اس شہر میں اب شورِ سگاں کیوں نہیں اٹھتا
آباد مکاں ہیں تو دھواں کیوں نہیں اٹھتا
اٹھتے ہیں چمکنے کے لئے ننھّے سے جگنو
سورج! کوئی آشوبِ جہاں کیوں نہیں اٹھتا
زندہ ہے ابھی شہر میں فن تیشہ گری کا
بازو ہیں تو پھر سنگِ گراں کیوں نہیں اٹھتا
کیا رزق فقیروں کا فرشتوں میں بٹے گا
منصف کوئی اس خاک سے یاں کیوں نہیں اٹھتا
تینتیس بہاروں کا ثمر چکھ کے بھی مجھ سے
دو چار قدم رختِ جہاں کیوں نہیں اٹھتا
شہرت کی کمیں گاہوں میں قد ناپنے والو!
تم سے کبھی غیرت کا نشاں کیوں نہیں اٹھتا
رستے میں ابھی ریت کی دیوار کھڑی ہے
راوی ترا سیلابِ جواں کیوں نہیں اٹھتا
سبط علی صبا