فرخ منظور
لائبریرین
اس آباد خرابے میں
ابنِ انشا
کلامِ تازہ اور انتخاب
پیش لفظ
انشا جی کا پہلا مجموعہ کلام چاند نگر تھا جو 1955 میں پہلی بار شائع ہوا۔ یہ اس دور کی بات تھی جب انسان کے قدم چاند پر نہ پہنچے تھے انشا جی یہ اس زندگی کے خاکے ہیں جو میں نے اٹھائیس برس میں بسر کی ہے گرجا کا گھڑیال جو دو بجاتا ہے گاڑی کی سیٹی جو گونج اٹھتی ہے ریل کی پلیا بھی کہ مضافات میں نظر آتی ہے اور چاند۔۔۔آبادیوں اور ویرانوں کا چاند ۔۔۔یہ سب ماضی کی کھونٹیاں ہیں جن پر میں نے یادوں کے پیراہن لٹکا رکھے ہیں اب آپ میراساتھ چھو ڑ کر اس چاندنگر کی سیر کیجئے اور میں نے اسے تلابخلی دے کر کسی نئے سفر پر نکلوں گا نہ مجھے اپنا حسن کا ایلڈوریڈو ملا ہے نہ زندگی کا شہر تمنا۔۔۔ میری منزل چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادی طویل میں ہے اس سے واپسی ہوئی تو جو کچھ دامن میں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ کلیاں ،کانٹے، یا غبار، وہ پیش کروں گا۔
لیکن چاند کی پہاڑیوں سے انشا جی واپس لوٹے تو انسان کے قدم چاند پر پہنچ چکے تھے لیکن نیچے دھرتی کا احوال وہی تھا جو کچھ چاند نگر کے دیباچے میں لکھا تھا اور وہ آج بھی ہے دھرتی اور دھرتی والوں کے مسئلے وہی ہیں جنگ و امن، امارات و احتیاج، استعمار و محکومیت یہاں ملک تو آزاد ہو رہے ہیں لیکن انسان آزاد نہیں ہو رہے۔ اپنے دو سرے مجموعے ’اس بستی کے ایک کوچے میں‘، جو ۶۷ء میں طبع ہوئی، کے دیباچے میں انشا جی لکھتے ہیں ’ایک طرف اسباب دنیا کی فراوانی ہے غلے کے گودام بھرے ہیں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں دوسری طرف حبشہ اور چڈاریٹڑ کی جھلسی ہوئی ویرانی میں انسان اناج کے ایک دانے کے لئے جانوروں کاسوکھا گوبر کرید رہا ہے اور ہزاروں لاکھوں لوگ تپتے تانبے کے آسمان تلے ایڑیاں رگڑتے دم توڑ رہے ہیں‘ُ ۔
شاعر اور ادیب کا ضمیر عالم کی آواز کہلاتا ہے، اپنی ذات کے خول میں دم سادھے بیٹھا ہے احتجاج کی منخنی صدا بھی نہیں۔ ایسے میں ذاتی جوگ بجوگ کی دھوپ چھاؤں کا یہ مرقع پیش کرتے ہوئے ہم کیسے خوش ہو سکتے ہیں یہ ہمارے پچھلے بیس سال کا نامۂ اعمال ہے اب پڑھنے والا بھی حکم صادر کرے انشا جی کے دونوں مجموعۂ کلام کے درمیان بیس سال کا وقفہ تھا اور اب جب کہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں وہ چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادی طویل میں اتنی دور نکل گئے کہ واپسی کا امکان ہی نہیں ہے۔ ان کے کاغذات میں سے ایک بیاض بھی ملی تھی جس کا عنوان دل وحشی تھا۔ شاید انہوں نے اپنے تیسرے مجموعہ کلام کا عنوان سوچا تھاسو اب یہ مجموعہ اسی نام سے شائع کیا جا رہا ہے اس مجموعہ کلام میں جو غزلیں ،نظمیں،شائع کی جا رہی ہیں وہ انشا جی کی بیاض میں لکھی ہوئی ہیں ہو سکتا ہے ان کا ارادہ نظر ثانی کرنے کا ہو لیکن زندگی نے مہلت نہ دی ہمیں یہ جس حالت میں ملی ہیں اسی صورت میں شائع کر دی ہیں۔ بہت سی نظمیں۔ غزلیں،نامکمل ہیں ممکن ہے خام صورت میں ہوں۔ کچھ کے صرف ایک دو شعر ہی کہے گئے ہیں۔۔۔۔۔ یہ اشعار جو ہمیں ملے ہیں انشا جی نے مختلف ادوار میں کہے ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ قاری کو اس میں پہلے دور کی تازگی محسوس ہو۔ رہی درمانویت اور پرانے موسموں کی خوشبو جو چاند نگر کا خاصا ہیں اور کہیں اس پختگی کا احساس ہو جو اس بستی کے ایک کوچے میں پائی جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر آپ کو اس میں انشا جی کا تیسرا رنگ نظر آئے گا اس میں ا نہوں نے ا پنے جوگ بجوگ کی دھوپ چھاؤں کا مرقع ہی نہیں ا نسانی زندگی کی دھوپ چھاؤں کا مرقع بھی پیش کیا ہے،
اس مجموعے میں اگر آپ کو کوئی خامی یا کمزوری نظر آئے تو اسے صرف ہم سے منسوب کیجئے گا انشا جی سے نہیں کہ اگر زندگی وفا کرتی تو نہ جانے کس صورت میں آپ کے ہاتھوں میں پہنچتا
سردار محمود
محمود ریاض
***
جب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاںا پنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب ناما دھر کا آیا کیوں
سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار ولار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیاج بھی دے لیں گے
ہں اور خراج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں اس مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیاسنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس ؟
کیا عمرا پنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی زالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہاں تم سے ہمارا رشتہ ہے
کیاسود بیاج کا لالچ ہے ؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ آنکھوں کت جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو اپنے جی میں اتار لیا
لو ہم نے تم کو ادھار لیا
انشا جی کی کیا بات بنے گی
انشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے
ہم کس دل کا روگ بنے ، کس سینے کا ناسور ہوئے
بستی بستی آگ لگی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے
رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکناچور ہوئے
لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے
اب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے
اے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ
قافلے والے دور گئے ، بجھنے دواگر بجھتا ہے الاؤ
ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ
سمے سمے کا ایک را گ ہے ،سمے سمے کاا پنا بھاؤ
آس کی اُجڑی پھلواری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ
پچھلے پہر کے اندھیارے میں کافوری شنعیں نہ جلاؤ
انشا جی وہی صبح کی لالی ۔ انشا جی وہی شب کاسماں
تم ہی خیال کی جگر مگر میں بھٹک رہے ہو جہاں تہاں
وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہاریں وہی خزاں
ایک قدم کی بات ہے یوں تو رد پہلے خوابوں کا جہاں
لیکن دورا فق پر دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں
بادل بادل امڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں
منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ رہے سستائے
ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے
روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے
قدم قدم پر مدماتی مسکان بھرے پر ہاتھ نہ آئے
چندرما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے
ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے
جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جوگی سیس نوائے
تم پر یوں کے راج دلارے ،تم اونچے تاروں کے کوی
ہم لوگوں کے پاس یہی اجڑا انبر ، اجڑی دھرتی
تو تم اڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری
ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی
تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو اور ندیاں سنگیت بھری
ہم پت جھڑ کی اجڑی بیلیں ، زرد زرد الجھی الجھی
ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تو کل تک جن کو پیاروں میں
حال ہماراسنتے تھے تو لوٹتے تھے انگاروں میں
آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں
آتے ہیں نیپام اگلتے وحشی سبزہ زاروں میں
آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیاداروں میں
حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں اخباروں میں
اوروں کی تو باتیں چھوڑو ، اور تو جانے کیا کیا تھے
رستم سے کچھ اور دلاور بھیم سے بڑہ کر جودھا تھے
لیکن ہم بھی تند بھپرتی موجوں کا اک دھارا تھے
انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے
نا ہم اتنے چپ چپ تھے تب، نا ہم اتنے تنہا تھے
اپنی ذات میں راجا تھے ہم اپنی ذات میں سینہ تھے
طوفانوں کا ریلا تھے ہم ، بلوانوں کی سینا تھے
پھر تمہارا خط آیا
شام حسرتوں کی شام
رات تھی جدائی کی
صبح صبح ہر کارہ
ڈاک سے ہوائی کی
نامۂ وفا لایا
پھر تمہارا خط آیا
پھر کبھی نہ آؤنگی
موجۂ صبا ہو تم
سب کو بھول جاؤنگی
سخت بے وفا ہو تم
دشمنوں نے فرمایا
دوستوں نے سمجھایا
پھر تمہارا خط آیا
ہم تو جان بیٹھے تھے
ہم تو مان بیٹھے تھے
تیری طلعتِ زیبا
تیرا دید کا وعدہ
تیری زلف کی خوشبو
دشتِ دور کے آہو
سب فریب سب مایا
پھر تمہارا خط آیا
ساتویں سمندر کے
ساحلوں سے کیوں تم نے
پھر مجھے صدا دی ہے
دعوت وفا دی ہے
تیرے عشق میں جانی
اور ہم نے کیا پایا
درد کی دوا پائی
دردِ لادوا پایا
کیوں تمہارا خط آیا
کیوں نام ہم اس کے بتلائیں
تم اس لڑکی کو دیکھتے ہو
تم اس لڑکی کو جانتے ہو
وہ اجلی گوری ؟ نہیں نہیں
وہ مست چکوری نہیں نہیں
وہ جس کا کرتا نیلا ہے؟
وہ جس کا آنچل پیلا ہے ؟
وہ جس کی آنکھ پہ چشمہ ہے
وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے
ان سب سے الگ ان سب سے پرے
وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے
کیا گول مٹول سا چہرہ ہے
جو ہر دم ہنستا رہتا ہے
کچھ چتان ہیں البیلے سے
کچھ اس کے نین نشیلے سے
اس وقت مگر سوچوں میں مگن
وہ سانولی صورت کی ناگن
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
یہ گیت اسی کا در پن ہے
یہ گیت ہمارا جیون ہے
ہم اس ناگن کے گھائل تھے
ہم اس کے مسائل تھے
جب شعر ہماری سنتی تھی
خاموش دوپٹا چنتی تھی
جب وحشت اسے سستاتی تھی
کیا ہرنی سی بن جاتی تھی
یہ جتنے بستی والے تھے
اس چنچل کے متوالے تھے
اس گھر میں کتنے سالوں کی
تھی بیٹھک چاہنے والوں کی
گو پیار کی گنگا بہتی تھی
وہ نار ہی ہم سے کہتی تھی
یہ لوگ تو محض سہارے ہیں
انشا جی ہم تو تمہارے ہیں
اب اور کسی کی چاہت کا
کرتی ہے بہانا ۔۔۔ بیٹھی ہے
ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا
دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں
یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں
نا دل مانا ، نا ہم مانے
انجام تو سب دنیا والے جانے
جو ہم سے ہماری وحشت کا
سنتی ہے فسانہ بیٹھی ہے
ہم جس کے لئے پردیس پھریں
جوگی کا بدل کر بھیس پھریں
چاہت کے نرالے گیت لکھیں
جی موہنے والے گیت لکھیں
اس شہر کے ایک گھروندے میں
اس بستی کے اک کونے میں.
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
اس درد کو اب چپ چاپ سہو
انشا جی لہو تو اس سے کہو
جو چتون کی شکلوں میں لیے
آنکھوں میں لیے ،ہونٹوں میں لیے
خوشبو کا زمانہ بیٹھی ہے
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
ہم جس کے لیے پردیس پھرے
چاہت کے نرالے گیت لکھے
جی موہنے والے گیت لکھے
جو سب کے لیے دامن میں بھرے
خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے
جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی
جو درد بھی ہے اور دار و بھی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
وہ کل بھی ملنے آئی تھی
وہ آج بھی ملنے آئی ہے
جو اپنی نہیں پرائی ہے
دور تمہارا دیس ہے مجھ سے
دور تمہارا دیس ہے مجھ سے اور تمہاری بولی ہے
پھر بھی تمہارے باغ ہیں لیکن من کی کھڑکی کھولی ہے
آؤ کہ پل بھر مل کے بیٹھیں بات سنیں اور بات کہیں
من کی بیتا ،تن کا دکھڑا ، دنیا کے حالات کہیں
اس دھرتی پر اس دھرتی کے بیٹوں کا کیا حال ہوا
رستے بستے ہنستے جگ میں جینا کیوں جنجال ہوا
کیوں دھرتی پہ ہم لوگوں کے خون کی نسدن ہولی ہے
سچ پوچھو تو یہ کہنے کو آج یہ کھڑکی کھولی ہے
بیلا دیوی آج ہزاروں گھاؤ تمہارے تن من ہیں
جانتا ہوں میں جان تمہاری بندھن میں کڑے بندھن میں
روگ تمہارا جانے کتنے سینوں میں بس گھول گیا
دور ہزاروں کوس پہ بیٹھے ساتھی کا من ڈول گیا
یاد ہیں تم کو سانجھے دکھ نے بنگالے کے کال کے دن
راتیں دکھ ور بھوک کی راتیں دن جی کے جنجال کے دن
تب بھی آگ بھری تھی من میں اب بھی آگ بھری ہے من میں
میں تو یہ سو چوں آگ ہی آگ ہے اس جیون میں
ا ب سو نہیں جانا چاہے رات کہیں تک جائے
ا ن کا ہاتھ کہیں تک جائےا پنی بات کہیں تک جائے
سانجھی دھرتی سانجھاسورج ،سانجھے چاند اور تارے ہیں
سانجھی ہیں سبھی دکھ کی ساری باتیں سانجھے درد ہمارے
گولی لاٹھی ہیسہ شاسن دھن دانوں کے لاکھ سہارے
وقت پڑیں کس کو پکاریں جنم جنم کے بھوک کے مارے
برس برس برسات کا بادل ندیاسی بن جائے گا
دریا بھی اسے لوگ کہیں گے ساگر بھی کہلائے گا
جنم جنم کے ترسے من کی کھیتی پھر بھی ترسے گی
کہنے کو یہ روپ کی برکھا پورب پچھم برسے گی
جس کے بھاگ سکندر ہوں گے بے مانگے بھی پائے گا
آنچل کو ترسانے والا خود دامن پھیلائے گا
انشا جی یہ رام کہانی پیت پہلی بوجھے کون
نام لیے بن لاکھ پکاریں بوجھ سہیلی بوجھے کون
وہ جس کے من کے آنگن میں یادوں کی دیواریں ہوں
لاکھ کہیں ہوں روپ جھروکے ،لاکھ البیلی ناریں ہوں
اس کو تو ترسانے والا جنم جنم ترسائے گا
کب وہ پیاس بجھانے والا پیاس بجھانے آئے گا
اے دل دیوانہ
مہجور ہے دکھانا ؟
رنجور ہے دکھانا ؟
ا پنے سے غافل تھا
ا ن کو بھی نہ پہچانا
کیوں اے دل دیوانہ
وہ آپ بھی آتے تھے
ہم کو بھی بلاتے تھے
کل تک جو حقیقت تھی
کیوں آج ہےا فسانہ
ہاں اے دل دیوانہ
وہ آج کی محفل میں
ہم کو بھی نہ پہچانا
کیاسوچ لیا دل میں
کیوں ہو گیا بیگانہ
کیوںا ے دل دیوانہ
ہاں کل سے نہ جائیں گے
پر آج تو ہو آئیں
ہاں رات کے دریا میں
مہتاب ڈبو آئیں
وہ بھی ترا فرمانا
ہاں اے دل دیوانا
ہاں اے دل دیوانا
وہ آج کی محفل میں
ہم کو بھی نہ پہچانا
کیاسوچ لیا دل میں
کیوں ہو گیا بیگانہ
ہاں اے دل دیوانا
وہ آپ بھی آتے تھے
ہم کو بھی بلاتے تھے
کس چاہ سے ملتے تھے
کیا پیار جتاتے تھے
کل تک جو حقیقت تھی
کیوں آج ہےا فسانہ
ہاں اے دل دیوانا
بس ختم ہوا قصہ
اب ذکر نہ ہو اسکا
وہ شخص وفا دشمن
اب اس سے نہیں ملنا
گھر اس کے نہیں جانا
ہاں اے دل دیوانا
ہاں کل سے نہ جائیں گے
پر آج تو ہو آئیں
اس کو نہیں پاسکتے
اپنے ہی کو کھو آئیں
تو باز نہ آئے گا
مشکل تجھے سنجھانا
وہ بھی ترا کہنا تھا
یہ بھی ترا فرمانا
چل اے دل دیوانا
جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
دل بہلنے کی نہیں کوئی سبیل
جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
ڈالتا ہوں اپنے ماضی پر نگاہ
گاہے گاہے کھنچتا ہوں سرد آہ
کس طرح اب دل کو رہ پر لاؤںمیں
کس بہانے سے اسے بھولاؤں میں
سب کو محو خواب راحت چھوڑ کے
نیند آتی ہے مرے شبستاں میں مرے
مجھ کو سوتے دیکھ کر آتا ہے کوئی
میرے سینے سے چمٹ جاتا ہے کوئی
دیکھتا ہوں آکےا کثر ہوش میں
کوئی ظالم ہے مری آغوش میں
خود کو مگر تنہا ہی پاتا ہوں میں
پھر گھڑی بھر بعد سوجاتا ہوں میں
پھر کسی کو دیکھتا ہوں خواب میں
اس دفعہ پہچان لیتا ہوں تمہیں
بھاگ جاتے ہو قریب صبحدم
چھوڑ دیتے ہو رہین رنج و غم
مجھ کو تم سے عشق تھا مدت ہوئی
ان دنوں تم کو بھی الفت مجھ سے تھی
کم نگاہیا قتصائے سال و سن
کیا ہوئی تھی بات جانے ایک دن
بندا پنا آنا جانا ہو گیا
اور اس پر اک زمانا ہو گیا
تم غلط سمجھے ہوا میں بد گماں
بات چھوٹی تھی مگر پہنچی کہاں
جلد ہی میں تو پیشماں ہوگیا
تم کو بھیا حساس کچھ ایسا ہوا
نشہ پندار میں لیکن تھے مست
تھی گراں دونو پہ تسلیم شکست
ہجر کے صحرا کو طے کرنا پڑا
مل گیا تھا رہنما امید سا
ہے مری جرات کی اصل اب بھی یہی
دل یہ کہتا ہے کہ دیکھیں تو سہی
جس میں اترا تھا ہمارا کارواں
اب بھی ممکن ہے وہ خالی ہو مکاں
آج تک دیتے رہے دل کو فریب
اب نہیں ممکن ذراتاب شکیب
آؤ میرے دیدہ تر میں رہو
آؤ اس اجڑے ہوئے گھر میں رہو
حوصلے سے میں پہل کرتا تو ہوں
دل میں اتناسوچ کر ڈرتا بھی ہوں
تم نہ ٹھکرا دو مری دعوت کہیں
میں یہ سمجھوں گا اگر کہہ دو نہیں
گردش ایام کو لوٹالیا
میں نے جو کھو دیا تھا پا لیا
تلانجلی
تو جو کہے تجدید محبت میں تو مجھے کچھ عار نہیں
دل ہے بکار خویش ذرا ہشیار ،ابھی تیار نہیں
صحرا جو عشق جنوں پیشہ نے دکھائے دیکھ چکا
مد و جرز کی لہریں گھٹتے بڑھتے سائے دیکھ چکا
عقل کا فرمانا ہے کہ اب اس دام حسیں سے دور ہوں
زنداں کی دیواروں سے سر پھوڑ مرا نوخیز جنوں
صحبت اول ہی میں شکست جرات تنہا دیکھ چکا
(۲)
کاوش نغمہ رنگ اثر سے عاری کی عاری ہی رہی
جلوہ گری تیری بھی نشاط روح کاساماں ہو نہ سکی
سوچ رہا ہوں کتنی تمناؤں کو لیے آیا تھا یہاں
مجھ پہ نگاہ لطف تری اب بھی ہے مگر پہلی سی کہاں
آج میں ساقی یاد ہوں تجھ کو درد تہ ساغر کے لیے
کل کی خبر ہے کس کو بھلا اتنا بھی رہے کل یانہ رہے
دھندکے بادل چھوٹ رہے ہیں ٹوٹتے جاتے ہیںافسو
سوچ رہا ہوں کیوں نہ اسی بے کیف فضا میں لوٹ چلوں
ساقی رعنا تجھ سے یہی کم آگہی کا شکوہ ہی رہا
کاوش نغمہ رنگ اثر سے عاری کی عاری ہی رہی
حیلہ گری تیری بھی نشاط روح کاساماں ہو نہ سکی
لذت و زیرو بم سے رہی محروم نوائے بربط و نے
ڈھل نہ سکے آہنگ میں خاکے آنہ سکی فریاد میں لے
کر دیکھی ہر رنگ میں تو نے سعی نشاط سوزدروں
پھر بھی اے مطرب خلوت محمل میں رہی لیلائے سکوں
کشتی آوارہ کو کسی ساحل کاسہارا مل نہ سکا
دیکھ چکا انجام تمنا ، جان تمنا تو ہی بتا
ہے یہی نشہ غایت صہباساقی رعنا تو ہی بتا
چارہ غم تھا دعوی نغمہ ،خالق نغمہ تو ہی بتا
حسن کا احساںا ٹھ نہ سکے تو عشق کاسوداچھوڑ نہ دوں
کیف بقدر ہوش نہ ہو تو ساغر صہبا پھوڑ نہ دوں
بربط و نے سے کچھ نہ بنے تو بربط ونے کو توڑ دوں
قطع جنوں میں جرم ہی کیا ہے پھر مری لیلی تو ہی بتا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے
طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے
بہت روئے اب آنسو ہیں گراں یاب
کہاں ڈوبا ہے جا کے دل کا مہتاب
ستارے صبح خنداں کے ستارے
بھلا ا تنی بھی جلدی کیا ہے پیارے
کبھی پوچھا بھی تو نے ۔۔۔کس کو چاہیں
لے پھرتے ہیں ویراں سی نگاہیں
ہماری جاں پہ کیوں ہیں صدمے بھاری
نفس کاسوز ، دل کی بے قراری
خبر بھی ہے ہمارا حال کیا ہے
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
حکایت ہے ابھی پچھلے دنوں کی
کوئی لڑکی تھی ننھی کا منی سی
گلے زیبا قبائے ، نو بہارے
سیہ آنچل میں اوشا کے ستارے
بہت صبحوں کی باتیں تھیں انیلی
بہت یادوں کی باتیں تھیا نیلی
کبھی سامان تھے دل کے توڑنے کے
کبھی پیمان تھے پھر سے جوڑنے کے
عجب تھا طنز کرنے کا بہانا
نہ تم انشا جی ہم کو بھول جانا
بہت خوش تھے کے خو ش رہنے کے دن تھے
بہر ساعت غزل کہنے کے دن تھے
زمانے نے نیا رخ یوں دیا
اسے ہم سے ہمیں اس سے چھڑایا
پلٹ کر بھی نہ دیکھا پھر کسی نے
اسی عالم میں گزرے دو مہینے
کگر ہم کیسی رو میں بہ چلے ہیں
نہ کہنے کی ہیں باتیں کہہ چلے ہیں
ستارے صبح روشن کے ستارے
تجھے کیا ہم اگر روتے ہیں پیارے
ہمارے غم ہمارے غم رہیں گے
ہم اپنا حال تجھ سے نہ کہیں گے
گزر بھی جا کہ یاں کھٹکا ہوا ہے
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
اندھی شبو ؛ بے قرار راتو
اندھی شبو ؛ بے قرار راتو ؛
اب تو کوئی جگمگاتا جگنو
اب کوئی تمتماتا مہتاب
اب تو کوئی مہرباں ستارہ
گلیوں میں قریب شام ہر روز
لگتا ہے جو صورتوں کا میلہ
آتا ہے جو قامتوں کا ریلا
کہتی ہیں حیرتی نگاہیں
کس کس کو ہجوم میں سے چاہیں
لیکن یہ تمام لوگ کیا ہیں
ا پنے سے دور ہیں جدا ہیں
ہم نے بھی تو جی کو خاک کر کے
دامان شکیب چاک کر کے
وحشت ہی کا آسرا لیا تھا
جینے کو جنوں بنا لیا تھا
اچھا نہ کیا۔۔۔۔مگر کیا تو
اندھی شبو ، بے قرار راتو
کب تک یونہی محفلوں کے پھرے
اچھے نہیں جی کے یہ اندھیرے
اب تو کوئی بھی دید نہیں ہے
ہونے کی بھی امید نہیں ہے
ہم بھی تو عہد پاستاں ہیں
ماضی کے ہزار داستاں ہیں
پیماں کے ہزار باغ توڑے
دامان وفا پہ داغ چھوڑے
دیکھیں جو انا کے روزنوں سے
پیچھے کہیں دور دور مدھم
پراں ہیں خلا کی وسعتوں میں
اب بھی کئی ٹمٹماتے جگنو
اب بھی کئی ڈبڈباتے مہتاب
اب بھی کئی دستاں ستارے
آزردہ بحال ، طپاں ستارے
پیچھے کو نظر ہزار بھاگے
لوگو رہ زندگی ہے آگے
جتنے یہاں راز دار غم ہیں
تارے ہیں کہ چاند ہے کہ ہم ہیں
ا ن کا تو اصول ہے یہ بانکے
اس دل میں نہ اور کوئی جھانکے
خالی ہوئے جام عاشقی کے
اکھڑے ہیں خیام عاشقی کے
قصے ہیں تمام عاشقی کے
واردات
رات پھرا ن کا انتظار رہا
رات پھر گاڑیاں گزرتی ہیں
وہ کوئی دم میں آئے جاتے ہیں
راہیں سرگوشیاں ہی کرتی رہیں
ایک امید باز دید جو تھی
دل کبھی یاس آشنا نہ ہوا
کب ہوئے وہ نگاہ سے اوجھل
کب انھیں سامنے نہیں پایا
رات پھر میں نے ان سے باتیں کی
رات تک میرے پاس تھے گویا
ہونٹ، رخسار ، کا کلیں ، باہیں
ایک اک چھو کے دیکھ سکتا تھا
پڑگیاسست رات کا جادو
دیکھتے دیکھتے سماں بدلا
ہولے ہولے سرک گئے تارے
چاند کا رنگ پڑ گیا پھیکا
اور پھر مشرقی جھروکے سے
صبح دم آفتاب نے جھانکا
در پہ باہر کسی نے دستک دی
(ڈاکیا ڈاک لے کے آیا تھا )
ایک دو ہی تو لفظ تھے خط میں
اب سکوں آشنا ہیں دیدہ و دل
اب کریں ا نتظار تو کس کا
وہ حسیں ہونٹ وہ حسیں آنکھیں
پھول سا جسم چاند سا چہرہ
عنبریں زلفیں ، مخملیں باہیں
آج تک جن کا لمس باقی تھا
اب فقط ان کی یاد باقی ہے
لٹ گیا عشق کاسرو ساماں
شہر امید ہو گیا ہے ویراں
اس کی اک روئدار باقی ہے
ایک اجڑ سواد باقی ہے
شام ہوئی ہے
شام ہوئی ہے ڈگر ڈگر میں پھیلی شب کی سیائی ہے
پچھم اور کبھی کا ڈوبا ،چار پہر کا راہی ہے
آج کا دن بھی آخر بنتا جگ جگ کا جنجال لیے
اندھیارے نے ایک جھپٹ میں چاروں کوٹ سنبھال لیے
رات نے خیمے ڈیرے ڈالے ہولے ہولے کہاں کہاں
پورپ پچھم اتر دکھن ،پھیلا کالا بھبھوت دھواں
سانجھ سمے کی چھایا بیری ،اس کا ناش ناش ہو
دھندکا پھندا جگ جگ پھیلا ا ندھا نیل آکاش ہوا
سہماسہما ریل کے کالے پل پر دیر سے بیٹھا ہوں
سوچ رہا ہوں سیر تو ہولی ٹھہروں یا گھر لوٹ چلوں
شنٹ کے انجن دھواں اڑاتے آتے ہیں کبھی جاتے ہیں
رنگ برنگے سنگنل ان کو کیا کیا ناچ نچاتے ہیں
جنگلے پر پل کو جھکا اور ا نگلیوں سے اسے تھپکایا
کوئی مسافر مزے مزے میں پیت کا گیت الاپ چالا
چھاؤنی کے ایک کمپ کا گھنٹہ ٹن ٹن آٹھ بجاتا ہے
شنٹ انجن دھواں اڑاتا آتا ہے کبھی جاتا ہے
ا ج کی رات اماوس ہے آج گگن پر چاند نہیں
تبھی تو سائے گھنے گھنے ہیں تبھی ستارے ماند نہیں
تبھی تو من میں پھیل چلا الجھا الجھاسوچ کا جال
کل کی یادیں آج کی فکریں آنے والے کل کا خیال
کال کی باتیں کھیتی کھیتی ،بستی بستی ،گلی گلی
جنگ کے چرچے محفل محفل ،گدھوں کی تقدیر بھلی
ایک پہر سے اوپر گزراسورج کو است ہوئے
کھیت کے جھینگر سوندھی سوندھی خوشبو پا کر مست ہوئے
تن تن تن تن ،دب دب دب دب دب الجھی الجھی دبی دبی
ایک بجے کی نوبت شاید وقت سے پہلے بجا ٹھی
طوفانی جیکاروں کا اک شور سر صحرا ا ٹھا
کان بجے یا دشت میں گونجی گھوڑوں کی ٹاپوں کی صدا
کوچ کرو دل دھڑکے بولے پچھم کوا ٹھ جانا ہے
کمپ کنارے باجا باجے دور کا دیس بسانا ہے
ایک سجیلی بستی دائیں ،ایک البیلا رستہ بائیں
دیرسے کالے پل پہ کھڑے ہیں اے دل آج کدھر کو جائیں
لہک لہک کر قرنق چیخے دل کے تیس بلو ان کرے
کھن کھن کھن کھن کھنڈا باجے کیا کیا کتھا بیان کرے
اجلی خندق اپنے ہی جیالوں کے لہو میں نہائی ہے
جیت نے جھلسی ویرانی کی شوبھا اور بڑھائی ہے
تحقیق
تھوڑی کڑوی ضرور ہے بابا
اپنے غم کا مگر مداوا ہے
ذائقہ کا قصور ہے بابا
تلخ و شیریں میں فاصلہ کیا ہے
رنگ و روغن کو سال و سن کو نہ دیکھ
پیڑ گننا کہ آم کھانا ہے
عمر گزری ہے خانقاہوں میں
ایک شب یاں گزار جانا ہے
حسن مختوم خوب تھا بابا
کاش حصے میں آپ کے آسکتا
عشق معصوم کیا کہا بابا
کاش میں یہ فریب کھاسکتا
حسن کا مل عیار عشق نفیس
سب مراحل سے گزر چکا ہوں میں
دل خریدا تھا کبھی ان کا
اب فقط اتنا جانتا ہوں میں
ایک رنگین خواب تھے بابا
موجہ ہائے سراب تھے بابا
ورنہ سرحد پہ تشنہ کامی کی
مئے رنگیں ہے سادہ پانی ہے
شرط حسن و وفا اضافی ہے
قید تسکین نفس کافی ہے
سونا شہر
کہنہ صدیوں کی افسوںزدہ خامشی
تنگ گلیوں کی پہنائی میں چھائی ہے
ایک ویرانی جاوداں و جلی
ساتویں آسماں سے اتر آئی ہے
ایک کہرا ہے پھیلا ہوا دور تک
پھول بن میں نہ پیلی ہری کھتیاں
ایک مذبح کی دیوار کے اس طرف
چیلیں منڈلا رہی ہیں یہاں سے وہاں
گھاٹ خالی ہے پانی سے اترا ہوا
کوئی ملاح بیٹھا نہیں ناؤ میں
دھندلا دھندلا افق کھو گیا ہے کہیں
دیواروں کے جھنڈوں کے پھیلاؤ
زنگ رو دو کش سرنگوں ہو گئے
جیسے ہاری ہوئی فوج کے سنتری
سونے آنگن میں الجھی ہوئی گھاس
بام چھانے میں کیوں دیر اتنی کری
ایک قسمت کا مارا ہوا کارواں
جانے کس دیس سے جانے کس شہر سے
ہا نپتا کانپتا آگیا ہے یہاں
خالی فردا کی خالی امیدیں لیے
ٹھنڈے چولھوں میں ٹھٹھری ہوئی آگ ہے
بیکراں درد چہروں پہ پر قوم ہے
کب ٹھکانا ملے کب جنازہ اٹھے
کوئی بتلائے کیا ،کس کو معلوم ہے
شہر آباد تھے گاؤں آباد تھے
عالم رنگ و بو تھا یہیں دوستو
کار گاہوں میں تھا شور محشر بپا
یہ بہت دن کی باتیں نہیں دوستو
کون آیا تھا یہ اور کیا کر گیا
لے گیا کون دھرتی کی تابندگی
جنگلوں میں سے گزرے تو چیخے ہوا
زندگی، زندگی ، زندگی ، زندگی
کونسی نہر کوب سا باغ ہے
کون سے پات ہیں کون سا پھول ہے
زندگانی کے دامن کے پھیلاؤ میں
دشت کے خار ہیں دشت کی دھول ہیں
موٹروں گاڑیوں پیدلوں میں کوئی
طاقت و عزم رفتار باقی ہے
کس کے ایماء ارشاد کے منتظر
مدتوں سے کھڑے ہیں وہیں کے وہیں
راہ گیروں کےا ٹھے قدم تھم گئے
سحر نا وقت نے بے خبر آلیا
جانے والے جہاں تھے وہیں جم گئے
آگے جانے کا جب راستہ نہ ملا
چوک پر آکے سیلِ زماں رک گیا
چوک پر آکے سب راستے کھو گئے
اک سپاہی چلیپا کی صورت کھڑا
سرخ پگڑی ہے سر جمائے ہوئے
مومی شمعوں کی لوئیں لرزنے لگیں
محفلوں کا اجالا گیا ، سو گیا
آمد آمد ہے بلوان طوفان کی
دیکھنا ، دیکھنا ، دیکھنا ، دیکھنا
مہر سے چاند تارے الجھنے لگے
آندھیوں سے غبارے الجھنے لگے
کیسے وحشت کے مارے الجھنے لگے
ایک دشمن سے سارے الجھنے لگے
آرتی کے لیے منتظر ہے جہاں
گوشت اور خون کے سردو جامد بتو
اپنی آنکھوں کی پھیلاؤ تو پتلیاں
کچھ تو بولو زبانوں سے کچھ تو کہو
ودیالہ سے رام نگر تک
ودیالہ سے رام نگر تک
گرد کا کہرا پھیلا پھیلا
تاروں کی لو پھیکی پھیکی
چاند کا چہرا میلا میلا
انشا جی اس چاند رات میں
کرتے ہوئے کشتی کی سواری
پھر کب آؤ ،پھر کب آؤ
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
اسی گنگا کا پانی پی کر
اسی کاشی میں بڑھے پلے ہیں
ہمرے کون دلدر چھوٹے
ہمرے کتنے پاپ کٹے ہیں
ان چوبوں کو درشن دیویں
رام کبھی کبھی شام مراری
ہم لوگوں کی سار نہ لیویں
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
کھیت کھیت میں ٹھا کر لوٹیں
پینٹھ پینٹھ میں بنجارے ہیں
مندر مندر لوبھی بامن
گھاٹ گھاٹ پر ہر کارے ہیں
ایک طرف سرکار کے پیارے
ایک طرف یہ دھن کے پجاری
بندے بھی بھگوان بھی دشمن
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
جھونکے متوالی پروا کے
پرات کال دریا کا کہتا
ڈال ڈال گاتے ہوئے پنچھی
ترل ترل بہتی ہوئی دھار
پورب اور گگن پر کرنیں
پنکھ سنہرے تول رہی ہیں
رات کے اندھیارے کی کرنیں
ایک اک کر کے کھول رہی ہے
رکشا والے بگ ٹٹ بھا گے
اسٹیشن سے لیے سواری
آج تو ہم نے بھی آ دیکھی
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
دور دور کے یا تریوں کے
گھاٹ گھاٹ پر ڈیرے ڈالے
پنڈت پنڈت نوکا والے
ا مڈ پڑے کی گٹھڑی کو ڈبونے
ہم بھی پنجا دیس سے آئے
جیون کا دکھ کون بٹائے
جیون کا دکھ سہا نہ جائے
ہم لوگوں پر کشٹ پڑا ہے
ہم لوگوں پر وقت ہے بھاری
لیکن کس کو کون بتائے
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
جپوست
جب درد کا دل پر پہرا ہو
اور جب یاد کا گھاؤ گہرا ہو
آ جائے گا آرام
جپوست نام
جپوست نام
یہ بات تو ظاہر ہے بھائی
ہے عشق کا حاصل رسوائی
پر سوچو کیوں ا نجام
جپوست نام
جپوست نام
یہ عمر کسی پر مرنے کی
کچھ بیت گئی کچھ بیتے گی
وہ پکی ہے تم خام
جپوست نام
جپوست نام
جب عشق کا درد تم بھرتے ہو
کیوں ہجر کے شکوے کرتے ہو
یہ عشق کا ہے انعام
جپوست نام
جپوست نام
سب اول اول گھبراتے ہیں
سبا خر آخر لے آتے
اس کافر پر اسلام
جپوست نام
ٍ جپوست نام
اب چھوڑ کے بیٹھو چپکے سے
سب جھگڑے دین اور دنیا کے
آتی ہے وہ خوش اندام
جپوست نام
جپوست نام
جہاں میر سفر ،وزیر بھی ہے
اس بھیڑ میں ایک فقیر بھی ہے
اور اس کا ہے یہ کلام
جپوست نام
جپوست نام
چار پہر کی رات
جھوٹی سچی مجبوری پر لال دلھن نے کھینچا ہات
باجے گاجے بجتے رہے پر لوٹ گئی ساجنکی برات
سکھیوں نے اتنا بھی نہ دیکھا ٹوٹ گئے کیا کیاسنجوگ
ڈھولک پر چاندی کے چوڑے چھنکاتے میں کاٹی رات
بھاری پردوں کے پیچھے کی چھایا کو معلوم نہ تھا
آج سے بیگانہ ہوتا ہے کس کا دامن کس کا ہات
میلے آنسو ڈھلکے جھومر ،اجلی چادرسونی سیج
اوشا دیوی یوں دیکھ رہی ہو کس کی محبت کی سوغات
چاند کے اجیالے پی نہ جاؤ موم کی یہ شمعیں نہ بجھاؤ
باہر کے سورج نہ بلا ؤ جلنے دو تنکے کے ا لاؤ
کس مہندی کا رنگ ہوا یہ کس سہرے کے پھول ہوئے
بوجھنے والے بوجھ ہی لیں گے لاکھ نہ بولو لاکھ چھپاؤ
ہم کو کیا معلوم نہیں سمجھوں کو ناحق سمجھاؤ
جیسے کل کی بات ہو جانی پیت کے سب پیمان ہوئے
پردے اڑیں دریچے کانپیں پروا کے جھونکے آئیں جائیں
سانجھ سمے کے شوکتے جنگل کس کو پکاریں کس کو بلائیں
درد کی آنچ جگر کو جلائے پلکیں نہ جھپکیں نیند نہ آئے
روگ کے کیڑے سینہ چاٹیں زخموں کی دیواریں سہلائیں
یاد کے دوار کو تیغہ کر دو جگہ جگہ پہرے بٹھلا دو
اجنبی بنجاروں سے کہہ دو پیت نگر کی راہ نہ آئیں
انشا جی اک بات جو پوچھیں تم نے کسی سے عشق کیا ہے
ہم بھی تو سمجھیں ہم بھی تو جانیں عشق میں ایسا کیا ہوتا ہے
مفت میں جان گنوا لیتے ہیں ہم نے تو ایساسن رکھا ہے
نام و مقدم ہمیں بتلائیں آپ نہ اپنے جی کو دکھائیں
ہم ابھی مشکیں باندھ کے لائیں کون وہ ایسا ماہ لقا ہے
سانس میں پھانس جگر میں کانٹے سینہ لال گلال نہ پوچھ
اتنے دنوں کے بعد تو پیارے بیماروں کا حال نہ پوچھ
کیسے کٹے جیسے بھی کٹے اب اور بڑھے گا ملال نہ پوچھ
قرنوں اور جگنوں پر بھاری مہجوری کے سال نہ پوچھ
جن تاروں کی چھاؤں میں ہم نے دیکھے تھے وہ سکھ کے خواب
کیسے ان تاروں نے بگاڑی ا پنی ہماری چال نہ پوچھ
پہلاسجدہ
وہ ارمانوں کی اجڑی ہوئی بستی
پھر آج آباد ہوتی جا رہی ہے
جہاں سے کاروان شوق گزرے
نہ جانے کتنی مدت ہوگئی ہے
پلا تھا صحبت اہل حرم میں
میں برسوں سے تبستاں آشنا تھا
بنی لیکن خداسے نہ بتوں سے
میں دونوں آستانوں سے خفا تھا
مگر کچھ اور ہی عالم ہے اب تو
میں اپنی حیرتوں میں کھو گیا ہوں
مجسم ہو گئے ہیں حسن و جبروت
مجھے لینا میں بہکا جا رہا ہوں
کوئی یزداں ہو بت ہو آدمی ہو
اضافی قیمتوں سے ماورا ہوں
میں پہلی بار سجدہ کر رہا ہوں
سعیِ رائیگاں
کتنی ٹھنڈک ہے یہیں نہر کنارے بیٹھیں
دل بہل جائے گا اس میں بھی ہے مشکل کوئی
ننھے بزغالوں کی سبزے پہ کلیلیں دیکھیں
اپنے سواگت کو پون آئی ہے دھیمی دھیمی
کتنے اند وہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت
وہ بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں
سند با ادب کے تو ہمراہ مجھے بھی لے چل
(دل جو بہلا تو کتابوں ہی میں آ کر بہلا)
میں تیرے ساتھ زمانے کی نظر سے اوجھل
لے کے چلتا ہوں خیالوں کاسفینہا پنا
کیا خبر اب میں انھیں یاد بھی ہوں گا کہ نہیں
کاش میں نے ہی انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا
کتنے ہنگاموں سے آباد ہیں گلیاں بازار
(کلفتیں شہر کے ماحول نے دھوئیں دل سے )
آج ہر چیز کی صورت پہ انوکھا ہے نکھار
اتنے چہرے ہیں کہ پہلے کبھی دیکھے بھی نہ تھے
اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں
خام امیدوں سے بہلاؤں کا دل کو کیسے ؟
خام امیدوں سے بہلاؤں گا دل کو کیسے
اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں
کتنے اندوہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت
دل بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں
کاش میں نے انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا
اب تو شاید میں انھیں یاد بھی آؤں کہ نہیں
حفاظتی بند باندھ لیجئے
ہم میں آوارہ سو بو لوگو
جیسے جنگل میں رنگ و بو لوگو
ساعت چند کے مسافر سے
کوئی دم اور گفتگو لوگو
تھے تمہاری طرح کبھی ہم بھی
رنگ و نکہت کی آبرو لوگو
قریۂ عاشقی ہراچہ و دل
گھر ہمارے بھی تھے کبھی لوگو
وقت ہوتا تو آرزو کرتے
جانے کس شے کی آرزو لوگو
تاب ہوتی تو جستجو کرتے
جانے کس کس کی جستجو لوگو
کوئی منزل نہیں روانا ہیں
ہم مسافر میں بے ٹھکانا ہیں
دوراہا
تم کسی کا بساؤ گی پہلو
مل رہے گا مجھے نیاساتھی
تم کو سب کچھ گنوا کے پایا تھا
تم بھی کھو جاؤ گی خبر کیا تھی
درد نا گفتی ہے ضبط غم
کیوں سمجھتی ہو سنگدل مجھ کو
تم بھی چاہو تو پوچھ لو آنسو
زخم کچے ہیں دل کے مت چھیڑو
مغتنم ہے یہ صحبت دو دم
مسکرا دو ذرا گلے مل لو
ہا ئے کتنا حسیں زمانا تھا
دیر پا شے حسیں نہیں ہوتی
دن تھے لمحات سے سبک رو تر
رخصت مہر کی خبر نہ ہوئی
باتوں باتوں میں کٹ گئی راتیں
نیند سحر اپنا آزما نہ سکی
نرم رو قافلے ستاروں کے
چاند جیسے تھکا تھکا راہی
دیکھتے دیکھتے گزر بھی گئے
دل میں اک بے خودی سی طاری تھی
خیر اب اپنی راہ پر جاؤ
آگیا زندگی کا دورا ہا
حشر لاکھوں کا ہو چکا ہے یہی
عشق میں کون کامران رہا
تم مری ہو نہ میں تمہارا ہوں
اب تو رشتہ نہیں ہے کچھ اپنا
جب کبھی یاد آئے ماضی کی
ساتھ مجھ کو بھی یاد کر لینا
وصل کو جاوداں سمجھتے تھے
ہائے یہ سادگی محبت کی
کاش پہلے سے جانتے ہوتے
انتہا یہی محبت کی
ابنِ انشا
کلامِ تازہ اور انتخاب
پیش لفظ
انشا جی کا پہلا مجموعہ کلام چاند نگر تھا جو 1955 میں پہلی بار شائع ہوا۔ یہ اس دور کی بات تھی جب انسان کے قدم چاند پر نہ پہنچے تھے انشا جی یہ اس زندگی کے خاکے ہیں جو میں نے اٹھائیس برس میں بسر کی ہے گرجا کا گھڑیال جو دو بجاتا ہے گاڑی کی سیٹی جو گونج اٹھتی ہے ریل کی پلیا بھی کہ مضافات میں نظر آتی ہے اور چاند۔۔۔آبادیوں اور ویرانوں کا چاند ۔۔۔یہ سب ماضی کی کھونٹیاں ہیں جن پر میں نے یادوں کے پیراہن لٹکا رکھے ہیں اب آپ میراساتھ چھو ڑ کر اس چاندنگر کی سیر کیجئے اور میں نے اسے تلابخلی دے کر کسی نئے سفر پر نکلوں گا نہ مجھے اپنا حسن کا ایلڈوریڈو ملا ہے نہ زندگی کا شہر تمنا۔۔۔ میری منزل چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادی طویل میں ہے اس سے واپسی ہوئی تو جو کچھ دامن میں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ کلیاں ،کانٹے، یا غبار، وہ پیش کروں گا۔
لیکن چاند کی پہاڑیوں سے انشا جی واپس لوٹے تو انسان کے قدم چاند پر پہنچ چکے تھے لیکن نیچے دھرتی کا احوال وہی تھا جو کچھ چاند نگر کے دیباچے میں لکھا تھا اور وہ آج بھی ہے دھرتی اور دھرتی والوں کے مسئلے وہی ہیں جنگ و امن، امارات و احتیاج، استعمار و محکومیت یہاں ملک تو آزاد ہو رہے ہیں لیکن انسان آزاد نہیں ہو رہے۔ اپنے دو سرے مجموعے ’اس بستی کے ایک کوچے میں‘، جو ۶۷ء میں طبع ہوئی، کے دیباچے میں انشا جی لکھتے ہیں ’ایک طرف اسباب دنیا کی فراوانی ہے غلے کے گودام بھرے ہیں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں دوسری طرف حبشہ اور چڈاریٹڑ کی جھلسی ہوئی ویرانی میں انسان اناج کے ایک دانے کے لئے جانوروں کاسوکھا گوبر کرید رہا ہے اور ہزاروں لاکھوں لوگ تپتے تانبے کے آسمان تلے ایڑیاں رگڑتے دم توڑ رہے ہیں‘ُ ۔
شاعر اور ادیب کا ضمیر عالم کی آواز کہلاتا ہے، اپنی ذات کے خول میں دم سادھے بیٹھا ہے احتجاج کی منخنی صدا بھی نہیں۔ ایسے میں ذاتی جوگ بجوگ کی دھوپ چھاؤں کا یہ مرقع پیش کرتے ہوئے ہم کیسے خوش ہو سکتے ہیں یہ ہمارے پچھلے بیس سال کا نامۂ اعمال ہے اب پڑھنے والا بھی حکم صادر کرے انشا جی کے دونوں مجموعۂ کلام کے درمیان بیس سال کا وقفہ تھا اور اب جب کہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں وہ چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادی طویل میں اتنی دور نکل گئے کہ واپسی کا امکان ہی نہیں ہے۔ ان کے کاغذات میں سے ایک بیاض بھی ملی تھی جس کا عنوان دل وحشی تھا۔ شاید انہوں نے اپنے تیسرے مجموعہ کلام کا عنوان سوچا تھاسو اب یہ مجموعہ اسی نام سے شائع کیا جا رہا ہے اس مجموعہ کلام میں جو غزلیں ،نظمیں،شائع کی جا رہی ہیں وہ انشا جی کی بیاض میں لکھی ہوئی ہیں ہو سکتا ہے ان کا ارادہ نظر ثانی کرنے کا ہو لیکن زندگی نے مہلت نہ دی ہمیں یہ جس حالت میں ملی ہیں اسی صورت میں شائع کر دی ہیں۔ بہت سی نظمیں۔ غزلیں،نامکمل ہیں ممکن ہے خام صورت میں ہوں۔ کچھ کے صرف ایک دو شعر ہی کہے گئے ہیں۔۔۔۔۔ یہ اشعار جو ہمیں ملے ہیں انشا جی نے مختلف ادوار میں کہے ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ قاری کو اس میں پہلے دور کی تازگی محسوس ہو۔ رہی درمانویت اور پرانے موسموں کی خوشبو جو چاند نگر کا خاصا ہیں اور کہیں اس پختگی کا احساس ہو جو اس بستی کے ایک کوچے میں پائی جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر آپ کو اس میں انشا جی کا تیسرا رنگ نظر آئے گا اس میں ا نہوں نے ا پنے جوگ بجوگ کی دھوپ چھاؤں کا مرقع ہی نہیں ا نسانی زندگی کی دھوپ چھاؤں کا مرقع بھی پیش کیا ہے،
اس مجموعے میں اگر آپ کو کوئی خامی یا کمزوری نظر آئے تو اسے صرف ہم سے منسوب کیجئے گا انشا جی سے نہیں کہ اگر زندگی وفا کرتی تو نہ جانے کس صورت میں آپ کے ہاتھوں میں پہنچتا
سردار محمود
محمود ریاض
***
جب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاںا پنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب ناما دھر کا آیا کیوں
سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار ولار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیاج بھی دے لیں گے
ہں اور خراج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں اس مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیاسنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس ؟
کیا عمرا پنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی زالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہاں تم سے ہمارا رشتہ ہے
کیاسود بیاج کا لالچ ہے ؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ آنکھوں کت جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو اپنے جی میں اتار لیا
لو ہم نے تم کو ادھار لیا
انشا جی کی کیا بات بنے گی
انشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے
ہم کس دل کا روگ بنے ، کس سینے کا ناسور ہوئے
بستی بستی آگ لگی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے
رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکناچور ہوئے
لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے
اب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے
اے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ
قافلے والے دور گئے ، بجھنے دواگر بجھتا ہے الاؤ
ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ
سمے سمے کا ایک را گ ہے ،سمے سمے کاا پنا بھاؤ
آس کی اُجڑی پھلواری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ
پچھلے پہر کے اندھیارے میں کافوری شنعیں نہ جلاؤ
انشا جی وہی صبح کی لالی ۔ انشا جی وہی شب کاسماں
تم ہی خیال کی جگر مگر میں بھٹک رہے ہو جہاں تہاں
وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہاریں وہی خزاں
ایک قدم کی بات ہے یوں تو رد پہلے خوابوں کا جہاں
لیکن دورا فق پر دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں
بادل بادل امڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں
منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ رہے سستائے
ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے
روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے
قدم قدم پر مدماتی مسکان بھرے پر ہاتھ نہ آئے
چندرما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے
ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے
جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جوگی سیس نوائے
تم پر یوں کے راج دلارے ،تم اونچے تاروں کے کوی
ہم لوگوں کے پاس یہی اجڑا انبر ، اجڑی دھرتی
تو تم اڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری
ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی
تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو اور ندیاں سنگیت بھری
ہم پت جھڑ کی اجڑی بیلیں ، زرد زرد الجھی الجھی
ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تو کل تک جن کو پیاروں میں
حال ہماراسنتے تھے تو لوٹتے تھے انگاروں میں
آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں
آتے ہیں نیپام اگلتے وحشی سبزہ زاروں میں
آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیاداروں میں
حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں اخباروں میں
اوروں کی تو باتیں چھوڑو ، اور تو جانے کیا کیا تھے
رستم سے کچھ اور دلاور بھیم سے بڑہ کر جودھا تھے
لیکن ہم بھی تند بھپرتی موجوں کا اک دھارا تھے
انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے
نا ہم اتنے چپ چپ تھے تب، نا ہم اتنے تنہا تھے
اپنی ذات میں راجا تھے ہم اپنی ذات میں سینہ تھے
طوفانوں کا ریلا تھے ہم ، بلوانوں کی سینا تھے
پھر تمہارا خط آیا
شام حسرتوں کی شام
رات تھی جدائی کی
صبح صبح ہر کارہ
ڈاک سے ہوائی کی
نامۂ وفا لایا
پھر تمہارا خط آیا
پھر کبھی نہ آؤنگی
موجۂ صبا ہو تم
سب کو بھول جاؤنگی
سخت بے وفا ہو تم
دشمنوں نے فرمایا
دوستوں نے سمجھایا
پھر تمہارا خط آیا
ہم تو جان بیٹھے تھے
ہم تو مان بیٹھے تھے
تیری طلعتِ زیبا
تیرا دید کا وعدہ
تیری زلف کی خوشبو
دشتِ دور کے آہو
سب فریب سب مایا
پھر تمہارا خط آیا
ساتویں سمندر کے
ساحلوں سے کیوں تم نے
پھر مجھے صدا دی ہے
دعوت وفا دی ہے
تیرے عشق میں جانی
اور ہم نے کیا پایا
درد کی دوا پائی
دردِ لادوا پایا
کیوں تمہارا خط آیا
کیوں نام ہم اس کے بتلائیں
تم اس لڑکی کو دیکھتے ہو
تم اس لڑکی کو جانتے ہو
وہ اجلی گوری ؟ نہیں نہیں
وہ مست چکوری نہیں نہیں
وہ جس کا کرتا نیلا ہے؟
وہ جس کا آنچل پیلا ہے ؟
وہ جس کی آنکھ پہ چشمہ ہے
وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے
ان سب سے الگ ان سب سے پرے
وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے
کیا گول مٹول سا چہرہ ہے
جو ہر دم ہنستا رہتا ہے
کچھ چتان ہیں البیلے سے
کچھ اس کے نین نشیلے سے
اس وقت مگر سوچوں میں مگن
وہ سانولی صورت کی ناگن
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
یہ گیت اسی کا در پن ہے
یہ گیت ہمارا جیون ہے
ہم اس ناگن کے گھائل تھے
ہم اس کے مسائل تھے
جب شعر ہماری سنتی تھی
خاموش دوپٹا چنتی تھی
جب وحشت اسے سستاتی تھی
کیا ہرنی سی بن جاتی تھی
یہ جتنے بستی والے تھے
اس چنچل کے متوالے تھے
اس گھر میں کتنے سالوں کی
تھی بیٹھک چاہنے والوں کی
گو پیار کی گنگا بہتی تھی
وہ نار ہی ہم سے کہتی تھی
یہ لوگ تو محض سہارے ہیں
انشا جی ہم تو تمہارے ہیں
اب اور کسی کی چاہت کا
کرتی ہے بہانا ۔۔۔ بیٹھی ہے
ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا
دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں
یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں
نا دل مانا ، نا ہم مانے
انجام تو سب دنیا والے جانے
جو ہم سے ہماری وحشت کا
سنتی ہے فسانہ بیٹھی ہے
ہم جس کے لئے پردیس پھریں
جوگی کا بدل کر بھیس پھریں
چاہت کے نرالے گیت لکھیں
جی موہنے والے گیت لکھیں
اس شہر کے ایک گھروندے میں
اس بستی کے اک کونے میں.
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
اس درد کو اب چپ چاپ سہو
انشا جی لہو تو اس سے کہو
جو چتون کی شکلوں میں لیے
آنکھوں میں لیے ،ہونٹوں میں لیے
خوشبو کا زمانہ بیٹھی ہے
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
ہم جس کے لیے پردیس پھرے
چاہت کے نرالے گیت لکھے
جی موہنے والے گیت لکھے
جو سب کے لیے دامن میں بھرے
خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے
جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی
جو درد بھی ہے اور دار و بھی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
وہ کل بھی ملنے آئی تھی
وہ آج بھی ملنے آئی ہے
جو اپنی نہیں پرائی ہے
دور تمہارا دیس ہے مجھ سے
دور تمہارا دیس ہے مجھ سے اور تمہاری بولی ہے
پھر بھی تمہارے باغ ہیں لیکن من کی کھڑکی کھولی ہے
آؤ کہ پل بھر مل کے بیٹھیں بات سنیں اور بات کہیں
من کی بیتا ،تن کا دکھڑا ، دنیا کے حالات کہیں
اس دھرتی پر اس دھرتی کے بیٹوں کا کیا حال ہوا
رستے بستے ہنستے جگ میں جینا کیوں جنجال ہوا
کیوں دھرتی پہ ہم لوگوں کے خون کی نسدن ہولی ہے
سچ پوچھو تو یہ کہنے کو آج یہ کھڑکی کھولی ہے
بیلا دیوی آج ہزاروں گھاؤ تمہارے تن من ہیں
جانتا ہوں میں جان تمہاری بندھن میں کڑے بندھن میں
روگ تمہارا جانے کتنے سینوں میں بس گھول گیا
دور ہزاروں کوس پہ بیٹھے ساتھی کا من ڈول گیا
یاد ہیں تم کو سانجھے دکھ نے بنگالے کے کال کے دن
راتیں دکھ ور بھوک کی راتیں دن جی کے جنجال کے دن
تب بھی آگ بھری تھی من میں اب بھی آگ بھری ہے من میں
میں تو یہ سو چوں آگ ہی آگ ہے اس جیون میں
ا ب سو نہیں جانا چاہے رات کہیں تک جائے
ا ن کا ہاتھ کہیں تک جائےا پنی بات کہیں تک جائے
سانجھی دھرتی سانجھاسورج ،سانجھے چاند اور تارے ہیں
سانجھی ہیں سبھی دکھ کی ساری باتیں سانجھے درد ہمارے
گولی لاٹھی ہیسہ شاسن دھن دانوں کے لاکھ سہارے
وقت پڑیں کس کو پکاریں جنم جنم کے بھوک کے مارے
برس برس برسات کا بادل ندیاسی بن جائے گا
دریا بھی اسے لوگ کہیں گے ساگر بھی کہلائے گا
جنم جنم کے ترسے من کی کھیتی پھر بھی ترسے گی
کہنے کو یہ روپ کی برکھا پورب پچھم برسے گی
جس کے بھاگ سکندر ہوں گے بے مانگے بھی پائے گا
آنچل کو ترسانے والا خود دامن پھیلائے گا
انشا جی یہ رام کہانی پیت پہلی بوجھے کون
نام لیے بن لاکھ پکاریں بوجھ سہیلی بوجھے کون
وہ جس کے من کے آنگن میں یادوں کی دیواریں ہوں
لاکھ کہیں ہوں روپ جھروکے ،لاکھ البیلی ناریں ہوں
اس کو تو ترسانے والا جنم جنم ترسائے گا
کب وہ پیاس بجھانے والا پیاس بجھانے آئے گا
اے دل دیوانہ
مہجور ہے دکھانا ؟
رنجور ہے دکھانا ؟
ا پنے سے غافل تھا
ا ن کو بھی نہ پہچانا
کیوں اے دل دیوانہ
وہ آپ بھی آتے تھے
ہم کو بھی بلاتے تھے
کل تک جو حقیقت تھی
کیوں آج ہےا فسانہ
ہاں اے دل دیوانہ
وہ آج کی محفل میں
ہم کو بھی نہ پہچانا
کیاسوچ لیا دل میں
کیوں ہو گیا بیگانہ
کیوںا ے دل دیوانہ
ہاں کل سے نہ جائیں گے
پر آج تو ہو آئیں
ہاں رات کے دریا میں
مہتاب ڈبو آئیں
وہ بھی ترا فرمانا
ہاں اے دل دیوانا
ہاں اے دل دیوانا
وہ آج کی محفل میں
ہم کو بھی نہ پہچانا
کیاسوچ لیا دل میں
کیوں ہو گیا بیگانہ
ہاں اے دل دیوانا
وہ آپ بھی آتے تھے
ہم کو بھی بلاتے تھے
کس چاہ سے ملتے تھے
کیا پیار جتاتے تھے
کل تک جو حقیقت تھی
کیوں آج ہےا فسانہ
ہاں اے دل دیوانا
بس ختم ہوا قصہ
اب ذکر نہ ہو اسکا
وہ شخص وفا دشمن
اب اس سے نہیں ملنا
گھر اس کے نہیں جانا
ہاں اے دل دیوانا
ہاں کل سے نہ جائیں گے
پر آج تو ہو آئیں
اس کو نہیں پاسکتے
اپنے ہی کو کھو آئیں
تو باز نہ آئے گا
مشکل تجھے سنجھانا
وہ بھی ترا کہنا تھا
یہ بھی ترا فرمانا
چل اے دل دیوانا
جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
دل بہلنے کی نہیں کوئی سبیل
جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل
ڈالتا ہوں اپنے ماضی پر نگاہ
گاہے گاہے کھنچتا ہوں سرد آہ
کس طرح اب دل کو رہ پر لاؤںمیں
کس بہانے سے اسے بھولاؤں میں
سب کو محو خواب راحت چھوڑ کے
نیند آتی ہے مرے شبستاں میں مرے
مجھ کو سوتے دیکھ کر آتا ہے کوئی
میرے سینے سے چمٹ جاتا ہے کوئی
دیکھتا ہوں آکےا کثر ہوش میں
کوئی ظالم ہے مری آغوش میں
خود کو مگر تنہا ہی پاتا ہوں میں
پھر گھڑی بھر بعد سوجاتا ہوں میں
پھر کسی کو دیکھتا ہوں خواب میں
اس دفعہ پہچان لیتا ہوں تمہیں
بھاگ جاتے ہو قریب صبحدم
چھوڑ دیتے ہو رہین رنج و غم
مجھ کو تم سے عشق تھا مدت ہوئی
ان دنوں تم کو بھی الفت مجھ سے تھی
کم نگاہیا قتصائے سال و سن
کیا ہوئی تھی بات جانے ایک دن
بندا پنا آنا جانا ہو گیا
اور اس پر اک زمانا ہو گیا
تم غلط سمجھے ہوا میں بد گماں
بات چھوٹی تھی مگر پہنچی کہاں
جلد ہی میں تو پیشماں ہوگیا
تم کو بھیا حساس کچھ ایسا ہوا
نشہ پندار میں لیکن تھے مست
تھی گراں دونو پہ تسلیم شکست
ہجر کے صحرا کو طے کرنا پڑا
مل گیا تھا رہنما امید سا
ہے مری جرات کی اصل اب بھی یہی
دل یہ کہتا ہے کہ دیکھیں تو سہی
جس میں اترا تھا ہمارا کارواں
اب بھی ممکن ہے وہ خالی ہو مکاں
آج تک دیتے رہے دل کو فریب
اب نہیں ممکن ذراتاب شکیب
آؤ میرے دیدہ تر میں رہو
آؤ اس اجڑے ہوئے گھر میں رہو
حوصلے سے میں پہل کرتا تو ہوں
دل میں اتناسوچ کر ڈرتا بھی ہوں
تم نہ ٹھکرا دو مری دعوت کہیں
میں یہ سمجھوں گا اگر کہہ دو نہیں
گردش ایام کو لوٹالیا
میں نے جو کھو دیا تھا پا لیا
تلانجلی
تو جو کہے تجدید محبت میں تو مجھے کچھ عار نہیں
دل ہے بکار خویش ذرا ہشیار ،ابھی تیار نہیں
صحرا جو عشق جنوں پیشہ نے دکھائے دیکھ چکا
مد و جرز کی لہریں گھٹتے بڑھتے سائے دیکھ چکا
عقل کا فرمانا ہے کہ اب اس دام حسیں سے دور ہوں
زنداں کی دیواروں سے سر پھوڑ مرا نوخیز جنوں
صحبت اول ہی میں شکست جرات تنہا دیکھ چکا
(۲)
کاوش نغمہ رنگ اثر سے عاری کی عاری ہی رہی
جلوہ گری تیری بھی نشاط روح کاساماں ہو نہ سکی
سوچ رہا ہوں کتنی تمناؤں کو لیے آیا تھا یہاں
مجھ پہ نگاہ لطف تری اب بھی ہے مگر پہلی سی کہاں
آج میں ساقی یاد ہوں تجھ کو درد تہ ساغر کے لیے
کل کی خبر ہے کس کو بھلا اتنا بھی رہے کل یانہ رہے
دھندکے بادل چھوٹ رہے ہیں ٹوٹتے جاتے ہیںافسو
سوچ رہا ہوں کیوں نہ اسی بے کیف فضا میں لوٹ چلوں
ساقی رعنا تجھ سے یہی کم آگہی کا شکوہ ہی رہا
کاوش نغمہ رنگ اثر سے عاری کی عاری ہی رہی
حیلہ گری تیری بھی نشاط روح کاساماں ہو نہ سکی
لذت و زیرو بم سے رہی محروم نوائے بربط و نے
ڈھل نہ سکے آہنگ میں خاکے آنہ سکی فریاد میں لے
کر دیکھی ہر رنگ میں تو نے سعی نشاط سوزدروں
پھر بھی اے مطرب خلوت محمل میں رہی لیلائے سکوں
کشتی آوارہ کو کسی ساحل کاسہارا مل نہ سکا
دیکھ چکا انجام تمنا ، جان تمنا تو ہی بتا
ہے یہی نشہ غایت صہباساقی رعنا تو ہی بتا
چارہ غم تھا دعوی نغمہ ،خالق نغمہ تو ہی بتا
حسن کا احساںا ٹھ نہ سکے تو عشق کاسوداچھوڑ نہ دوں
کیف بقدر ہوش نہ ہو تو ساغر صہبا پھوڑ نہ دوں
بربط و نے سے کچھ نہ بنے تو بربط ونے کو توڑ دوں
قطع جنوں میں جرم ہی کیا ہے پھر مری لیلی تو ہی بتا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے
طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے
بہت روئے اب آنسو ہیں گراں یاب
کہاں ڈوبا ہے جا کے دل کا مہتاب
ستارے صبح خنداں کے ستارے
بھلا ا تنی بھی جلدی کیا ہے پیارے
کبھی پوچھا بھی تو نے ۔۔۔کس کو چاہیں
لے پھرتے ہیں ویراں سی نگاہیں
ہماری جاں پہ کیوں ہیں صدمے بھاری
نفس کاسوز ، دل کی بے قراری
خبر بھی ہے ہمارا حال کیا ہے
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
حکایت ہے ابھی پچھلے دنوں کی
کوئی لڑکی تھی ننھی کا منی سی
گلے زیبا قبائے ، نو بہارے
سیہ آنچل میں اوشا کے ستارے
بہت صبحوں کی باتیں تھیں انیلی
بہت یادوں کی باتیں تھیا نیلی
کبھی سامان تھے دل کے توڑنے کے
کبھی پیمان تھے پھر سے جوڑنے کے
عجب تھا طنز کرنے کا بہانا
نہ تم انشا جی ہم کو بھول جانا
بہت خوش تھے کے خو ش رہنے کے دن تھے
بہر ساعت غزل کہنے کے دن تھے
زمانے نے نیا رخ یوں دیا
اسے ہم سے ہمیں اس سے چھڑایا
پلٹ کر بھی نہ دیکھا پھر کسی نے
اسی عالم میں گزرے دو مہینے
کگر ہم کیسی رو میں بہ چلے ہیں
نہ کہنے کی ہیں باتیں کہہ چلے ہیں
ستارے صبح روشن کے ستارے
تجھے کیا ہم اگر روتے ہیں پیارے
ہمارے غم ہمارے غم رہیں گے
ہم اپنا حال تجھ سے نہ کہیں گے
گزر بھی جا کہ یاں کھٹکا ہوا ہے
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
اندھی شبو ؛ بے قرار راتو
اندھی شبو ؛ بے قرار راتو ؛
اب تو کوئی جگمگاتا جگنو
اب کوئی تمتماتا مہتاب
اب تو کوئی مہرباں ستارہ
گلیوں میں قریب شام ہر روز
لگتا ہے جو صورتوں کا میلہ
آتا ہے جو قامتوں کا ریلا
کہتی ہیں حیرتی نگاہیں
کس کس کو ہجوم میں سے چاہیں
لیکن یہ تمام لوگ کیا ہیں
ا پنے سے دور ہیں جدا ہیں
ہم نے بھی تو جی کو خاک کر کے
دامان شکیب چاک کر کے
وحشت ہی کا آسرا لیا تھا
جینے کو جنوں بنا لیا تھا
اچھا نہ کیا۔۔۔۔مگر کیا تو
اندھی شبو ، بے قرار راتو
کب تک یونہی محفلوں کے پھرے
اچھے نہیں جی کے یہ اندھیرے
اب تو کوئی بھی دید نہیں ہے
ہونے کی بھی امید نہیں ہے
ہم بھی تو عہد پاستاں ہیں
ماضی کے ہزار داستاں ہیں
پیماں کے ہزار باغ توڑے
دامان وفا پہ داغ چھوڑے
دیکھیں جو انا کے روزنوں سے
پیچھے کہیں دور دور مدھم
پراں ہیں خلا کی وسعتوں میں
اب بھی کئی ٹمٹماتے جگنو
اب بھی کئی ڈبڈباتے مہتاب
اب بھی کئی دستاں ستارے
آزردہ بحال ، طپاں ستارے
پیچھے کو نظر ہزار بھاگے
لوگو رہ زندگی ہے آگے
جتنے یہاں راز دار غم ہیں
تارے ہیں کہ چاند ہے کہ ہم ہیں
ا ن کا تو اصول ہے یہ بانکے
اس دل میں نہ اور کوئی جھانکے
خالی ہوئے جام عاشقی کے
اکھڑے ہیں خیام عاشقی کے
قصے ہیں تمام عاشقی کے
واردات
رات پھرا ن کا انتظار رہا
رات پھر گاڑیاں گزرتی ہیں
وہ کوئی دم میں آئے جاتے ہیں
راہیں سرگوشیاں ہی کرتی رہیں
ایک امید باز دید جو تھی
دل کبھی یاس آشنا نہ ہوا
کب ہوئے وہ نگاہ سے اوجھل
کب انھیں سامنے نہیں پایا
رات پھر میں نے ان سے باتیں کی
رات تک میرے پاس تھے گویا
ہونٹ، رخسار ، کا کلیں ، باہیں
ایک اک چھو کے دیکھ سکتا تھا
پڑگیاسست رات کا جادو
دیکھتے دیکھتے سماں بدلا
ہولے ہولے سرک گئے تارے
چاند کا رنگ پڑ گیا پھیکا
اور پھر مشرقی جھروکے سے
صبح دم آفتاب نے جھانکا
در پہ باہر کسی نے دستک دی
(ڈاکیا ڈاک لے کے آیا تھا )
ایک دو ہی تو لفظ تھے خط میں
اب سکوں آشنا ہیں دیدہ و دل
اب کریں ا نتظار تو کس کا
وہ حسیں ہونٹ وہ حسیں آنکھیں
پھول سا جسم چاند سا چہرہ
عنبریں زلفیں ، مخملیں باہیں
آج تک جن کا لمس باقی تھا
اب فقط ان کی یاد باقی ہے
لٹ گیا عشق کاسرو ساماں
شہر امید ہو گیا ہے ویراں
اس کی اک روئدار باقی ہے
ایک اجڑ سواد باقی ہے
شام ہوئی ہے
شام ہوئی ہے ڈگر ڈگر میں پھیلی شب کی سیائی ہے
پچھم اور کبھی کا ڈوبا ،چار پہر کا راہی ہے
آج کا دن بھی آخر بنتا جگ جگ کا جنجال لیے
اندھیارے نے ایک جھپٹ میں چاروں کوٹ سنبھال لیے
رات نے خیمے ڈیرے ڈالے ہولے ہولے کہاں کہاں
پورپ پچھم اتر دکھن ،پھیلا کالا بھبھوت دھواں
سانجھ سمے کی چھایا بیری ،اس کا ناش ناش ہو
دھندکا پھندا جگ جگ پھیلا ا ندھا نیل آکاش ہوا
سہماسہما ریل کے کالے پل پر دیر سے بیٹھا ہوں
سوچ رہا ہوں سیر تو ہولی ٹھہروں یا گھر لوٹ چلوں
شنٹ کے انجن دھواں اڑاتے آتے ہیں کبھی جاتے ہیں
رنگ برنگے سنگنل ان کو کیا کیا ناچ نچاتے ہیں
جنگلے پر پل کو جھکا اور ا نگلیوں سے اسے تھپکایا
کوئی مسافر مزے مزے میں پیت کا گیت الاپ چالا
چھاؤنی کے ایک کمپ کا گھنٹہ ٹن ٹن آٹھ بجاتا ہے
شنٹ انجن دھواں اڑاتا آتا ہے کبھی جاتا ہے
ا ج کی رات اماوس ہے آج گگن پر چاند نہیں
تبھی تو سائے گھنے گھنے ہیں تبھی ستارے ماند نہیں
تبھی تو من میں پھیل چلا الجھا الجھاسوچ کا جال
کل کی یادیں آج کی فکریں آنے والے کل کا خیال
کال کی باتیں کھیتی کھیتی ،بستی بستی ،گلی گلی
جنگ کے چرچے محفل محفل ،گدھوں کی تقدیر بھلی
ایک پہر سے اوپر گزراسورج کو است ہوئے
کھیت کے جھینگر سوندھی سوندھی خوشبو پا کر مست ہوئے
تن تن تن تن ،دب دب دب دب دب الجھی الجھی دبی دبی
ایک بجے کی نوبت شاید وقت سے پہلے بجا ٹھی
طوفانی جیکاروں کا اک شور سر صحرا ا ٹھا
کان بجے یا دشت میں گونجی گھوڑوں کی ٹاپوں کی صدا
کوچ کرو دل دھڑکے بولے پچھم کوا ٹھ جانا ہے
کمپ کنارے باجا باجے دور کا دیس بسانا ہے
ایک سجیلی بستی دائیں ،ایک البیلا رستہ بائیں
دیرسے کالے پل پہ کھڑے ہیں اے دل آج کدھر کو جائیں
لہک لہک کر قرنق چیخے دل کے تیس بلو ان کرے
کھن کھن کھن کھن کھنڈا باجے کیا کیا کتھا بیان کرے
اجلی خندق اپنے ہی جیالوں کے لہو میں نہائی ہے
جیت نے جھلسی ویرانی کی شوبھا اور بڑھائی ہے
تحقیق
تھوڑی کڑوی ضرور ہے بابا
اپنے غم کا مگر مداوا ہے
ذائقہ کا قصور ہے بابا
تلخ و شیریں میں فاصلہ کیا ہے
رنگ و روغن کو سال و سن کو نہ دیکھ
پیڑ گننا کہ آم کھانا ہے
عمر گزری ہے خانقاہوں میں
ایک شب یاں گزار جانا ہے
حسن مختوم خوب تھا بابا
کاش حصے میں آپ کے آسکتا
عشق معصوم کیا کہا بابا
کاش میں یہ فریب کھاسکتا
حسن کا مل عیار عشق نفیس
سب مراحل سے گزر چکا ہوں میں
دل خریدا تھا کبھی ان کا
اب فقط اتنا جانتا ہوں میں
ایک رنگین خواب تھے بابا
موجہ ہائے سراب تھے بابا
ورنہ سرحد پہ تشنہ کامی کی
مئے رنگیں ہے سادہ پانی ہے
شرط حسن و وفا اضافی ہے
قید تسکین نفس کافی ہے
سونا شہر
کہنہ صدیوں کی افسوںزدہ خامشی
تنگ گلیوں کی پہنائی میں چھائی ہے
ایک ویرانی جاوداں و جلی
ساتویں آسماں سے اتر آئی ہے
ایک کہرا ہے پھیلا ہوا دور تک
پھول بن میں نہ پیلی ہری کھتیاں
ایک مذبح کی دیوار کے اس طرف
چیلیں منڈلا رہی ہیں یہاں سے وہاں
گھاٹ خالی ہے پانی سے اترا ہوا
کوئی ملاح بیٹھا نہیں ناؤ میں
دھندلا دھندلا افق کھو گیا ہے کہیں
دیواروں کے جھنڈوں کے پھیلاؤ
زنگ رو دو کش سرنگوں ہو گئے
جیسے ہاری ہوئی فوج کے سنتری
سونے آنگن میں الجھی ہوئی گھاس
بام چھانے میں کیوں دیر اتنی کری
ایک قسمت کا مارا ہوا کارواں
جانے کس دیس سے جانے کس شہر سے
ہا نپتا کانپتا آگیا ہے یہاں
خالی فردا کی خالی امیدیں لیے
ٹھنڈے چولھوں میں ٹھٹھری ہوئی آگ ہے
بیکراں درد چہروں پہ پر قوم ہے
کب ٹھکانا ملے کب جنازہ اٹھے
کوئی بتلائے کیا ،کس کو معلوم ہے
شہر آباد تھے گاؤں آباد تھے
عالم رنگ و بو تھا یہیں دوستو
کار گاہوں میں تھا شور محشر بپا
یہ بہت دن کی باتیں نہیں دوستو
کون آیا تھا یہ اور کیا کر گیا
لے گیا کون دھرتی کی تابندگی
جنگلوں میں سے گزرے تو چیخے ہوا
زندگی، زندگی ، زندگی ، زندگی
کونسی نہر کوب سا باغ ہے
کون سے پات ہیں کون سا پھول ہے
زندگانی کے دامن کے پھیلاؤ میں
دشت کے خار ہیں دشت کی دھول ہیں
موٹروں گاڑیوں پیدلوں میں کوئی
طاقت و عزم رفتار باقی ہے
کس کے ایماء ارشاد کے منتظر
مدتوں سے کھڑے ہیں وہیں کے وہیں
راہ گیروں کےا ٹھے قدم تھم گئے
سحر نا وقت نے بے خبر آلیا
جانے والے جہاں تھے وہیں جم گئے
آگے جانے کا جب راستہ نہ ملا
چوک پر آکے سیلِ زماں رک گیا
چوک پر آکے سب راستے کھو گئے
اک سپاہی چلیپا کی صورت کھڑا
سرخ پگڑی ہے سر جمائے ہوئے
مومی شمعوں کی لوئیں لرزنے لگیں
محفلوں کا اجالا گیا ، سو گیا
آمد آمد ہے بلوان طوفان کی
دیکھنا ، دیکھنا ، دیکھنا ، دیکھنا
مہر سے چاند تارے الجھنے لگے
آندھیوں سے غبارے الجھنے لگے
کیسے وحشت کے مارے الجھنے لگے
ایک دشمن سے سارے الجھنے لگے
آرتی کے لیے منتظر ہے جہاں
گوشت اور خون کے سردو جامد بتو
اپنی آنکھوں کی پھیلاؤ تو پتلیاں
کچھ تو بولو زبانوں سے کچھ تو کہو
ودیالہ سے رام نگر تک
ودیالہ سے رام نگر تک
گرد کا کہرا پھیلا پھیلا
تاروں کی لو پھیکی پھیکی
چاند کا چہرا میلا میلا
انشا جی اس چاند رات میں
کرتے ہوئے کشتی کی سواری
پھر کب آؤ ،پھر کب آؤ
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
اسی گنگا کا پانی پی کر
اسی کاشی میں بڑھے پلے ہیں
ہمرے کون دلدر چھوٹے
ہمرے کتنے پاپ کٹے ہیں
ان چوبوں کو درشن دیویں
رام کبھی کبھی شام مراری
ہم لوگوں کی سار نہ لیویں
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
کھیت کھیت میں ٹھا کر لوٹیں
پینٹھ پینٹھ میں بنجارے ہیں
مندر مندر لوبھی بامن
گھاٹ گھاٹ پر ہر کارے ہیں
ایک طرف سرکار کے پیارے
ایک طرف یہ دھن کے پجاری
بندے بھی بھگوان بھی دشمن
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
جھونکے متوالی پروا کے
پرات کال دریا کا کہتا
ڈال ڈال گاتے ہوئے پنچھی
ترل ترل بہتی ہوئی دھار
پورب اور گگن پر کرنیں
پنکھ سنہرے تول رہی ہیں
رات کے اندھیارے کی کرنیں
ایک اک کر کے کھول رہی ہے
رکشا والے بگ ٹٹ بھا گے
اسٹیشن سے لیے سواری
آج تو ہم نے بھی آ دیکھی
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
دور دور کے یا تریوں کے
گھاٹ گھاٹ پر ڈیرے ڈالے
پنڈت پنڈت نوکا والے
ا مڈ پڑے کی گٹھڑی کو ڈبونے
ہم بھی پنجا دیس سے آئے
جیون کا دکھ کون بٹائے
جیون کا دکھ سہا نہ جائے
ہم لوگوں پر کشٹ پڑا ہے
ہم لوگوں پر وقت ہے بھاری
لیکن کس کو کون بتائے
کاشی کی ہر بات ہے نیاری
جپوست
جب درد کا دل پر پہرا ہو
اور جب یاد کا گھاؤ گہرا ہو
آ جائے گا آرام
جپوست نام
جپوست نام
یہ بات تو ظاہر ہے بھائی
ہے عشق کا حاصل رسوائی
پر سوچو کیوں ا نجام
جپوست نام
جپوست نام
یہ عمر کسی پر مرنے کی
کچھ بیت گئی کچھ بیتے گی
وہ پکی ہے تم خام
جپوست نام
جپوست نام
جب عشق کا درد تم بھرتے ہو
کیوں ہجر کے شکوے کرتے ہو
یہ عشق کا ہے انعام
جپوست نام
جپوست نام
سب اول اول گھبراتے ہیں
سبا خر آخر لے آتے
اس کافر پر اسلام
جپوست نام
ٍ جپوست نام
اب چھوڑ کے بیٹھو چپکے سے
سب جھگڑے دین اور دنیا کے
آتی ہے وہ خوش اندام
جپوست نام
جپوست نام
جہاں میر سفر ،وزیر بھی ہے
اس بھیڑ میں ایک فقیر بھی ہے
اور اس کا ہے یہ کلام
جپوست نام
جپوست نام
چار پہر کی رات
جھوٹی سچی مجبوری پر لال دلھن نے کھینچا ہات
باجے گاجے بجتے رہے پر لوٹ گئی ساجنکی برات
سکھیوں نے اتنا بھی نہ دیکھا ٹوٹ گئے کیا کیاسنجوگ
ڈھولک پر چاندی کے چوڑے چھنکاتے میں کاٹی رات
بھاری پردوں کے پیچھے کی چھایا کو معلوم نہ تھا
آج سے بیگانہ ہوتا ہے کس کا دامن کس کا ہات
میلے آنسو ڈھلکے جھومر ،اجلی چادرسونی سیج
اوشا دیوی یوں دیکھ رہی ہو کس کی محبت کی سوغات
چاند کے اجیالے پی نہ جاؤ موم کی یہ شمعیں نہ بجھاؤ
باہر کے سورج نہ بلا ؤ جلنے دو تنکے کے ا لاؤ
کس مہندی کا رنگ ہوا یہ کس سہرے کے پھول ہوئے
بوجھنے والے بوجھ ہی لیں گے لاکھ نہ بولو لاکھ چھپاؤ
ہم کو کیا معلوم نہیں سمجھوں کو ناحق سمجھاؤ
جیسے کل کی بات ہو جانی پیت کے سب پیمان ہوئے
پردے اڑیں دریچے کانپیں پروا کے جھونکے آئیں جائیں
سانجھ سمے کے شوکتے جنگل کس کو پکاریں کس کو بلائیں
درد کی آنچ جگر کو جلائے پلکیں نہ جھپکیں نیند نہ آئے
روگ کے کیڑے سینہ چاٹیں زخموں کی دیواریں سہلائیں
یاد کے دوار کو تیغہ کر دو جگہ جگہ پہرے بٹھلا دو
اجنبی بنجاروں سے کہہ دو پیت نگر کی راہ نہ آئیں
انشا جی اک بات جو پوچھیں تم نے کسی سے عشق کیا ہے
ہم بھی تو سمجھیں ہم بھی تو جانیں عشق میں ایسا کیا ہوتا ہے
مفت میں جان گنوا لیتے ہیں ہم نے تو ایساسن رکھا ہے
نام و مقدم ہمیں بتلائیں آپ نہ اپنے جی کو دکھائیں
ہم ابھی مشکیں باندھ کے لائیں کون وہ ایسا ماہ لقا ہے
سانس میں پھانس جگر میں کانٹے سینہ لال گلال نہ پوچھ
اتنے دنوں کے بعد تو پیارے بیماروں کا حال نہ پوچھ
کیسے کٹے جیسے بھی کٹے اب اور بڑھے گا ملال نہ پوچھ
قرنوں اور جگنوں پر بھاری مہجوری کے سال نہ پوچھ
جن تاروں کی چھاؤں میں ہم نے دیکھے تھے وہ سکھ کے خواب
کیسے ان تاروں نے بگاڑی ا پنی ہماری چال نہ پوچھ
پہلاسجدہ
وہ ارمانوں کی اجڑی ہوئی بستی
پھر آج آباد ہوتی جا رہی ہے
جہاں سے کاروان شوق گزرے
نہ جانے کتنی مدت ہوگئی ہے
پلا تھا صحبت اہل حرم میں
میں برسوں سے تبستاں آشنا تھا
بنی لیکن خداسے نہ بتوں سے
میں دونوں آستانوں سے خفا تھا
مگر کچھ اور ہی عالم ہے اب تو
میں اپنی حیرتوں میں کھو گیا ہوں
مجسم ہو گئے ہیں حسن و جبروت
مجھے لینا میں بہکا جا رہا ہوں
کوئی یزداں ہو بت ہو آدمی ہو
اضافی قیمتوں سے ماورا ہوں
میں پہلی بار سجدہ کر رہا ہوں
سعیِ رائیگاں
کتنی ٹھنڈک ہے یہیں نہر کنارے بیٹھیں
دل بہل جائے گا اس میں بھی ہے مشکل کوئی
ننھے بزغالوں کی سبزے پہ کلیلیں دیکھیں
اپنے سواگت کو پون آئی ہے دھیمی دھیمی
کتنے اند وہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت
وہ بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں
سند با ادب کے تو ہمراہ مجھے بھی لے چل
(دل جو بہلا تو کتابوں ہی میں آ کر بہلا)
میں تیرے ساتھ زمانے کی نظر سے اوجھل
لے کے چلتا ہوں خیالوں کاسفینہا پنا
کیا خبر اب میں انھیں یاد بھی ہوں گا کہ نہیں
کاش میں نے ہی انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا
کتنے ہنگاموں سے آباد ہیں گلیاں بازار
(کلفتیں شہر کے ماحول نے دھوئیں دل سے )
آج ہر چیز کی صورت پہ انوکھا ہے نکھار
اتنے چہرے ہیں کہ پہلے کبھی دیکھے بھی نہ تھے
اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں
خام امیدوں سے بہلاؤں کا دل کو کیسے ؟
خام امیدوں سے بہلاؤں گا دل کو کیسے
اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں
کتنے اندوہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت
دل بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں
کاش میں نے انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا
اب تو شاید میں انھیں یاد بھی آؤں کہ نہیں
حفاظتی بند باندھ لیجئے
ہم میں آوارہ سو بو لوگو
جیسے جنگل میں رنگ و بو لوگو
ساعت چند کے مسافر سے
کوئی دم اور گفتگو لوگو
تھے تمہاری طرح کبھی ہم بھی
رنگ و نکہت کی آبرو لوگو
قریۂ عاشقی ہراچہ و دل
گھر ہمارے بھی تھے کبھی لوگو
وقت ہوتا تو آرزو کرتے
جانے کس شے کی آرزو لوگو
تاب ہوتی تو جستجو کرتے
جانے کس کس کی جستجو لوگو
کوئی منزل نہیں روانا ہیں
ہم مسافر میں بے ٹھکانا ہیں
دوراہا
تم کسی کا بساؤ گی پہلو
مل رہے گا مجھے نیاساتھی
تم کو سب کچھ گنوا کے پایا تھا
تم بھی کھو جاؤ گی خبر کیا تھی
درد نا گفتی ہے ضبط غم
کیوں سمجھتی ہو سنگدل مجھ کو
تم بھی چاہو تو پوچھ لو آنسو
زخم کچے ہیں دل کے مت چھیڑو
مغتنم ہے یہ صحبت دو دم
مسکرا دو ذرا گلے مل لو
ہا ئے کتنا حسیں زمانا تھا
دیر پا شے حسیں نہیں ہوتی
دن تھے لمحات سے سبک رو تر
رخصت مہر کی خبر نہ ہوئی
باتوں باتوں میں کٹ گئی راتیں
نیند سحر اپنا آزما نہ سکی
نرم رو قافلے ستاروں کے
چاند جیسے تھکا تھکا راہی
دیکھتے دیکھتے گزر بھی گئے
دل میں اک بے خودی سی طاری تھی
خیر اب اپنی راہ پر جاؤ
آگیا زندگی کا دورا ہا
حشر لاکھوں کا ہو چکا ہے یہی
عشق میں کون کامران رہا
تم مری ہو نہ میں تمہارا ہوں
اب تو رشتہ نہیں ہے کچھ اپنا
جب کبھی یاد آئے ماضی کی
ساتھ مجھ کو بھی یاد کر لینا
وصل کو جاوداں سمجھتے تھے
ہائے یہ سادگی محبت کی
کاش پہلے سے جانتے ہوتے
انتہا یہی محبت کی