اس شعر کی تقطیع کیا ہوگی ؟

مغزل

محفلین
اس شعر کی تقطیع کیا ہوگی ؟

اے نغمہِ آواز طلب، آہِ سرِ شام
اس شمع ِپسِ دار کے پگھلنے کی خبر دے

کیا : مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
اور کیا یہ شعر بحر میں ہے ۔۔ ؟؟
بحر کا نام کیا ہوگا ؟؟
کیا مصرع ثانی میں ایک رکن زیادہ نہیں ؟؟

التفات کیلیے پیشگی شکریہ
والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن (یا فعولان)

تقطیع:

اے نغمۂ آواز طلب، آہِ سرِ شام

اے نغمَ - مفعول
ء آواز - مفاعیل
طلب آہِ - مفاعیل
سرِ شام - فعولان

دوسرے مصرع میں آپ نے صحیح لکھا ایک لفظ زائد ہے۔

اس شمعِ پسِ دار کے پگھلنے کی خبر دے

اس شمع - مفعول
پسِ دار - مفاعیل
کے ؟
پگھلنے کی - مفاعیل
خبر دے - فعولن

(اگر اس مصرع کو اسطرح پڑھیں

اس شمعِ پسِ دار کے جلنے کی خبر دے

تو پھر موزوں ہے۔)

والسلام
 

مغزل

محفلین
شہر کے تین جید شعراء کرام نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔۔
جس پر میں نے ۔۔ یہی تقطیع پیش کی ۔۔۔جو میں نے پیش کی ۔۔
اب چونکہ مجھے زیادہ علم نہیں ۔۔ سو آپ کو زحمت دی۔۔۔ ( آپ کامراسلہ بھی روانہ کردیا ہے) تاکہ سند رہے۔
قبل اس کے ، میں نے کہا تھا کہ : ’’ مصرع ثانی میں ایک رکن کی وجہ سے میں‌غچہ کھا رہا ہوں ‘‘

والسلام و مع الکرام
 

محمد وارث

لائبریرین
شہر کے تین جید شعراء کرام نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔۔
جس پر میں نے ۔۔ یہی تقطیع پیش کی ۔۔۔جو میں نے پیش کی ۔۔
اب چونکہ مجھے زیادہ علم نہیں ۔۔ سو آپ کو زحمت دی۔۔۔ ( آپ کامراسلہ بھی روانہ کردیا ہے) تاکہ سند رہے۔
قبل اس کے ، میں نے کہا تھا کہ : ’’ مصرع ثانی میں ایک رکن کی وجہ سے میں‌غچہ کھا رہا ہوں ‘‘

والسلام و مع الکرام

واہ، ان سے اس کی تقطیع طلب فرمائیں تا کہ ہمارے ناقص علم بھی اضافہ ہو! ویسے یہ شعر ہے کس کا؟
 

مغزل

محفلین
نام رہنے دیں ۔۔ ایک بزرگ شاعر کا ہے ۔۔
وہ میرے کہنے پر اپنی غلطی تسلیم کرچکے تھے ۔۔
یہ تو مورچھل جھلنے والے انہیں گمراہ کررہے ہیں
اور مجھے یہ گورا نہیں ۔۔
ان دیگر دو صاحبان سے تقطیع کی درخواست کی ہے۔
دیکھیں کیا فرماتے ہیں ۔۔
 

فاروقی

معطل
یہ تقطیع کیا ہوتی ہے جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ کہیں سے درامد کی جاتی ہے۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔یا یہیں کہیں کسی بیو پاری کے پاس مل جاتی ہے،۔۔۔۔۔؟(گپ)


بہر حال مجھے تقطیع کے بارے میں بتایئے گا۔۔۔۔(سنجیدہ)
 

مغزل

محفلین
تَقْطِیع [تَق + طِیع] (عربی)
------------------------------------------------
ق ط ع قَطْع تَقْطِیع

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔
عربی سے اردو میں اصل معنی اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے 1503ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
1. ٹکڑے ٹکڑے کرنا، قطع کرنا، کاٹنا۔
"تقطیع کے معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں۔" ( 1881ء، بحرالفصاحت، 166 )
2. [ طب ] توڑنا، ٹوٹنا، کاٹنا، کٹنا، پھاڑنا، پھٹنا۔
"سرکے کی کلیاں کرائی جائیں تاکہ بلغم کی تقطیع ہو جائے۔" ( 1892ء، میڈیکل جیورنس پروڈنس، 236 )
چیرپھاڑ کرنا، تجزیہ۔
"وہ اپنے شاگردوں سے کہتا تھا کہ وہ خود تقطیع کریں۔" ( 1970ء، زعمائے سائنس، 60 )
3. حروف تہجی (الف، بے، تے) کے وہ حصے جن میں حرفوں کو ایک دوسرے سے ملانا سکھایا جاتا ہے، جیسے : بابت، طاطت وغیرہ نیز حروف کی وضع قطع یا حصے۔
"بولتے وقت حرف کی تقطیع کے مطابق رفتہ رفتہ ہوا کی معین مقدار خارج ہوتی رہتی ہے۔" ( 1936ء، شرح اسباب، 165:2 )
4. سینے اور جسم کی خوبصورتی، خوش وضعی۔
 پوشاک سفید اس کی نظر آتی ہے گلگوں
یہ رخت یہ تقطیع تد مصرع موزوں ( 1857ء، دبیر، دفتر ماتم، 144:6 )
5. [ عروض ] شعر کے اجزا کو بحر کے مقرر اجزا کے ساتھ برابر کر کے جانچنا یعنی ہیئت کے متحرک و ساکن حرفوں کے مقابل کرنا، وزن کرنا۔
"موجیں وہ مصرع تھیں جن کی ہزاروں صورتوں سے تقطیع ہوتی تھی۔" ( 1866ء، جادۂ تسخیر، 203 )

6. سائز، ناپ (کتاب یا کسی اور مطبوعہ شے کے کاغذ وغیرہ کا)۔
"نظم 22x18 تقطیع کے 32 صفحوں پر آئی ہے۔" ( 1954ء، اکبرنامہ، 352 )
7. [ ٹیلی ویژن ] کیمرے کی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ باریک نقطوں کی شکل میں موسیک پر منتقل ہو جاتا ہے۔
الیکٹرون بندوق سے نکلنے والی شعاع موسیک کے اوپر بائیں کونے پر پڑتی ہے اور بائیں سے دائیں ہر نقطہ کو کتاب کی
سطور کی مانند بڑھتی ہوئی تصویر کے نیچے تک پہنچ کر ایک فریم کو مکمل کر دیتی ہے یہ عمل تقطیع کہلاتا ہے، انگریزی Scanning۔ (ٹیلی ویژن کی کہانی، 147)
8. [ تجوید ] حروف کے عیبوں میں سے ایک عیب، توڑ توڑ کر پڑھنا۔
"حروف کے عیوب و نقائص مثلاً ترمید، ترقیض، تقطیع، تطنین و تحطیط و تحزین و ترجیح۔" ( 1974ء، علم تجوید و قرآت، 25 )

بشکریہ اردو لغت بورڈ کراچی
مدیر : لیاقت علی عاصم
 

فاروقی

معطل
محمود صاحب پنجابی میں ایک کہاوت ہے ........"تھوڑا لد سو ویلے آ".....یعنی کم وزن اٹھاو گے تو مشکل میں نہیں پڑو گے.........اسلیئے کم بولو گے تو اگلہ سنے گا .کم لکھو گے تو اگلہ پڑھے گے.........بہر حال پڑھ تو میں نے لیا ہے .........پر..........چلیں رہنے دیتا ہوں .یہ نہ ہو کے آئندہ آپ میرے پوچھنے پر جواب ہی نہ دیا کریں.......:hatoff::music:

ویسے بھی آپ سمجھ تو گئے ہی ہیں.......آپ کے لیئے ہی تو وہ مثال بنی ہے.......کہ.....عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہے.......:music:
 

ش زاد

محفلین
تَقْطِیع [تَق + طِیع] (عربی)
------------------------------------------------
ق ط ع قَطْع تَقْطِیع

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔
عربی سے اردو میں اصل معنی اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے 1503ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
1. ٹکڑے ٹکڑے کرنا، قطع کرنا، کاٹنا۔
"تقطیع کے معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں۔" ( 1881ء، بحرالفصاحت، 166 )
2. [ طب ] توڑنا، ٹوٹنا، کاٹنا، کٹنا، پھاڑنا، پھٹنا۔
"سرکے کی کلیاں کرائی جائیں تاکہ بلغم کی تقطیع ہو جائے۔" ( 1892ء، میڈیکل جیورنس پروڈنس، 236 )
چیرپھاڑ کرنا، تجزیہ۔
"وہ اپنے شاگردوں سے کہتا تھا کہ وہ خود تقطیع کریں۔" ( 1970ء، زعمائے سائنس، 60 )
3. حروف تہجی (الف، بے، تے) کے وہ حصے جن میں حرفوں کو ایک دوسرے سے ملانا سکھایا جاتا ہے، جیسے : بابت، طاطت وغیرہ نیز حروف کی وضع قطع یا حصے۔
"بولتے وقت حرف کی تقطیع کے مطابق رفتہ رفتہ ہوا کی معین مقدار خارج ہوتی رہتی ہے۔" ( 1936ء، شرح اسباب، 165:2 )
4. سینے اور جسم کی خوبصورتی، خوش وضعی۔
 پوشاک سفید اس کی نظر آتی ہے گلگوں
یہ رخت یہ تقطیع تد مصرع موزوں ( 1857ء، دبیر، دفتر ماتم، 144:6 )
5. [ عروض ] شعر کے اجزا کو بحر کے مقرر اجزا کے ساتھ برابر کر کے جانچنا یعنی ہیئت کے متحرک و ساکن حرفوں کے مقابل کرنا، وزن کرنا۔
"موجیں وہ مصرع تھیں جن کی ہزاروں صورتوں سے تقطیع ہوتی تھی۔" ( 1866ء، جادۂ تسخیر، 203 )

6. سائز، ناپ (کتاب یا کسی اور مطبوعہ شے کے کاغذ وغیرہ کا)۔
"نظم 22x18 تقطیع کے 32 صفحوں پر آئی ہے۔" ( 1954ء، اکبرنامہ، 352 )
7. [ ٹیلی ویژن ] کیمرے کی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ باریک نقطوں کی شکل میں موسیک پر منتقل ہو جاتا ہے۔
الیکٹرون بندوق سے نکلنے والی شعاع موسیک کے اوپر بائیں کونے پر پڑتی ہے اور بائیں سے دائیں ہر نقطہ کو کتاب کی
سطور کی مانند بڑھتی ہوئی تصویر کے نیچے تک پہنچ کر ایک فریم کو مکمل کر دیتی ہے یہ عمل تقطیع کہلاتا ہے، انگریزی Scanning۔ (ٹیلی ویژن کی کہانی، 147)
8. [ تجوید ] حروف کے عیبوں میں سے ایک عیب، توڑ توڑ کر پڑھنا۔
"حروف کے عیوب و نقائص مثلاً ترمید، ترقیض، تقطیع، تطنین و تحطیط و تحزین و ترجیح۔" ( 1974ء، علم تجوید و قرآت، 25 )

بشکریہ اردو لغت بورڈ کراچی
مدیر : لیاقت علی عاصم
محمود بھائی آپ کا کام قابلِ دید ہے
کوئی کیا جانے علم حاصل کرنا کتنا جی جان کا کام ہے

وہ سمجھ گئے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔;)

کیوں کہ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے

کیا سمجھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟:confused::confused::confused:
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ شین ۔
اعتراض خان اعتراض صاحب
اب ہم نہیں رہے ۔۔ میرا مطلب ہے انہیں پابندِ سلاسل کردیا گیا ہے۔
خیر ۔۔ اپنے اپنے ذوق کی بات ہے ۔
والسلام
 

حسن نظامی

لائبریرین
تَقْطِیع [تَق + طِیع] (عربی)
------------------------------------------------
ق ط ع قَطْع تَقْطِیع

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔
عربی سے اردو میں اصل معنی اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے 1503ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
1. ٹکڑے ٹکڑے کرنا، قطع کرنا، کاٹنا۔
"تقطیع کے معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں۔" ( 1881ء، بحرالفصاحت، 166 )
2. [ طب ] توڑنا، ٹوٹنا، کاٹنا، کٹنا، پھاڑنا، پھٹنا۔
"سرکے کی کلیاں کرائی جائیں تاکہ بلغم کی تقطیع ہو جائے۔" ( 1892ء، میڈیکل جیورنس پروڈنس، 236 )
چیرپھاڑ کرنا، تجزیہ۔
"وہ اپنے شاگردوں سے کہتا تھا کہ وہ خود تقطیع کریں۔" ( 1970ء، زعمائے سائنس، 60 )
3. حروف تہجی (الف، بے، تے) کے وہ حصے جن میں حرفوں کو ایک دوسرے سے ملانا سکھایا جاتا ہے، جیسے : بابت، طاطت وغیرہ نیز حروف کی وضع قطع یا حصے۔
"بولتے وقت حرف کی تقطیع کے مطابق رفتہ رفتہ ہوا کی معین مقدار خارج ہوتی رہتی ہے۔" ( 1936ء، شرح اسباب، 165:2 )
4. سینے اور جسم کی خوبصورتی، خوش وضعی۔
 پوشاک سفید اس کی نظر آتی ہے گلگوں
یہ رخت یہ تقطیع تد مصرع موزوں ( 1857ء، دبیر، دفتر ماتم، 144:6 )
5. [ عروض ] شعر کے اجزا کو بحر کے مقرر اجزا کے ساتھ برابر کر کے جانچنا یعنی ہیئت کے متحرک و ساکن حرفوں کے مقابل کرنا، وزن کرنا۔
"موجیں وہ مصرع تھیں جن کی ہزاروں صورتوں سے تقطیع ہوتی تھی۔" ( 1866ء، جادۂ تسخیر، 203 )

6. سائز، ناپ (کتاب یا کسی اور مطبوعہ شے کے کاغذ وغیرہ کا)۔
"نظم 22x18 تقطیع کے 32 صفحوں پر آئی ہے۔" ( 1954ء، اکبرنامہ، 352 )
7. [ ٹیلی ویژن ] کیمرے کی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ باریک نقطوں کی شکل میں موسیک پر منتقل ہو جاتا ہے۔
الیکٹرون بندوق سے نکلنے والی شعاع موسیک کے اوپر بائیں کونے پر پڑتی ہے اور بائیں سے دائیں ہر نقطہ کو کتاب کی
سطور کی مانند بڑھتی ہوئی تصویر کے نیچے تک پہنچ کر ایک فریم کو مکمل کر دیتی ہے یہ عمل تقطیع کہلاتا ہے، انگریزی Scanning۔ (ٹیلی ویژن کی کہانی، 147)
8. [ تجوید ] حروف کے عیبوں میں سے ایک عیب، توڑ توڑ کر پڑھنا۔
"حروف کے عیوب و نقائص مثلاً ترمید، ترقیض، تقطیع، تطنین و تحطیط و تحزین و ترجیح۔" ( 1974ء، علم تجوید و قرآت، 25 )

بشکریہ اردو لغت بورڈ کراچی
مدیر : لیاقت علی عاصم
بہت خوب م م مغل صاحب تقطیع کی اتنی جامع تعریف میں نے آج پڑھی ۔

بڑی کوشش کی مگر ایک بات لکھنے سے رکا نہیں جا رہا ۔
القلم پر محترم ش زاد کا مراسلہ بھی کچھ دیر پہلے نظروں سے گذرا ۔ جس میں انہوں نے لکھا
میں جب سے فورم میں شامل ہوا ہوں دیکھ رہا ہوں کہ فورم میں بہت سے ایسے احباب موجود ہیں جو شعر کہنے کا شوق رکھتے ہیں اور اپنی سی کوشش بھی کر رہے ہیں۔۔۔۔۔مگر اکثر نوواردانِ سخن کو یا بحور کا مسئلہ درپیش ہے یا اوزان و عروض کا یا قافیہ ردیف کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا شعر کہنے کی پہلی شرط مشق ہے۔۔۔۔۔۔۔
میں عروض و اوزان کے علم سے نا بلد ہوں۔۔۔۔۔ مگر شعر کہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا یا برا
اس کا فیصلہ زمانہ(وقت) کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے لیے یہ کافی ہے کہ میرے اشعار میرے سچے جزبوں کے عکاس ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہمیشہ علمِ عروض کو شعر گوئی کے لیے فرض قرار دینے والوں سے سوال کرتا ہوں۔۔۔۔
کیا عروض و اوزان اور بحروں کا علم پہلے دریافت کیا گیا تھایا شعر گوئی کی ابتدء پہلے ہوئی تھی؟
آپ سب سمجھ سکتے ہیں کہ اس سوال کا جواب کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ بات عربی کے اس باب تفعیل سے متعلق ہے ۔۔
خاصیت ابواب کے عناوین سے اکثر صرفی ابواب صرف کی خاصیتوں پر بحث کرتے ہیں ۔ تقریبا تمام مباحث میں یہ لکھا ہے کہ تفعیل میں تکلف کا معنی پایا جاتا ہے ۔
تو کیا یہ تقطیع بتکلف ہوتی ہے یعنی جبرا ۔
چیر پھاڑ سے بھی اسی معنی کا تصور قوی ہوتا ہے ۔;-)
یعنی شعر کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :arrow:
 

محمد وارث

لائبریرین
بڑی کوشش کی مگر ایک بات لکھنے سے رکا نہیں جا رہا ۔
القلم پر محترم ش زاد کا مراسلہ بھی کچھ دیر پہلے نظروں سے گذرا ۔ جس میں انہوں نے لکھا

میں ہمیشہ علمِ عروض کو شعر گوئی کے لیے فرض قرار دینے والوں سے سوال کرتا ہوں۔۔۔۔
کیا عروض و اوزان اور بحروں کا علم پہلے دریافت کیا گیا تھایا شعر گوئی کی ابتدء پہلے ہوئی تھی؟
آپ سب سمجھ سکتے ہیں کہ اس سوال کا جواب کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اس دلیل کو قیاس مع الفارق کہیں گے!

دنیا میں کوئی علم ایسا نہیں ہے جس کے اصول و ضوابط پہلے مرتب کیے گئے ہوں اور وہ علم بعد میں وجود میں آیا ہو۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ جب کسی علم کے اصول و ضوابط مرتب ہو گئے تو پھر ان سے روگردانی کرنا غلط ٹھہرا۔



وہ بات عربی کے اس باب تفعیل سے متعلق ہے ۔۔
خاصیت ابواب کے عناوین سے اکثر صرفی ابواب صرف کی خاصیتوں پر بحث کرتے ہیں ۔ تقریبا تمام مباحث میں یہ لکھا ہے کہ تفعیل میں تکلف کا معنی پایا جاتا ہے ۔
تو کیا یہ تقطیع بتکلف ہوتی ہے یعنی جبرا ۔
چیر پھاڑ سے بھی اسی معنی کا تصور قوی ہوتا ہے ۔;-)
یعنی شعر کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :arrow:

درست فرمایا آپ نے، علم تقطیع جو علم عروض کا فقط ایک جز ہے، چیر پھاڑ ہی سے متعلق ہے۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ چیر پھاڑ کرنے والا ہاتھ کس کا ہے، اگر قصائی کا ہے تو مقصد جان لینا ہے اور اگر سرجن کا ہے تو مقصد جان بچانا ہے، حد تو یہ کہ اگر ایک سرجن موت کے بعد بھی چیر پھاڑ کرے تو وہ پھر بھی بے مقصد اور بے فائدہ نہیں ہے!
 

مغزل

محفلین
محترمی حسن نظامی صاحب ۔ اور قبلہ وارث صاحب
میں ممنون ہوں کہ میری جہالت کا بھرم رہ گیا اور کچھ نئی باتیں معلوم ہوئیں کہ اس ضمن بندے کا علم (مقدور بھر سہی) مگر ناقص ہے ۔
سوال اور جواب میں بحث کا ایک باب موجود ہے انشا اللہ میں بھی اس ضمن میں مزید معلومات حاصل کر کے آپ کے روبرو پیش کروں گا۔
تاوقتیکہ والسلام
 

حسن نظامی

لائبریرین
درست !
تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں ؟
ایک اچھے شاعر کے لیے واقف علم عروض ہونا ضروری ہے ؟
اور
علم عروض سے ناواقف شخص اچھا شاعر نہیں ہو سکتا ؟
یا اس کے برعکس ممکن ہے ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
درست !
تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں ؟
ایک اچھے شاعر کے لیے واقف علم عروض ہونا ضروری ہے ؟
اور
علم عروض سے ناواقف شخص اچھا شاعر نہیں ہو سکتا ؟
یا اس کے برعکس ممکن ہے ؟

بر عکس ممکن ہے لیکن صرف کتابی طور پر (تھیوریٹیکلی)، عملی طور پر (پریکٹیکلی) اگر صرف فارسی اور اردو کی بات کریں تو بابائے فارسی شاعری رودکی سے لیکر بابائے اردو شاعری ولی دکنی سے ہوتے ہوئے عہدِ حاضر کے زندہ مستند ترین شاعر امجد اسلام امجد تک کوئی بھی "اچھا" شاعر ایسا نہیں گزرا جو علم عروض سے واقف نہ ہو۔

اور وجہ اسکی یہ ہے کہ علم عروض فقط مشکل نظر آتا ہے لیکن ہے نہیں، اسکی ایک کلید ہے یا فارمولا ہے ریاضی کی طرح، جو سمجھ آ جائے تو یہ علم پانی ہے اور اچھا شاعر ہمیشہ اس سے غلطیوں سے بچتا ہے اور اسکے اصول و ضوابط کو خوبصورت انداز میں استعمال کرکے کلام کو بہتر بناتا ہے، اسکے برعکس ایک عروض سے ناواقف "اچھا" شاعر ساری زندگی طفیلیے کی زندگی گزارتا ہے اور اگر ایسا نہ کرے تو اپنا مذاق اڑواتا ہے، مولانا آزاد نے آبِ حیات میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے اس کے متعلق!
 

مغزل

محفلین
درست !
تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں ؟
ایک اچھے شاعر کے لیے واقف علم عروض ہونا ضروری ہے ؟
اور
علم عروض سے ناواقف شخص اچھا شاعر نہیں ہو سکتا ؟
یا اس کے برعکس ممکن ہے ؟

سچ کہا جنا ب نے ۔۔ مگر وارث صاحب نے مفصل مراسلے میں اس کا جواب دیا ہے ۔۔
میں کلی طور پر متفق ہوں اس بات سے ۔۔۔۔۔
 
Top