اس جہانِ آرزو میں اور کیا کیا دیکھیے۔ ۔۔

La Alma

لائبریرین
اس جہانِ آرزو میں اور کیا کیا دیکھیے ‬
‫دستِ ساقی دیکھیے یا موجِ صہبا دیکھیے؟‬

‫رنگِ عالم دیکھیے! ہنگامِ دنیا دیکھیے!‬
‫بیٹھ کر چپ چاپ یوں ہی بس تماشا دیکھیے‬

‫تابِ نظّارہ نہیں کیونکر سراپا دیکھیے ‬
‫شوخیِ دل کہہ رہی ہے، بے محابا دیکھیے ‬


سازِ سودائے محبت بج رہا ہے چار سو‬
‫دم بدم اہلِ جنوں کو رقص کرتا دیکھیے ‬
مسندِ خلوت پہ ہے کثرت نمائی جلوہ گر ‬
‫خود پسندی کیا یہی ہے خود میں خود سا دیکھیے ‬

‫دیکھنا ہو جب کبھی المٰی سکوتِ زندگی‬
‫ شیشہء برفاب میں پھر عکس جمتا دیکھیے
 
اس جہانِ آرزو میں اور کیا کیا دیکھیے ‬
‫دستِ ساقی دیکھیے یا موجِ صہبا دیکھیے؟‬

‫رنگِ عالم دیکھیے! ہنگامِ دنیا دیکھیے!‬
‫بیٹھ کر چپ چاپ یوں ہی بس تماشا دیکھیے‬

‫تابِ نظّارہ نہیں کیونکر سراپا دیکھیے ‬
‫شوخیِ دل کہہ رہی ہے، بے محابا دیکھیے ‬


سازِ سودائے محبت بج رہا ہے چار سو‬
‫دم بدم اہلِ جنوں کو رقص کرتا دیکھیے ‬

مسندِ خلوت پہ ہے کثرت نمائی جلوہ گر ‬
‫خود پسندی کیا یہی ہے خود میں خود سا دیکھیے ‬

‫دیکھنا ہو جب کبھی المٰی سکوتِ زندگی‬
‫ شیشہء برفاب میں پھر عکس جمتا دیکھیے
خوبصورت خوبصورت!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب !! کیا اچھی غزل ہے المیٰ صاحبہ! اچھی زمین ہے۔ پسند آئی ۔ ایسی کشادہ زمینوں میں اچھے شعر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔

‫تابِ نظّارہ نہیں کیونکر سراپا دیکھیے ‬
‫شوخیِ دل کہہ رہی ہے بے محابا دیکھیے ‬

اچھا کہا ہے ! بہت خوب!

سازِ سودائے محبت بج رہا ہے چار سو‬
‫دم بدم اہلِ جنوں کو رقص کرتا دیکھیے ‬

کیا بات ہے !! بہت اچھے !

مقطع بھی اچھا ہے ۔ مطلع البتہ دولخت ہے ۔ دستِ ساقی یا موجِ صہبا کا ربط جہانِ آرزو سے شعر میں واضح نہیں ہوا ۔ جہانِ آرزو کے بجائے اگر میخانہءآرزو یا اسی قبیل کا اور کوئی تلازمہ لائیں تو مصرعے مربوط ہوجائیں گے ۔
حسنِ مطلع میں سخت گڑبڑ ہے ۔ ہنگام کی ترکیب تو کسی واقعے یا موقع کے ساتھ ہی بن سکتی ہے جیسے ہنگامِ رخصت ، ہنگامِ مرگ ، ہنگامِ وصل ، ہنگامِ وداع وغیرہ۔ ہنگامِ دنیا کے کیا معنی ہوئے؟؟ یا پھر مجھے لگتا ہے کہ آپ نے ہنگام کو ہنگامہ کے مخفف یا متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جو ظاہر ہے کہ درست نہیں ۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو بتایئے گا اس پر ایک مزیدار واقعہ نذرِ محفل کروں گا ۔ :):):)
 

La Alma

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب !! کیا اچھی غزل ہے المیٰ صاحبہ! اچھی زمین ہے۔ پسند آئی ۔ ایسی کشادہ زمینوں میں اچھے شعر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔

‫تابِ نظّارہ نہیں کیونکر سراپا دیکھیے ‬
‫شوخیِ دل کہہ رہی ہے بے محابا دیکھیے ‬

اچھا کہا ہے ! بہت خوب!

سازِ سودائے محبت بج رہا ہے چار سو‬
‫دم بدم اہلِ جنوں کو رقص کرتا دیکھیے ‬

کیا بات ہے !! بہت اچھے !
انتہائی سپاس گزار ہوں۔ ہمت افزائی کے لئے بہت شکریہ۔
مقطع بھی اچھا ہے ۔ مطلع البتہ دولخت ہے ۔ دستِ ساقی یا موجِ صہبا کا ربط جہانِ آرزو سے شعر میں واضح نہیں ہوا ۔ جہانِ آرزو کے بجائے اگر میخانہءآرزو یا اسی قبیل کا اور کوئی تلازمہ لائیں تو مصرعے مربوط ہوجائیں گے ۔
میں چاہتی ہوں کچھ مشقت قاری بھی اٹھائے۔ لیکن آپ کو اس کی سہل پسندی مطلوب ہے۔ :):) ساقی اور صہبا کی مناسبت سے تو واضح ہے کہ جہان کو میخانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ آرزو کے تلازمات ساقی کے" دست"، یعنی دینے والا ہاتھ اور "صہبا" یعنی تکمیلِ آرزو کی صورت تو بہرحال موجود ہیں۔ آپ کی رائے بھی صائب ہے۔ میخانہء آرزو سے شعریت دوچند ہو جاتی، لیکن کیا کریں لاکھ کوشش کے باوجود اسے بحر و بر (غزل کی بحر اور زمین ) ہی نہیں قبول کر رہے۔:)
کسی واقعے یا موقع کے ساتھ ہی بن سکتی ہے جیسے ہنگامِ رخصت ، ہنگامِ مرگ ، ہنگامِ وصل ، ہنگامِ وداع وغیرہ۔ ہنگامِ دنیا کے کیا معنی ہوئے؟؟ یا پھر مجھے لگتا ہے کہ آپ نے ہنگام کو ہنگامہ کے مخفف یا متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جو ظاہر ہے کہ درست نہیں ۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو بتایئے گا اس پر ایک مزیدار واقعہ نذرِ محفل کروں گا
رنگِ عالم اور ہنگامِ دنیا کو میں نے قریب قریب " زمان و مکاں" کے معنوں میں برتا ہے۔ رنگِ عالم کی جہات تو اس کے علاوہ اور بھی کئی ہیں لیکن ہنگام بالخصوص وقت کے مفہوم میں ہی ہے۔ یہاں ہنگامِ دنیا سے میری مراد سلسلہء روز و شب ، یعنی دنیا کے اوقاتِ کار ، ادوار، یا زمانہ ہے۔ لیکن اب مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ ترکیب ناقص ہے۔ اگر قابلِ قبول نہیں تو کوئی اور متبادل دیکھتی ہوں۔ اس بارے میں آپ اور دیگر احباب کیا کہتے ہیں؟ یقینًا آپ اور دیگر اساتذہ کی رائے مقدم ہے۔
سر الف عین
جناب محمد وارث
جناب سید عاطف علی
سر محمد خلیل الرحمٰن
واقعہ پھر بھی شئیر کیجئے گا شاید کوئی عبرت کا سامان ہو جائے۔:)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ساقی اور صہبا کی مناسبت سے تو واضح ہے کہ جہان کو میخانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ آرزو کے تلازمات ساقی کے" دست"، یعنی دینے والا ہاتھ اور "صہبا" یعنی تکمیلِ آرزو کی صورت تو بہرحال موجود ہیں۔
بھئی ایسا ظلم مت کیجئے ۔ یہ تو ہمیں یہاں سے بھگانے والی باتیں ہیں ۔ :):):) تشبیہ اور استعارہ کا فرق ملحوظ رکھئے ۔ تشبیہ تو اس شعر میں آپ نےاستعمال نہیں کی۔ تشبیہ کے لئے تو مشبہّ اور مشبہّ بہ دونوں کا شعر میں موجود ہونا ضروری ہے ۔ اور تشبیہ کی درستی کے لئے شرط ہے کہ کوئی معقول وجہ تشبیہ بھی موجود ہو ۔ یہ تمام عناصر ہی اس شعر میں مفقود ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتی ہیں کہ آپ نے اس جہان کو میخانے کے لئے بطور استعارہ استعمال کیا ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میخانہ کو جہان کس وجہ سے کہا جارہاہے ؟ جس طرح تشبیہ کے لئے وجہِ تشبیہ کا ہونا ضروری ہے اسی طرح استعارے کے لئے وجہ جامع یا وجہ استعارہ کا ہونا ضروری ہے ۔ مستعارلہ اور مستعارمنہ میں مشترک صفات وخصوصیات کی بنا پر ہی استعارہ قائم ہوتا ہے ۔ مثلاً غم کو آگ کہنا ، محبوب کو پھو ل کہنا ، ظلم کو تیرگی یا رات کہنا وغیرہ ۔ ان میں وجہ استعارہ صاف ظاہر ہے ۔ لیکن میخانہ کو جہان کہنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔
دو لختی کو بھی گہرائی میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ دو لخت مطلع میں ہر مصرع اپنی جگہ مفہوم اور مطلب میں مکمل ہوتا ہے ۔ یعنی ہر مصرع ایک پوری بات بیان کرتا ہے ۔ لیکن جب دونوں مصرعوں کو ملا کر پڑھا جائے تو دونوں باتیں آپس میں غیر متعلق ہوتی ہیں یعنی ایک مصرع سے دوسرے مصرع میں ذہنی چھلانگ لگانے کے لئے کوئی لفظی یا معنوی ربط موجود نہیں ہوتا ۔ مزید وضاحت کے لئے یہ مطلع دیکھئے ۔ اس میں پہلا مصرع آپ کا ہے اور دوسرا میں نے گھڑ کر لگایاہے ۔
اس جہانِ آرزو میں اور کیا کیا دیکھئے
دستِ گلچیں دیکھئے یا رنگِ لالہ دیکھئے
تو کیا اب وہ تمام تاویلات جو آپ نے میخانہ اور جہانِ آرزو کے حوالے سے بیان کی ہیں وہ میں گلستان کے حوالے سے بیان کرسکتا ہوں ؟! :) ۔ یہ شعر دولخت ہے ۔ لیکن:
گل ستانِ آرزو میں اور کیا کیا دیکھئے
دستِ گلچیں دیکھئے یا رنگِ لالہ دیکھئے
اب مصرعے مربوط اور شعر بامعنی ہوگیا ۔ اب اس کی تمام تاویلات درست ہوجائیں گی۔ شعر کے مطلب کو قاری کے ذہن پر چھوڑنے کے لئے بھی اسے کچھ رہنما اشارے تو دینا ضروری ہوتے ہیں ۔ ورنہ پھرمعنی فی بطن الشاعر والا معاملہ ہوجاتا ہے ۔ :)

میخانہء آرزو سے شعریت دوچند ہو جاتی، لیکن کیا کریں لاکھ کوشش کے باوجود اسے بحر و بر (غزل کی بحر اور زمین ) ہی نہیں قبول کر رہے۔
اگر آپ کرنا چاہیں تو اس شعر میں میخانہ کے بجائے میکدہ موزوں ہوسکتا ہے ۔ میکدے میں آرزو کے وغیرہ وغیرہ ۔
( ویسے بحر و بر اچھا کہا ہے ! :))

لیکن اب مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ ترکیب ناقص ہے۔ اگر قابلِ قبول نہیں تو کوئی اور متبادل دیکھتی ہوں۔ اس بارے میں آپ اور دیگر احباب کیا کہتے ہیں؟
میں اس بارے میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ ہنگامِ دنیا کی ترکیب بے معنی ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے میں کہوں ’’وقتِ دنیا دیکھئے‘‘ ۔ یہ بالکل مجہول ہے ۔ آپ ہنگامِ دنیا کے بجائے اندازِ دنیا وغیرہ رکھ سکتی ہیں ۔
‫رنگِ عالم دیکھیے! اندازِ دنیا دیکھیے!
‫بیٹھ کر چپ چاپ یوں ہی بس تماشا دیکھیے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میکدے والی تجویز تو میرے بھی ذہن میں اسی طرح آئی تھی اور چست بندش بھی یہی بہتر لگتی البتہ موجودہ مطلع پر دو لختگی کی اتنی سنگین تو کیفیت نہیں محسوس ہوئی کہ بعد المشرقین یا مغربین لگے (حتی کہ گلستان و گلچیں والی مثال مین بھی یہی کیفیت ہے )۔دوسرے مصرعے میں تو کچھ الگ مضمون ہی نہیں ۔
پہلے مصرعے کو دیکھیں تو "جہاں" ایک عام اور وسیع آغاز ہے لیکن اسے آرزو سے متصل کر کے قدرے محدود کر لیا گیا ہے ((شاعر کے زبان کے مطابق )) ۔ یہاں شاعر کی آرزو (یعنی درحقیقت آرزو کا جہان) ابھی واضح نہیں ہوئی ۔دوسرے مصرعے میں آرزو کے جہاں کی ایک دو مثالیں بطور تخصیص دے کر شعری مضمون کو متحد کر دیا گیا ہے اور یوں محسوس ہوا کہ دو لختی کا احساس جاتا رہا یا ہوا ہی نہیں ۔
بطور مجموعی اس سے انکار نہیں کہ میخانے یا میکدے کی ترکیب سے شعر کی لفظی اور معنوی مطابقت مضمون و خیال کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی اور آراستگی ذرا اور نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے ۔
ہنگام والی ترکیب یقینا اچھی طرح پیوستہ نہیں لگی ۔
یہ البتہ محض میری رائے ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
تشبیہ اور استعارہ کا فرق ملحوظ رکھئے ۔ تشبیہ تو اس شعر میں آپ نےاستعمال نہیں کی۔ تشبیہ کے لئے تو مشبہّ اور مشبہّ بہ دونوں کا شعر میں موجود ہونا ضروری ہے ۔ اور تشبیہ کی درستی کے لئے شرط ہے کہ کوئی معقول وجہ تشبیہ بھی موجود ہو ۔ یہ تمام عناصر ہی اس شعر میں مفقود ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتی ہیں کہ آپ نے اس جہان کو میخانے کے لئے بطور استعارہ استعمال کیا ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میخانہ کو جہان کس وجہ سے کہا جارہاہے ؟ جس طرح تشبیہ کے لئے وجہِ تشبیہ کا ہونا ضروری ہے اسی طرح استعارے کے لئے وجہ جامع یا وجہ استعارہ کا ہونا ضروری ہے ۔ مستعارلہ اور مستعارمنہ میں مشترک صفات وخصوصیات کی بنا پر ہی استعارہ قائم ہوتا ہے ۔ مثلاً غم کو آگ کہنا ، محبوب کو پھو ل کہنا ، ظلم کو تیرگی یا رات کہنا وغیرہ ۔ ان میں وجہ استعارہ صاف ظاہر ہے ۔ لیکن میخانہ کو جہان کہنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔
متفق۔ تشبیہ اور استعارہ کے ایک ہی قبیل سے ہونے کی وجہ سے ان کے ارکان کی طرف دھیان نہیں گیا۔ اگرچہ یہاں ان دونوں کا محل بھی نہیں تھا۔ لیکن جہان کو بطور میخانہ فرض تو کیا جا سکتا ہے :):)
شعر کے مطلب کو قاری کے ذہن پر چھوڑنے کے لئے بھی اسے کچھ رہنما اشارے تو دینا ضروری ہوتے ہیں ۔ ورنہ پھرمعنی فی بطن الشاعر والا معاملہ ہوجاتا ہے ۔ :)

بطور مجموعی اس سے انکار نہیں کہ میخانے یا میکدے کی ترکیب سے شعر کی لفظی اور معنوی مطابقت مضمون و خیال کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی اور آراستگی ذرا اور نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے ۔
اب شاید کچھ بات بن جائے۔ دیکھیے۔

کوچہء بادہ کشاں میں اور کیا کیا دیکھیے
دستِ ساقی دیکھیے یا موجِ صہبا دیکھیے
یا
بزمِ رندانِ جہاں میں اور کیا کیا دیکھیے
دستِ ساقی دیکھیے یا موجِ صہبا دیکھیے
ہنگامِ دنیا کی ترکیب بے معنی ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے میں کہوں ’’وقتِ دنیا دیکھئے‘‘ ۔ یہ بالکل مجہول ہے

ہنگام والی ترکیب یقینا اچھی طرح پیوستہ نہیں لگی ۔
ہنگام والے شعر کی نئی صورت کچھ یوں ہے۔

اٹھ گیا ہے پردہء شب، رنگِ فردا دیکھیے
بیٹھ کر چپ چاپ یوں ہی اب تماشا دیکھیے

اصلاح اور رہنمائی کے لئے بہت ممنون ہوں۔ آئندہ بھی آپ کا قیمتی وقت درکار ہو گا۔ جزاک اللہ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
متفق۔ تشبیہ اور استعارہ کے ایک ہی قبیل سے ہونے کی وجہ سے ان کے ارکان کی طرف دھیان نہیں گیا۔ اگرچہ یہاں ان دونوں کا محل بھی نہیں تھا۔ لیکن جہان کو بطور میخانہ فرض تو کیا جا سکتا ہے :):)

اب شاید کچھ بات بن جائے۔ دیکھیے۔

کوچہء بادہ کشاں میں اور کیا کیا دیکھیے
دستِ ساقی دیکھیے یا موجِ صہبا دیکھیے
یا
بزمِ رندانِ جہاں میں اور کیا کیا دیکھیے
دستِ ساقی دیکھیے یا موجِ صہبا دیکھیے

ہنگام والے شعر کی نئی صورت کچھ یوں ہے۔

اٹھ گیا ہے پردہء شب، رنگِ فردا دیکھیے
بیٹھ کر چپ چاپ یوں ہی اب تماشا دیکھیے

اصلاح اور رہنمائی کے لئے بہت ممنون ہوں۔ آئندہ بھی آپ کا قیمتی وقت درکار ہو گا۔ جزاک اللہ۔
بہت خوب! کیا بات ہے!
آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں پر تو ہمیں کبھی شبہ نہ تھا ۔:)
 

محمداحمد

لائبریرین
‫رنگِ عالم دیکھیے! ہنگامِ دنیا دیکھیے!‬
‫بیٹھ کر چپ چاپ یوں ہی بس تماشا دیکھیے‬
‫تابِ نظّارہ نہیں کیونکر سراپا دیکھیے ‬
‫شوخیِ دل کہہ رہی ہے، بے محابا دیکھیے ‬
سازِ سودائے محبت بج رہا ہے چار سو‬
‫دم بدم اہلِ جنوں کو رقص کرتا دیکھیے ‬
مسندِ خلوت پہ ہے کثرت نمائی جلوہ گر ‬
‫خود پسندی کیا یہی ہے خود میں خود سا دیکھیے ‬

کیا کہنے!

بہت خوب! بہت اچھے اشعار ہیں۔
 
Top