اس غزل کی اصلاح فرمائیں

کبھی اُس کو یادوں میں لانے کی چاہت
کبھی اُس کو یکسر بُھلانے کی چاہت

کبھی ہجر کے لمحوں میں خوش ہوں رہتا
کبھی مجھ کو موسم سہانے کی چاہت

میں نے جو کیا ہے محبت کا دعویٰ
ہاں مجھ کو ہے گردن کٹانے کی چاہت

میں نے اس طرح زخم کھایا ہے یارو
کہ برسوں رہی زخم کھانے کی چاہت

عدم میں کھڑا ہوں میں نیچے لیے سر
لے ڈوبی ہے فائقؔ زمانے کی چاہت
 
کبھی اُس کو یادوں میں لانے کی چاہت
کبھی اُس کو یکسر بُھلانے کی چاہت

کبھی ہجر کے لمحوں میں خوش ہوں رہتا
کبھی مجھ کو موسم سہانے کی چاہت

میں نے جو کیا ہے محبت کا دعویٰ
ہاں مجھ کو ہے گردن کٹانے کی چاہت

میں نے اس طرح زخم کھایا ہے یارو
کہ برسوں رہی زخم کھانے کی چاہت

عدم میں کھڑا ہوں میں نیچے لیے سر
لے ڈوبی ہے فائقؔ زمانے کی چاہت
محترم الف عین صاحب آپ کی اصلاح کا منتظر ہوں,,,
 

الف عین

لائبریرین
دوسری جگہ بھی تلاش کی ٹیگ والے ٹیگ لگائے گئے ہیں، اور یہاں بھی۔ توجہ دلانے کے لیے @کے بعد رکن کا نام لکھیں، جیسے محسن اعوان فائقؔ
محمد یعقوب آسی ہمارے دوست اب آنجہانی ہو چکے ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے

کبھی اُس کو یادوں میں لانے کی چاہت
کبھی اُس کو یکسر بُھلانے کی چاہت
... اسے ایطا کا سقم کہتے ہیں کہ اس مطلع میں جو ردیف مقرر ہو رہی ہے، وہ 'لانے کی چاہت' ہے، 'انے کی چاہت' نہیں جس کا بقیہ اشعار میں نظم ہے۔ دوسرے مصرعے میں قافیہ بھول جانے' کہا جا سکتا ہے

کبھی ہجر کے لمحوں میں خوش ہوں رہتا
کبھی مجھ کو موسم سہانے کی چاہت
.... لمحوں محض لمح تقطیع ہو رہا ہے، ' ہوں رہتا' بھی رواں اظہار نہیں، اسی طرح 'موسم سہانے' بھی اچھا نہیں

میں نے جو کیا ہے محبت کا دعویٰ
ہاں مجھ کو ہے گردن کٹانے کی چاہت
.. پہلے مصرع میں 'میں نے' صرف 'منے' اور دوسرے میں 'ہاں' صرف 'ہ'
کیا ہے جو میں نے محبت...
کیا جا سکتا ہے

میں نے اس طرح زخم کھایا ہے یارو
کہ برسوں رہی زخم کھانے کی چاہت
.. وہی 'منے' کی غلطی یہاں بھی ہے۔ یارو بھی بھرتی کا ہے، اس کے بغیر کہنے کی کوشش کریں اور جس میں 'کہ برسوں' کی بھی وضاحت ہو سکے۔

عدم میں کھڑا ہوں میں نیچے لیے سر
لے ڈوبی ہے فائقؔ زمانے کی چاہت
... واضح نہیں ۔ 'لے ڈوبی' کی ے کا اسقاط درست نہیں
 
Top