اس طرف بھی اک نظر مہر درخشانِ جمال (اختر رضا بریلوی)

اس طرف بھی اک نظر مہر درخشانِ جمال
ہم بھی رکھتے ہیں بہت مدت سے ارمانِ جمال

تم نے اچھوں پہ کیا ہے خوب فیضانِ جمال
ہم بدوں پر بھی نگاہِ لطف سلطانِ جمال

اک اشارے سے کیا شق ماہِ تاباں آپ نے
مرحبا صد مرحبا صَلِّ علیٰ شانِ جمال

تیری جاں بخشی کے صدقے اے مسیحائے زماں
سنگریزوں نے پڑھا کلمہ ترا جانِ جمال

کب سے بیٹھے ہیں لگائے لو در جاناں پہ ہم
ہائے کب تک دید کو ترسیں فدایانِ جمال

فرش آنکھوں کا بچھائو رہ گزر میں عاشقو!
ان کے نقش پا سے ہوگے مظہر شانِ جمال

مرکے مٹی میں ملے وہ نجدیو! بالکل غلط
حسب سابق اب بھی ہیں مرقدمیں سلطانِ جمال

گرمیٔ محشر گنہگارو! ہے بس کچھ دیر کی
ابر بن کر چھائیں گے گیسوئے سلطانِ جمال

کرکے دعویٰ ہمسری کا کیسے منہ کے بل گرا
مٹ گیا وہ جس نے کی توہین سلطانِ جمال

حاسدانِ شاہِ دیں کو دیجئے اخترؔ جواب
در حقیقت مصطفیٰ پیارے ہیں سلطانِ جمال

٭…٭…٭
 
Top