ابن جمال
محفلین
اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پائو تو رکھو ہو کہیں پائوں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانہ گل قیدی زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن میرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمہیں بل کھائے چلو ہو
روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو
رکھنا ہے کہیں پائو تو رکھو ہو کہیں پائوں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
دیوانہ گل قیدی زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہوا کھائے چلو ہو
مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو
ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو
زلفوں کی تو فطرت ہی ہے لیکن میرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمہیں بل کھائے چلو ہو
کلیم عاجز