اسامہ جمشید
محفلین
بروز اتوار 7 سپٹمبر 2014 كو لكھي گئي ايك نظم
(اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا)
ہم دور كسي اك وادي ميں
لا وارث سے كچے گھر ميں
تنها رات كو سوچ رهے تھے
ہم جيسے خود كو بھول گئے
اس رات بڑي بے چيني تھي
كچھ مٹي كي بو نے ستايا
اور آگ لگا دي قطروں نے
اس گرتے گرتے پاني كے
ہم دل كے پھوڑے پھوڑ گئے
اس رات ميں چاند كا پهرا تھا
دستك دي اك دوشيزه نے
خود آكر جب دروازے پر
ہم تھام كے اس كے هاتوں كو
جذبات كي گرهيں كھول گئے
اس رات بڑا سناٹا تھا
اس رات بھي بركھا برسي تھي
ہم پہلے هي بے چين سے تھے
ہمزاد كي بھي كچھ مرضي تھي
جسم اپني باتيں بول گئے
اس رات سمے كي مهلت تھي
پھر ظلمت ظلمت عالم ميں
اور سهمي سهمي سانسوں ميں
اس حسن كا ايسا نور كھلا
ہم ساري شرطيں توڑ گئے
اس رات بلا كي وحشت تھي
پھر آب بقا كا دور چلا
اور دور بھي ساري رات چلا
اور بوسوں كے تكرار هوئے
ہم رات كو پيچھے چھوڑ گئے
اس رات ميں ايسي راحت تھي
پھر نازك نازك لمحوں ميں
رخساروں ميں ان زلفوں ميں
ان كمسن گهري لهروں ميں
ہم بچتے بچتے ڈوب گئے
اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا
(أسامہ جمشیدؔ)
(اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا)
ہم دور كسي اك وادي ميں
لا وارث سے كچے گھر ميں
تنها رات كو سوچ رهے تھے
ہم جيسے خود كو بھول گئے
اس رات بڑي بے چيني تھي
كچھ مٹي كي بو نے ستايا
اور آگ لگا دي قطروں نے
اس گرتے گرتے پاني كے
ہم دل كے پھوڑے پھوڑ گئے
اس رات ميں چاند كا پهرا تھا
دستك دي اك دوشيزه نے
خود آكر جب دروازے پر
ہم تھام كے اس كے هاتوں كو
جذبات كي گرهيں كھول گئے
اس رات بڑا سناٹا تھا
اس رات بھي بركھا برسي تھي
ہم پہلے هي بے چين سے تھے
ہمزاد كي بھي كچھ مرضي تھي
جسم اپني باتيں بول گئے
اس رات سمے كي مهلت تھي
پھر ظلمت ظلمت عالم ميں
اور سهمي سهمي سانسوں ميں
اس حسن كا ايسا نور كھلا
ہم ساري شرطيں توڑ گئے
اس رات بلا كي وحشت تھي
پھر آب بقا كا دور چلا
اور دور بھي ساري رات چلا
اور بوسوں كے تكرار هوئے
ہم رات كو پيچھے چھوڑ گئے
اس رات ميں ايسي راحت تھي
پھر نازك نازك لمحوں ميں
رخساروں ميں ان زلفوں ميں
ان كمسن گهري لهروں ميں
ہم بچتے بچتے ڈوب گئے
اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا
(أسامہ جمشیدؔ)