کاشفی
محفلین
غزل
(کیفی چریا کوٹی)
اسی کا نقش یہ ہستی ہے، مٹ گیا ہوں میں
کوئی بتائے کہ اب کس کو دیکھتا ہوں میں
نکل گیا تھا بہت دور اپنی ہستی سے
یہ کس کو ڈھونڈ رہا تھا کہ مل گیا ہوں میں
وہ جس نے چھوڑ دیا مجھ کو پاس منزل کے
اسی مسافرِ عارف کا نقشِ پا ہوں میں
تمام عمر ہے اس ذوقِ بے خودی کے نثار
وہ مل گیا ہے مگر اس کو ڈھونڈتا ہوں میں
دئے جا گردشِ پیہم نگاہ کو ساقی
کشید ہر دو جہاں آج پی رہا ہوں میں
حرم میں مجھ کو ہے یہ ذوقِ بندگی تسلیم
بتوں کے باب میں شرمندہء خدا ہوں میں
اسی کا نام سکوتِ نصیب ہے شاید
ازل کی بزم ہے اور ساز بے صدا ہوں میں
سمجھ گیا ہے حقیقت مجازِ خودبینی
کہ اس کے شوق میں اپنے کو پوجتا ہوں میں
یقین دل سے ہے اب وہ مجھے کرےگا قبول
لبِ رقیب پہ ہوں شوق کی دعا ہوں میں
سمجھ چکا ہے مسیحا بھی ایک مدت سے
کہ دردِ زیست میں، جب سے ہوں مبتلا ہوں میں
یہ کفرِ عشق ہے کیفی کہ عشقِ ایماں ہے؟
کہ یاد بت کی ہے اور بندہء خدا ہوں میں