کاشف رفیق
محفلین
"اس بستی کے اِک کُوچے میں"
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اِک نار پہ جان کو ہار گیا، مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا رُوپ نہ تھا، جس رُوپ سے دن کی دُھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخِ گلنار لیے
کچھ بات تھی اُس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اُس کے چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اُسے اپنا بنانے کی دُھن میں ہوُا آپ ہی آپ سے بیگانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
نا چنچل کھیل جوانی کے، نا پیار کی الہڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں اُن کا ملنا تھا، یا فون پہ اُن کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اِک روز بِپھرتے ساگر میں، ناکشتی تھی نا ساحل تھا
جو بات تھی اُن کے دل میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اِک روز اگر برکھا رُت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دئیے، یہ ایک کگر پہ بیٹھے تھے
یُوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے، اُس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سوُد نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دُور ہوئی "مجبوری ساجن مجبوری"
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اُس روز ہمیں معلوم ہوا، اُس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دُکھ نہیں کہتاتھا، چُپ رہتا تھا غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
"کُچھ اور کہو تو سُنتا ہوں، اس باب میں کچھ مت فرمانا"
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اب آگے کا تحقیق نہیں، گو سُننے کو ہم سُنتے تھے
اُس نار کی جو جو باتیں تھیں، اُس نار کے جو جو قصے تھے
اِک شام جو اُس کو بُلوایا، کچھ سمجھایا بے چارے نے
اُس رات یہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دُکھیارے نے
کیا بات ہوئی کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہانی کہنے دو
اُس نار کا نام،مقام ہے کیا، اس بات پہ پردا رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہوسکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہوسکتا ہے، یہ اپنی کتھا ہوسکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی، کس کام کا ایسا پچھتانا؟
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اِک نار پہ جان کو ہار گیا، مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا رُوپ نہ تھا، جس رُوپ سے دن کی دُھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخِ گلنار لیے
کچھ بات تھی اُس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اُس کے چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اُسے اپنا بنانے کی دُھن میں ہوُا آپ ہی آپ سے بیگانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
نا چنچل کھیل جوانی کے، نا پیار کی الہڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں اُن کا ملنا تھا، یا فون پہ اُن کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اِک روز بِپھرتے ساگر میں، ناکشتی تھی نا ساحل تھا
جو بات تھی اُن کے دل میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اِک روز اگر برکھا رُت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دئیے، یہ ایک کگر پہ بیٹھے تھے
یُوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے، اُس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سوُد نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دُور ہوئی "مجبوری ساجن مجبوری"
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اُس روز ہمیں معلوم ہوا، اُس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دُکھ نہیں کہتاتھا، چُپ رہتا تھا غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
"کُچھ اور کہو تو سُنتا ہوں، اس باب میں کچھ مت فرمانا"
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
اب آگے کا تحقیق نہیں، گو سُننے کو ہم سُنتے تھے
اُس نار کی جو جو باتیں تھیں، اُس نار کے جو جو قصے تھے
اِک شام جو اُس کو بُلوایا، کچھ سمجھایا بے چارے نے
اُس رات یہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دُکھیارے نے
کیا بات ہوئی کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا
ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہانی کہنے دو
اُس نار کا نام،مقام ہے کیا، اس بات پہ پردا رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہوسکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہوسکتا ہے، یہ اپنی کتھا ہوسکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی، کس کام کا ایسا پچھتانا؟
اس بستی کے اِک کُوچے میں، اِک انشاء نام کا دیوانا