عدیل احمد
محفلین
دیکھو سجی ہے ظلم کے اب بعد بھی ہستی مری
سن لو بہت ہی قیمتی ہے جاں نہیں سستی مری
برباد کرنے کو چلے تھے یار مجھ کو ہی مرے
وہ دیکھ کر گھبرا گئے پہلے سے ہی سختی مری
اک کھیل کھیلا تھا رقیبوں نے مگر ناکام رے
ہو ہی نہیں پائی کبھی کم عشق کی مستی مری
جو آ رہی تھی رات رونے کی مرے گھر سے صدا
آسیب اس کو سمجھ بیٹھی ہے سنو بستی مری
کچھ نہ بگاڑا مشکلوں کے اس سمندر نے مرا
پر ڈھوب ساحل پہ گئی ہے دیکھیے کشتی مری
یہ ظلم اتنے ہو گئے کے ہوش ہم کو نہ رہی
کے دیکھ گویا کہ رہا ہوں لاش کو سجتی مری
کیوں جل رہے ہیں لوگ احمد عشق ہے جو آپ سے
کہ کر رہے ہیں یہ خدا سے جو طلب پستی مری
سن لو بہت ہی قیمتی ہے جاں نہیں سستی مری
برباد کرنے کو چلے تھے یار مجھ کو ہی مرے
وہ دیکھ کر گھبرا گئے پہلے سے ہی سختی مری
اک کھیل کھیلا تھا رقیبوں نے مگر ناکام رے
ہو ہی نہیں پائی کبھی کم عشق کی مستی مری
جو آ رہی تھی رات رونے کی مرے گھر سے صدا
آسیب اس کو سمجھ بیٹھی ہے سنو بستی مری
کچھ نہ بگاڑا مشکلوں کے اس سمندر نے مرا
پر ڈھوب ساحل پہ گئی ہے دیکھیے کشتی مری
یہ ظلم اتنے ہو گئے کے ہوش ہم کو نہ رہی
کے دیکھ گویا کہ رہا ہوں لاش کو سجتی مری
کیوں جل رہے ہیں لوگ احمد عشق ہے جو آپ سے
کہ کر رہے ہیں یہ خدا سے جو طلب پستی مری