نوید صادق
محفلین
غزل
اسے آنکھوں کا نور کہتے ہیں
اور دل کا سرور کہتے ہیں
اس کے مسکن کو ہم کوئی فردوس
اور اسے ایک حور کہتے ہیں
وہ بلاتے ہیں اپنے پاس مگر
اور جاوء تو دور دور کہتے ہیں
جو نہیں چاہتا کوئی سننا
ہم وہ باتیں ضرور کہتے ہیں
سب لگاتے ہیں عشق پر الزام
حسن کو بے قصور کہتے ہیں
ایک دن خاک میں پہنچتا ہے
ہر سرِ پر غرور کہتے ہیں
یاد رہتا ہے سننے والے کو
آپ جو کچھ حضور کہتے ہیں
ہوش میں ہم جو کہہ نہیں سکتے
ہو کے نشے میں چور کہتے ہیں
اپنے انور شعور کو اکثر
ہم سخنور شعور کہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر: انور شعور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ: ماہنامہ بیاض، مارچ 2009ء
اسے آنکھوں کا نور کہتے ہیں
اور دل کا سرور کہتے ہیں
اس کے مسکن کو ہم کوئی فردوس
اور اسے ایک حور کہتے ہیں
وہ بلاتے ہیں اپنے پاس مگر
اور جاوء تو دور دور کہتے ہیں
جو نہیں چاہتا کوئی سننا
ہم وہ باتیں ضرور کہتے ہیں
سب لگاتے ہیں عشق پر الزام
حسن کو بے قصور کہتے ہیں
ایک دن خاک میں پہنچتا ہے
ہر سرِ پر غرور کہتے ہیں
یاد رہتا ہے سننے والے کو
آپ جو کچھ حضور کہتے ہیں
ہوش میں ہم جو کہہ نہیں سکتے
ہو کے نشے میں چور کہتے ہیں
اپنے انور شعور کو اکثر
ہم سخنور شعور کہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر: انور شعور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ: ماہنامہ بیاض، مارچ 2009ء