فرخ منظور
لائبریرین
اس ضبطِ محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا
ہر آہ میں صورت شیون کی، ہر اشک میں رنگ افسانے کا
وہ سحر تھا چشمِ ساقی میں یا مے خواروں کا جذبِ دروں
ہر چند بھرے ہیں جام و سبو، وہ رنگ نہیں مے خانے کا
کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں، یہ جانتے ہیں سب اہلِ نظر
تھا شمع کا آغاز وہی، انجام ہے جو پروانے کا
ہوں اہلِ دیر کہ اہلِ حرم، سب پوجتے ہیں پوشیدہ صنم
دیکھو تو در و دیوارِ حرم، نقشہ ہے وہی بُت خانے کا
اب کس سے تبسّمِ راز کہیے، اب مہر و وفا کا دور نہیں
اب دنیا کے وہ طور نہیں، اب اور ہے رنگ زمانے کا
(صوفی تبسّم)
ہر آہ میں صورت شیون کی، ہر اشک میں رنگ افسانے کا
وہ سحر تھا چشمِ ساقی میں یا مے خواروں کا جذبِ دروں
ہر چند بھرے ہیں جام و سبو، وہ رنگ نہیں مے خانے کا
کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں، یہ جانتے ہیں سب اہلِ نظر
تھا شمع کا آغاز وہی، انجام ہے جو پروانے کا
ہوں اہلِ دیر کہ اہلِ حرم، سب پوجتے ہیں پوشیدہ صنم
دیکھو تو در و دیوارِ حرم، نقشہ ہے وہی بُت خانے کا
اب کس سے تبسّمِ راز کہیے، اب مہر و وفا کا دور نہیں
اب دنیا کے وہ طور نہیں، اب اور ہے رنگ زمانے کا
(صوفی تبسّم)