصویر بنائیں
ٹہنی ٹہنی کوئل کُوکے ، من میں آگ لگائے
بلبل قمری ٹھنڈے گیتوں کی شبنم چھڑکائیں
جب انجانی آگ میں جل کر ، کوئی گیت الاپوں
باہر مٹیاریں مسکائیں اور کواڑ بجائیں
شام سے پہلے پیلی دھوپ میں قاصد کاگا بولے
دھیرے دھیرے دروازے کے پٹ اندر کُھل جائیں
رات کے پچھلے پہر گڈریا ، جب چھیڑے بنسریا
پّروا کے شرمیلے جھونکے کتھک ناچ دکھائیں
سوچ کی اڑتی راکھ سے پھوٹیں کیسے کیسے منظر
اسلم ہم بتلائیں لیکن لفظ کہاں سے لائیں
 
Top