اس غزل کی اصلاح فرمائیں

محسن اعوان

محفلین
آنچل میں مُسکرانا کہیں قتل کر نہ دے
انداز یہ سہانا کہیں قتل کر نہ دے

اکثر ترے خیال میں سب بُھول جاتا ہوں
یوں اتنا یاد آنا کہیں قتل کر نہ دے

کتنی بے اعتنائی سے تم آتے جاتے ہو
بس ایسے آنا جانا کہیں قتل کر نہ دے

اُس قُرب سے ترے میں نکل آیا ہوں مگر
اب ہجر کا ٹھکانہ کہیں قتل کر نہ دے

دنیا کی دوڑ دھوپ میں سب ہو گئے بے حس
محسؔن ترا زمانہ کہیں قتل کر نہ دے
 
محسن میاں، آپ کے کلام میں محاوروں کی غلطیاں بکثرت نظر آ رہی ہیں ۔۔۔ مثلا آنچل میں مسکرانا کیا ہوتا ہے؟ آنچل میں منہ چھپایا جاسکتا ہے، آنچل کی اوٹ میں مسکرایا جا سکتا ہے مگر خود آنچل میں مسکرانا ایک بے معنی بات ہے۔ اسی طرح آپ نے جو ردیف منتخب کی ہے وہ بھی اکثر اشعار میں مجہول ہے کہ یہ واضح نہیں ہو رہا کہ کس کو قتل کردے؟ اس طرح کی اغلاط سے بچنے کے لیے واحد طریقہ معیاری ادب کا مطالعہ ہے۔ آپ بھی اپنا مطالعہ بڑھائیں اور خاص طور پر اساتذہ کے کلام کو بغور پڑھیں تاکہ اندازہ ہو کہ الفاظ کی نشست و ترتیب کس طرح رکھی جاتی ہے، محاوروں کی رعایت کیسے رکھی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس کے علاوہ آپ نے جا بجا حروف کا اسقاط کیا ہے، جو کئی مصرعوں کی روانی کو بری طرح مجروح کر رہا ہے۔ مثلا
اکثر ترے خیال میں سب بُھول جاتا ہوں
یوں اتنا یاد آنا کہیں قتل کر نہ دے
پہلے مصرعے میں جاتا کی الف ۔۔۔
کتنی بے اعتنائی سے تم آتے جاتے ہو
بس ایسے آنا جانا کہیں قتل کر نہ دے
بے اعتنائی کو بہ اعتنائی پڑھنا پڑ رہا ہے۔
دنیا کی دوڑ دھوپ میں سب ہو گئے بے حس
محسؔن ترا زمانہ کہیں قتل کر نہ دے
بے حس کو بحس باندھا گیا ہے۔

یاد رکھیں، بحر و اوزان اچھی شاعری کا محض ایک پہلو ہیں، بلکہ یوں کہیں کہ پہلی سیڑھی ہیں ۔۔۔ مگر معاملہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اصل کہانی تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ یعنی بحر و اوزان کی رعایت رکھ کر انسان ’’موزوں گو‘‘ تو بن جاتا ہے، مگر شاعر کہلائے جانے کے لیے زبان و بیان کے محاسن اور مضمون و معنی آفرینی کی رعایت رکھنا لازم ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
 

محسن اعوان

محفلین
سر آپ نے بہت ہی اچھی نصیحتیں کی ہیں مری غلطیوں پر مجھے بھی یہی بات پریشان کر رہی تھی کہ میں محاوروں کی غلطیاں بہت کرتا ہوں
 
Top