محسن اعوان
محفلین
اب عاشقی میں کوئی طہارت نہیں رہی
پہلے کی طرح اب تو محبت نہیں رہی
ہے سچ زندگی کی ضرورت تو ہے مجھے
بس آبِ زندگی کی ضرورت نہیں رہی
تنہا ہی کٹ گئی یہ خفا زندگی مری
اِس راہ میں کسی کی رفاقت نہیں رہی
اپنے غموں کا یارا کیا تذکرہ کروں
مجھ کو تو بولنے کی اجازت نہیں رہی
جانے ترے جمال کو کیسے لگی نظر
گالوں کی اب وہ پہلی نزاکت نہیں رہی
فرقت کے زلزلوں سے یہ دل ، دل نہیں رہا
ملبہ پڑا ہے ، اِس کی عمارت نہیں رہی
کچھ ایسے میں نے اپنی گزاری ہے زندگی
جیسے کبھی مجھے تو سہولت نہیں رہی
وہ مر گئے جو عشق میں مرتے تھے اور اب
مر مٹنے کی کسی میں جسارت نہیں رہی
اب خواب میں بھی آتا ہے بس خواب بن کے وہ
خوابوں میں پہلے جیسی حقیقت نہیں رہی
پہلے کی طرح اب تو محبت نہیں رہی
ہے سچ زندگی کی ضرورت تو ہے مجھے
بس آبِ زندگی کی ضرورت نہیں رہی
تنہا ہی کٹ گئی یہ خفا زندگی مری
اِس راہ میں کسی کی رفاقت نہیں رہی
اپنے غموں کا یارا کیا تذکرہ کروں
مجھ کو تو بولنے کی اجازت نہیں رہی
جانے ترے جمال کو کیسے لگی نظر
گالوں کی اب وہ پہلی نزاکت نہیں رہی
فرقت کے زلزلوں سے یہ دل ، دل نہیں رہا
ملبہ پڑا ہے ، اِس کی عمارت نہیں رہی
کچھ ایسے میں نے اپنی گزاری ہے زندگی
جیسے کبھی مجھے تو سہولت نہیں رہی
وہ مر گئے جو عشق میں مرتے تھے اور اب
مر مٹنے کی کسی میں جسارت نہیں رہی
اب خواب میں بھی آتا ہے بس خواب بن کے وہ
خوابوں میں پہلے جیسی حقیقت نہیں رہی