محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
الف عین ، ظہیراحمدظہیر
اُس شوخ کے چہرے پر، ہر جلوہ بلا کا تھا
رخسار پہ رہ رہ کر، شعلہ سا مچلتا تھا
مہتاب کی ضو اُس میں، خورشید کی حدت تھی
میں اور بتاؤں کیا، اُس رخ پہ عیاں کیا تھا
اُس شعلہ نظر نے تھی، جس جس پہ نگہ ڈالی
نظروں کی حرارت سے ہر جسم پگھلتا تھا
وہ میر کے مصرعوں کی تمثیل تھی گویا اک
ہر لفظ مناسب تھا، لہجہ بھی شگفتہ تھا
جو لفظ اُس افسوں گر کے ہونٹ سے نکلا وہ
کیا کیا نہ معانی کے، تہ کھولتا جاتا تھا
خالی نہ گیا کوئی، خالی نہ گیا کوئی
اُس آنکھ کی ترکش سے، جو تیر بھی نکلا تھا
یوں اس کے لبِ لعلیں رونق تھے گلستاں کی
ہر پھول پہ اُن کا ہی، بس رنگ جھلکتا تھا
ہر شخص کو ہوتا تھا، راتوں میں گماں دن کا
جب رات گئے چھت پر وہ شخص ٹہلتا تھا
پھر ایک وہ دن آیا، کہرام تھا گلیوں میں
سامانِ سفر جس دن، اُس شخص نے باندھا تھا
خورشید ہوا مدھم، مہتاب ہوا بے نور
برپا تھی قیامت اک، اُس شخص کا جانا تھا
اب اپنا نصیبہ ہے، قسمت کی سیاہی ہے
اک شخص کے ہونے سے، کیا کیا نہ اجالا تھا
اُس شوخ کے چہرے پر، ہر جلوہ بلا کا تھا
رخسار پہ رہ رہ کر، شعلہ سا مچلتا تھا
مہتاب کی ضو اُس میں، خورشید کی حدت تھی
میں اور بتاؤں کیا، اُس رخ پہ عیاں کیا تھا
اُس شعلہ نظر نے تھی، جس جس پہ نگہ ڈالی
نظروں کی حرارت سے ہر جسم پگھلتا تھا
وہ میر کے مصرعوں کی تمثیل تھی گویا اک
ہر لفظ مناسب تھا، لہجہ بھی شگفتہ تھا
جو لفظ اُس افسوں گر کے ہونٹ سے نکلا وہ
کیا کیا نہ معانی کے، تہ کھولتا جاتا تھا
خالی نہ گیا کوئی، خالی نہ گیا کوئی
اُس آنکھ کی ترکش سے، جو تیر بھی نکلا تھا
یوں اس کے لبِ لعلیں رونق تھے گلستاں کی
ہر پھول پہ اُن کا ہی، بس رنگ جھلکتا تھا
ہر شخص کو ہوتا تھا، راتوں میں گماں دن کا
جب رات گئے چھت پر وہ شخص ٹہلتا تھا
پھر ایک وہ دن آیا، کہرام تھا گلیوں میں
سامانِ سفر جس دن، اُس شخص نے باندھا تھا
خورشید ہوا مدھم، مہتاب ہوا بے نور
برپا تھی قیامت اک، اُس شخص کا جانا تھا
اب اپنا نصیبہ ہے، قسمت کی سیاہی ہے
اک شخص کے ہونے سے، کیا کیا نہ اجالا تھا
آخری تدوین: