حسان خان
لائبریرین
ترا میخواهم و دانم که هرگز
به کامِ دل در آغوشت نگیرم
تویی آن آسمانِ صاف و روشن
من این کنجِ قفس، مرغی اسیرم
مجھے تمہاری آرزو ہے (لیکن) میں جانتی ہوں کہ جیسا میرا دل چاہتا ہے اُس طرح تمہیں آغوش میں نہیں لے پاؤں گی۔ تم وہ صاف اور روشن آسمان ہو جبکہ میں قفس کے اس کنارے میں ایک اسیر پرندہ ہوں۔
ز پشتِ میلههای سرد و تیره
نگاهِ حسرتم حیران به رویت
در این فکرم که دستی پیش آید
و من ناگه گشایم پر به سویت
ان سرد اور تاریک جالیوں کے پیچھے سے میری پُرحسرت نگاہیں تمہارے چہرے کی جانب حیرانی سے تاک رہی ہیں۔ میں اس فکر میں ہوں کہ کوئی ہاتھ سامنے آئے اور میں اچانک تمہاری جانب پر پھیلا دوں۔
در این فکرم که در یک لحظه غفلت
از این زندانِ خامش پر بگیرم
به چشمِ مردِ زندانبان بخندم
کنارت زندگی از سر بگیرم
میں اس فکر میں ہوں کہ ایک غفلت کے لمحے میں اس خاموش زندان سے پرواز کر جاؤں اور مردِ زندان بان کی آنکھوں کے سامنے (اُس کی ناکامی ظاہر کرنے کے لیے) خندہ زن ہوں۔ بعد ازاں، تمہارے پہلو میں نئے سرے سے زندگی کا آغاز کر دوں۔
در این فکرم من و دانم که هرگز
مرا یارای رفتن زین قفس نیست
اگر هم مردِ زندانبان بخواهد
دگر از بهرِ پروازم نفس نیست
میں اس فکر میں تو ہوں لیکن میں جانتی ہوں کہ مجھ میں ہرگز اس قفس کو چھوڑنے کی توانائی نہیں ہے۔ اگر داروغۂ زندان بھی یہ چاہے تب بھی اب مجھ میں پرواز کے لیے سانس باقی نہیں رہی ہے۔
ز پشتِ میلهها، هر صبحِ روشن
نگاهِ کودکی خندد به رویم
چو من سر میکنم آوازِ شادی
لبش با بوسه میآید به سویم
ان جالیوں کے پیچھے سے ہر صبحِ روشن ایک بچّے کی نگاہیں میرے چہرے کے سامنے مسکراتی ہیں۔ میں جب بھی خوشی کا نغمہ شروع کرتی ہوں تو اُس کے لب بوسے کے ہمراہ مری جانب آتے ہیں۔
اگر ای آسمان خواهم که یک روز
از این زندانِ خامش پر بگیرم
به چشمِ کودکِ گریان چه گویم
ز من بگذر، که من مرغی اسیرم
اے آسمان! اگر میں چاہوں کہ ایک روز اس خاموش زندان سے پرواز کر جاؤں تو پھر میں (اُس) طفلِ گریاں کی آنکھوں سے کیا کہوں گی: (کیا یہ کہ) مجھے چھوڑ دو کہ میں ایک اسیر پرندہ ہوں؟
من آن شمعم که با سوزِ دلِ خویش
فروزان میکنم ویرانهای را
اگر خواهم که خاموشی گزینم
پریشان میکنم کاشانهای را
میں وہ شمع ہوں کہ اپنے دل کے سوز سے ایک ویرانے کو فروزاں کرتی ہوں۔ (لیکن) اگر میں چاہوں کہ خاموشی اختیار کر لوں تو میں ایک کاشانے کو درہم برہم کر دوں گی۔
(فروغ فرخزاد)
به کامِ دل در آغوشت نگیرم
تویی آن آسمانِ صاف و روشن
من این کنجِ قفس، مرغی اسیرم
مجھے تمہاری آرزو ہے (لیکن) میں جانتی ہوں کہ جیسا میرا دل چاہتا ہے اُس طرح تمہیں آغوش میں نہیں لے پاؤں گی۔ تم وہ صاف اور روشن آسمان ہو جبکہ میں قفس کے اس کنارے میں ایک اسیر پرندہ ہوں۔
ز پشتِ میلههای سرد و تیره
نگاهِ حسرتم حیران به رویت
در این فکرم که دستی پیش آید
و من ناگه گشایم پر به سویت
ان سرد اور تاریک جالیوں کے پیچھے سے میری پُرحسرت نگاہیں تمہارے چہرے کی جانب حیرانی سے تاک رہی ہیں۔ میں اس فکر میں ہوں کہ کوئی ہاتھ سامنے آئے اور میں اچانک تمہاری جانب پر پھیلا دوں۔
در این فکرم که در یک لحظه غفلت
از این زندانِ خامش پر بگیرم
به چشمِ مردِ زندانبان بخندم
کنارت زندگی از سر بگیرم
میں اس فکر میں ہوں کہ ایک غفلت کے لمحے میں اس خاموش زندان سے پرواز کر جاؤں اور مردِ زندان بان کی آنکھوں کے سامنے (اُس کی ناکامی ظاہر کرنے کے لیے) خندہ زن ہوں۔ بعد ازاں، تمہارے پہلو میں نئے سرے سے زندگی کا آغاز کر دوں۔
در این فکرم من و دانم که هرگز
مرا یارای رفتن زین قفس نیست
اگر هم مردِ زندانبان بخواهد
دگر از بهرِ پروازم نفس نیست
میں اس فکر میں تو ہوں لیکن میں جانتی ہوں کہ مجھ میں ہرگز اس قفس کو چھوڑنے کی توانائی نہیں ہے۔ اگر داروغۂ زندان بھی یہ چاہے تب بھی اب مجھ میں پرواز کے لیے سانس باقی نہیں رہی ہے۔
ز پشتِ میلهها، هر صبحِ روشن
نگاهِ کودکی خندد به رویم
چو من سر میکنم آوازِ شادی
لبش با بوسه میآید به سویم
ان جالیوں کے پیچھے سے ہر صبحِ روشن ایک بچّے کی نگاہیں میرے چہرے کے سامنے مسکراتی ہیں۔ میں جب بھی خوشی کا نغمہ شروع کرتی ہوں تو اُس کے لب بوسے کے ہمراہ مری جانب آتے ہیں۔
اگر ای آسمان خواهم که یک روز
از این زندانِ خامش پر بگیرم
به چشمِ کودکِ گریان چه گویم
ز من بگذر، که من مرغی اسیرم
اے آسمان! اگر میں چاہوں کہ ایک روز اس خاموش زندان سے پرواز کر جاؤں تو پھر میں (اُس) طفلِ گریاں کی آنکھوں سے کیا کہوں گی: (کیا یہ کہ) مجھے چھوڑ دو کہ میں ایک اسیر پرندہ ہوں؟
من آن شمعم که با سوزِ دلِ خویش
فروزان میکنم ویرانهای را
اگر خواهم که خاموشی گزینم
پریشان میکنم کاشانهای را
میں وہ شمع ہوں کہ اپنے دل کے سوز سے ایک ویرانے کو فروزاں کرتی ہوں۔ (لیکن) اگر میں چاہوں کہ خاموشی اختیار کر لوں تو میں ایک کاشانے کو درہم برہم کر دوں گی۔
(فروغ فرخزاد)
آخری تدوین: