سیما علی
لائبریرین
اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو یکتائی کا
دوسرا نام ہے وہ بھی مری تنہائی کا
کیا چھپے راز الٰہی دلِ شیدائی کا
عرصۂ حشر تو بازار ہے رسوائی کا
جان لے جائے گا آنا شبِ تنہائی کا
کون اب روکنے والا ہے مری آئی کا
خوگر رنج وبلا حشر کے دن کیا خوش ہوں
کہ وہ مال آج ہوا ہے شبِ تنہائی کا
زندہ ہے نام شہادت کا اسی کے دم سے
تیرے کشتہ نے کیا کام مسیحائی کا
ہر گلی کوچے میں پامال اسے ہو جانا
دل ہے یا نقشِ قدم ہے کسی ہرجائی کا
اس ادب سے تہ شمشیر تڑپنا اے دل
کہ گماں تیری تپش پر ہو شکیبائی کا
فتنے بھی قاعدے سے اٹھتے ہیں جب اٹھتے ہیں
کیا سلقیہ ہے تمھیں انجمن آرائی کا
وہ یہ کہتے ہیں مرا صبر پڑے گا تجھ پر
اب مجھے رنج نہیں اپنی شکیبائی کا
کیا غرض ہے مری تقدیر کو مجھ سے پوچھے
آبرو کا ہے طلب گار کہ رسوائی کا
واں شب وعدہ ملی پاوں میں مہندی اس نے
یاں کلیجہ کوئی ملتا ہے تمنائی کا
رات بھر شمع رہی ہجر میں وہ بھی خاموش
ملتجی تھا تری تصویر سے گویائی کا
سر مرا کاٹ کے دہلیز پہ اپنی رکھ دو
شوق باقی ہے ابھی ناصیہ فرسائی کا
یوں نہ مقبول ہوا ہوگا کسی کا سجدہ
بت کو ارمان رہا مری جبیں سائی کا
ہوگیا پرتوِ رخسار سے کچھ اور ہی رنگ
میں نے منھ چوم لیا اس کے تماشائی کا
تھم گئے جم گئے آنکھوں میں لہو کے قطرے
خون ظاہر ہے مرے صبر وشکیبائی کا
بن گیا داغ جگر مہر قیامت اے داغ
پر ابھی رنگ وہی ہے شب تنہائی کا
دوسرا نام ہے وہ بھی مری تنہائی کا
کیا چھپے راز الٰہی دلِ شیدائی کا
عرصۂ حشر تو بازار ہے رسوائی کا
جان لے جائے گا آنا شبِ تنہائی کا
کون اب روکنے والا ہے مری آئی کا
خوگر رنج وبلا حشر کے دن کیا خوش ہوں
کہ وہ مال آج ہوا ہے شبِ تنہائی کا
زندہ ہے نام شہادت کا اسی کے دم سے
تیرے کشتہ نے کیا کام مسیحائی کا
ہر گلی کوچے میں پامال اسے ہو جانا
دل ہے یا نقشِ قدم ہے کسی ہرجائی کا
اس ادب سے تہ شمشیر تڑپنا اے دل
کہ گماں تیری تپش پر ہو شکیبائی کا
فتنے بھی قاعدے سے اٹھتے ہیں جب اٹھتے ہیں
کیا سلقیہ ہے تمھیں انجمن آرائی کا
وہ یہ کہتے ہیں مرا صبر پڑے گا تجھ پر
اب مجھے رنج نہیں اپنی شکیبائی کا
کیا غرض ہے مری تقدیر کو مجھ سے پوچھے
آبرو کا ہے طلب گار کہ رسوائی کا
واں شب وعدہ ملی پاوں میں مہندی اس نے
یاں کلیجہ کوئی ملتا ہے تمنائی کا
رات بھر شمع رہی ہجر میں وہ بھی خاموش
ملتجی تھا تری تصویر سے گویائی کا
سر مرا کاٹ کے دہلیز پہ اپنی رکھ دو
شوق باقی ہے ابھی ناصیہ فرسائی کا
یوں نہ مقبول ہوا ہوگا کسی کا سجدہ
بت کو ارمان رہا مری جبیں سائی کا
ہوگیا پرتوِ رخسار سے کچھ اور ہی رنگ
میں نے منھ چوم لیا اس کے تماشائی کا
تھم گئے جم گئے آنکھوں میں لہو کے قطرے
خون ظاہر ہے مرے صبر وشکیبائی کا
بن گیا داغ جگر مہر قیامت اے داغ
پر ابھی رنگ وہی ہے شب تنہائی کا