السلام علیکم،اساتیذِ محترم!
آج ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ایک تازہ غزل بغرض اصلاح پیش خدمت ہے، جو 8 فروری 2010 ء کو کہی گئی۔
ملاحظہ فرمائیے:
اسی دنیا کو جب میں نے اک بحرِ بیکراں سمجھا
ٹھکانہ دو گھڑی کا تھا اسی کو آشیاں سمجھا
کھلے اسرار مجھ پر یوں کہ جیسے اک سمندر ہو
اُسی کے در کو جب میں نے فلاحِ دو جہاں سمجھا
مری یہ زندگی یا رب گناہوں میں ہی گزری ہے
یہ دنیا اُخروی کھیتی ہے، مَیں اس کو کہاں سمجھا
گلوں کی بات ہی چھوڑو،بچے اب خار بھی کب ہیں
وہی قاتل لُٹیرے ہیں جنھیں تھا باغباں سمجھا
کِیا ان سے نہیں شکوہ ہمیں رسوائی کا ڈر تھا
سبب شاید یہی تھا وہ ہمیں بھی بے زباں سمجھا
مبارَک ہوں تمھیں یہ محل اور یہ مر مریں حُجرے
وہاں اب بُھوت بستے ہیں، جسے ہم نے مکاں سمجھا
یہی اک بھول تھی اپنی دوانہ کر دیا جس نے
جنھیں تھا راز داں سمجھا، اُنِھیں کو ترجماں سمجھا
کہیں بھی میں چلا جاؤں تو راقم لوٹ آتا ہوں
وطن کی پاک مِٹی کو ہی میں آغوشِ ماں سمجھا
آج ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ایک تازہ غزل بغرض اصلاح پیش خدمت ہے، جو 8 فروری 2010 ء کو کہی گئی۔
ملاحظہ فرمائیے:
اسی دنیا کو جب میں نے اک بحرِ بیکراں سمجھا
ٹھکانہ دو گھڑی کا تھا اسی کو آشیاں سمجھا
کھلے اسرار مجھ پر یوں کہ جیسے اک سمندر ہو
اُسی کے در کو جب میں نے فلاحِ دو جہاں سمجھا
مری یہ زندگی یا رب گناہوں میں ہی گزری ہے
یہ دنیا اُخروی کھیتی ہے، مَیں اس کو کہاں سمجھا
گلوں کی بات ہی چھوڑو،بچے اب خار بھی کب ہیں
وہی قاتل لُٹیرے ہیں جنھیں تھا باغباں سمجھا
کِیا ان سے نہیں شکوہ ہمیں رسوائی کا ڈر تھا
سبب شاید یہی تھا وہ ہمیں بھی بے زباں سمجھا
مبارَک ہوں تمھیں یہ محل اور یہ مر مریں حُجرے
وہاں اب بُھوت بستے ہیں، جسے ہم نے مکاں سمجھا
یہی اک بھول تھی اپنی دوانہ کر دیا جس نے
جنھیں تھا راز داں سمجھا، اُنِھیں کو ترجماں سمجھا
کہیں بھی میں چلا جاؤں تو راقم لوٹ آتا ہوں
وطن کی پاک مِٹی کو ہی میں آغوشِ ماں سمجھا