حفیظ جالندھری اس بزم میں آخر شعرا ہیں کہ نہیں ہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
وہ خدا ہیں کہ نہیں ہیں
اس بزم میں آخر شعرا ہیں کہ نہیں ہیں
انداز مِرے سب سے جُدا ہیں کہ نہیں ہیں

زاہد سے نہیں حُسن کی سرکار سے پُوچھو
ہم بندۂ تسلیم و رضا ہیں کہ نہیں ہیں

جلووں کی طلب، پیروی حضرتِ مُوسیٰ
گُمراہ مِرے راہنما ہیں کہ نہیں ہیں

آ تجھ کو دِکھا دُوں کہ ستاروں سے بھی آگے
انسان کے نقشِ کفِ پا ہیں کہ نہیں ہیں

ہاں میں تو لئے پھرتا ہوں اِک سجدۂ بیتاب
ان سے بھی تو پوچھو وہ خدا ہیں کہ نہیں ہیں

کلام: حفیظ جالندھری ۔ 1923ء
 

باباجی

محفلین
واہ واہ بہت ہی خوب انتخاب


جلووں کی طلب، پیروی حضرتِ مُوسیٰ
گُمراہ مِرے راہنما ہیں کہ نہیں ہیں
 

عاطف بٹ

محفلین
ہاں میں تو لئے پھرتا ہوں اِک سجدۂ بیتاب
ان سے بھی تو پوچھو وہ خدا ہیں کہ نہیں ہیں
واہ، بہت خوب۔
ایک عمدہ غزل شیئر کرنے کے لئے بہت شکریہ فرحت
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہ
کیا خوب گہرا ظاہر و باطن کو ہمراہ لیئے کلام ہے
بہت خوب انتخاب محترم بہنا
زاہد سے نہیں حُسن کی سرکار سے پُوچھو​
ہم بندۂ تسلیم و رضا ہیں کہ نہیں ہیں​
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ فرحت کیانی کیا خوب انتخاب لائی ہیں آپ۔۔۔
ہاں میں تو لئے پھرتا ہوں اِک سجدۂ بیتاب
ان سے بھی تو پوچھو وہ خدا ہیں کہ نہیں ہیں
 
Top