اس غزل کی اصلاح فرمائیں

محسن اعوان

محفلین
اب عاشقی میں کوئی طہارت نہیں رہی
پہلے کی طرح اب تو محبت نہیں رہی

ہے سچ زندگی کی ضرورت تو ہے مجھے
بس آبِ زندگی کی ضرورت نہیں رہی

تنہا ہی کٹ گئی یہ خفا زندگی مری
اِس راہ میں کسی کی رفاقت نہیں رہی

اپنے غموں کا یارا کیا تذکرہ کروں
مجھ کو تو بولنے کی اجازت نہیں رہی

جانے ترے جمال کو کیسے لگی نظر
گالوں کی اب وہ پہلی نزاکت نہیں رہی

فرقت کے زلزلوں سے یہ دل ، دل نہیں رہا
ملبہ پڑا ہے ، اِس کی عمارت نہیں رہی

کچھ ایسے میں نے اپنی گزاری ہے زندگی
جیسے کبھی مجھے تو سہولت نہیں رہی

وہ مر گئے جو عشق میں مرتے تھے اور اب
مر مٹنے کی کسی میں جسارت نہیں رہی

اب خواب میں بھی آتا ہے بس خواب بن کے وہ
خوابوں میں پہلے جیسی حقیقت نہیں رہی
 
محسن اعوان بھائی! تفصیلاً تو اساتذہ ہی دیکھ کر مشورہ دیں گے۔ ان کی آمد سے پہلے ہم کچھ نکات پر روشنی ڈال لیتے ہیں بطورِ صلاح!

ہے سچ زندگی کی ضرورت تو ہے مجھے
بس آبِ زندگی کی ضرورت نہیں رہی

پہلا مصرع یوں کردیجیے

یہ سچ ہے زندگی کی ضرورت تو ہے مجھے

یا " سچ ہے کہ۔۔۔۔"
اپنے غموں کا یارا کیا تذکرہ کروں
مجھ کو تو بولنے کی اجازت نہیں رہی

اپنے غموں کا دوست میں کیا تذکرہ کروں
آپ نے لفظ" یارا" استعمال کیا ہے جو اردو میں مستعمل نہیں۔ پھر آپ نے "کیا" کو کیا بروزنِ فعو باندھا ہے جو غلط ہے۔


کچھ ایسے میں نے اپنی گزاری ہے زندگی
جیسے کبھی مجھے تو سہولت نہیں رہی

سہولت نہیں رہی محاورہ نہیں۔ سہولت میسر نہیں رہی یا سہولت نہیں ملی استعمال ہوتا ہے۔
وہ مر گئے جو عشق میں مرتے تھے اور اب
مر مٹنے کی کسی میں جسارت نہیں رہی

"مر مٹنے کی" کو " مرنے کی اب" کردیجیے۔
 
آخری تدوین:
اب عاشقی میں کوئی طہارت نہیں رہی
پہلے کی طرح اب تو محبت نہیں رہی
خیال اچھا ہے دوست، مگر طہارت قافیہ ایسا لگتا ہے جیسے مسائل غسل پر بات ہو رہی ہو :)

ہے سچ زندگی کی ضرورت تو ہے مجھے
بس آبِ زندگی کی ضرورت نہیں رہی
بھائی خلیل اصلاح کر چکے ہیں. ویسے آبِ زندگی اتنا اچھا نہیں لگتا، کسی طرح آب حیات لا سکو تو زیادہ بہتر ہے.
ہاں اس بات کی وضاحت آپ کے ذمے ادھار رہی کہ جب زندگی کی ضرورت باقی ہے تو آب حیات کیونکر redundant ہو گیا؟؟؟ :)

اپنے غموں کا یارا کیا تذکرہ کروں
مجھ کو تو بولنے کی اجازت نہیں رہی
بھائی خلیل اصلاح فرما چکے ہیں.

تنہا ہی کٹ گئی یہ خفا زندگی مری
اِس راہ میں کسی کی رفاقت نہیں رہی
خفا زندگی؟؟؟ کس سے خفا؟؟؟ کون سی راہ میں؟؟؟
اس شعر پر دوبارہ محنت کریں.

جانے ترے جمال کو کیسے لگی نظر
گالوں کی اب وہ پہلی نزاکت نہیں رہی
ہمممم ... دونوں مصرعوں کی بندش مزید چست ہوسکتی ہے. پہلے مصرعے میں کیسے کے بجائے کس کی زیادہ مناسب رہے گا. دوسرے مصرعے میں پہلی کے بعد سی ہو تو بات مکمل ہوتی ہے. ایک تجویز
جانے ترے جمال کو کس کی نظر لگی
پہلے سی اب وہ رخ کی نزاکت نہیں رہی

فرقت کے زلزلوں سے یہ دل ، دل نہیں رہا
ملبہ پڑا ہے ، اِس کی عمارت نہیں رہی
دل کی عمارت مجھے کچھ اتنا اچھا نہیں لگا. دل میں ارمانوں، امیدوں کے محل، یاد کے مندر وغیرہ تو مانوس محاورے ہیں مگر خود دل کو عمارت کہنا؟ .... پتہ نہیں، ہو سکتا ہے میرے مطالعے کا ہی نقص ہو. دیکھو استادِ محترم کی نظر پڑے تو وہ کیا کہتے ہیں.
محمد خلیل الرحمٰن بھائی آپ کی کیا رائے ہے؟

کچھ ایسے میں نے اپنی گزاری ہے زندگی
جیسے کبھی مجھے تو سہولت نہیں رہی
خلیل بھائی پہلے ہی محاورے کی غلطی بتا چکے ہیں. شعر بھی کوئی خاص نہیں. کسی اور غزل میں یہ خیال استعمال کر سکتے ہو درست محاورے کے ساتھ.

وہ مر گئے جو عشق میں مرتے تھے اور اب
مر مٹنے کی کسی میں جسارت نہیں رہی
مجھے اس شعر میں بھی محاورے کی غلطی محسوس ہو رہی ہے کیونکہ جسارت ہوتی نہیں، کی جاتی ہے... سو جسارت نہیں رہی کہنا مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگتا. ہوسکتا ہے میرا وہم ہو کیونکہ بھائی خلیل نے اس جانب کوئی اشارہ نہیں کیا، واللہ اعلم.
 

محسن اعوان

محفلین
آپ سب اساتذہ کرام کا بہت بہت شکریہ کہ اس طرح گہرائی میں جا کر آپ اصلاح کرتے ہیں ، میں اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کروں گا
 
Top