اسی دنیا کو جب میں نے اک بحرِ بیکراں سمجھا ۔۔۔۔۔عبدالعزیز راقم

راقم

محفلین
السلام علیکم،اساتیذِ محترم!
آج ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ایک تازہ غزل بغرض اصلاح پیش خدمت ہے، جو 8 فروری 2010 ء کو کہی گئی۔
ملاحظہ فرمائیے:

اسی دنیا کو جب میں نے اک بحرِ بیکراں سمجھا
ٹھکانہ دو گھڑی کا تھا اسی کو آشیاں سمجھا

کھلے اسرار مجھ پر یوں کہ جیسے اک سمندر ہو
اُسی کے در کو جب میں نے فلاحِ دو جہاں سمجھا

مری یہ زندگی یا رب گناہوں میں ہی گزری ہے
یہ دنیا اُخروی کھیتی ہے، مَیں اس کو کہاں سمجھا

گلوں کی بات ہی چھوڑو،بچے اب خار بھی کب ہیں
وہی قاتل لُٹیرے ہیں جنھیں تھا باغباں سمجھا

کِیا ان سے نہیں شکوہ ہمیں رسوائی کا ڈر تھا
سبب شاید یہی تھا وہ ہمیں بھی بے زباں سمجھا

مبارَک ہوں تمھیں یہ محل اور یہ مر مریں حُجرے
وہاں اب بُھوت بستے ہیں، جسے ہم نے مکاں سمجھا

یہی اک بھول تھی اپنی دوانہ کر دیا جس نے
جنھیں تھا راز داں سمجھا، اُنِھیں کو ترجماں سمجھا

کہیں بھی میں چلا جاؤں تو راقم لوٹ آتا ہوں
وطن کی پاک مِٹی کو ہی میں آغوشِ ماں سمجھا
 

محمد وارث

لائبریرین
اسی دنیا کو جب میں نے اک بحرِ بیکراں سمجھا

یہ مصرع اک کی وجہ سے بے بحر ہو رہا ہے راقم صاحب۔

مبارَک ہوں تمھیں یہ محل اور یہ مر مریں حُجرے

اس مصرعے میں 'محل' کا تلفظ غلط بندھا ہے، صحیح تلفظ 'مَحَل' ہے، آپ نے اسے ح ساکن کے ساتھ باندھ دیا ہے سو بے وزن ہے۔

وطن کی پاک مِٹی کو ہی میں آغوشِ ماں سمجھا

آغوش ماں کی ترکیب غلط ہے، صحیح آغوشِ مادر ہے کیونکہ فارسی عربی الفاظ کی ترکیب صرف فارسی عربی الفاظ کے ساتھ جائز ہے، ہندی سنسکرت یا دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ان کی ترکیب بنانا غلط ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ وارث، راقم، پہلے وارث کے مشوروں پر عمل کرو۔ میں بھی یہی نشان دہی کرتا۔ اس کے بعد دیکھتے ہیں۔
 

راقم

محفلین
جی، اساتیذِ محترم! کوشش کی ہے، دیکھ لیجیے

اسی دنیا کو جب میں نے اک بحرِ بیکراں سمجھا

یہ مصرع اک کی وجہ سے بے بحر ہو رہا ہے راقم صاحب۔

مبارَک ہوں تمھیں یہ محل اور یہ مر مریں حُجرے

اس مصرعے میں 'محل' کا تلفظ غلط بندھا ہے، صحیح تلفظ 'مَحَل' ہے، آپ نے اسے ح ساکن کے ساتھ باندھ دیا ہے سو بے وزن ہے۔

وطن کی پاک مِٹی کو ہی میں آغوشِ ماں سمجھا

آغوش ماں کی ترکیب غلط ہے، صحیح آغوشِ مادر ہے کیونکہ فارسی عربی الفاظ کی ترکیب صرف فارسی عربی الفاظ کے ساتھ جائز ہے، ہندی سنسکرت یا دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ان کی ترکیب بنانا غلط ہے۔

شکریہ وارث، راقم، پہلے وارث کے مشوروں پر عمل کرو۔ میں بھی یہی نشان دہی کرتا۔ اس کے بعد دیکھتے ہیں۔

السلام علیکم، اساتیذِ محترم!
استاذِ محترم وارث صاحب کی نشان دہی اور محترم اعجاز عبید صاحب کی تائید کے بعد ترامیم کرنے کی کوشش کی ہے، دیکھ کر بتائیے کہ اب یہ اشعار کیسے ہیں؟ سرخ الفاظ کے متبادل بھی ساتھ دیے ہیں ان میں سے کون سا لفظ مناسب رہے گا۔

یہی دنیا توتھی جس کومیں بحرِ بیکراں سمجھا
ٹھکانہ دو گھڑی کا تھا اسی کو آشیاں سمجھا

مبارَک ہو/ہوں تمھیں یہ شہر اور یہ مر مریں حُجرے
وہاں اب بُھوت بستے ہیں، جسے ہم نے مکاں سمجھا

وطن کی پاک مٹی کو بھلاؤں کیسے میں راقم
یہی اپنی محافظ ہے، اسی کو بادباں/سائباں سمجھا

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
محمود غزنوی نے درست حملہ کیا ہے۔ لیکن "اسی" بھی محلَ نظر ہے، کیا یہ بھرتی کا نہیں‌لگتا؟
 

مغزل

محفلین
بابا جانی سومنات بچا لیا آپ نے محمود غزنوی سے ۔
غزنوی صاحب اچھا اشاریہ ہے ۔
راقم صاحب ۔ رقمطراز ہوں۔
 

راقم

محفلین
تین اشعار میں ترامیم پوسٹ نمبر 5 میں دیکھیے۔

السلام علیکم۔
تین اشعار میں جو ترامیم کی گئی ہیں پوسٹ نمبر 5 میں ملاحظہ فرما کر اپنی رائے سے نوازیے۔
والسلام
 
Top