اس زندگی کے رنگِ تماشا کی بات ہو

اس زندگی کے رنگِ تماشا کی بات ہو
کچھ درد اور درد شناسا کی بات ہو

لمبے سفر میں جسکی لکیریں بھی مٹ گئیں
اس بے مراد و خستہ کفِ پا کی بات ہو

شورو شغب میں بھول گئے جس کا ذکر بھی
اس پُر ہجوم زیست میں، تنہا کی بات ہو

جو ابتدا سے اپنے مقدر میں تھا لکھا
اس بے کنارو بے سکوں صحرا کی بات ہو

یوسف تو بھائیوں کے ستم کا نشاں بنا
خود پہ ستم ظریف زلیخا کی بات ہو

بت خانہ ءِ جہاں کی فسوں کاریاں بہت
اب عزمتِ بشر کی اور کعبہ کی بات ہو

آنکھوں کی وسعتیں بھی تو احسان ہوں بیاں
ہر وقت جو رواں ہے اس دریا کی بات ہو

احسان الٰہی احسان​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top