عظیم اللہ قریشی
محفلین
میں اطمینان سے بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا کہ اچانک ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا اور میرے دوست کے والد صاحب کی شکل نظر آئی۔میں نے جلدی سے سگریٹ ایش ٹرے میں بجھا دیا اورسلام لیتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ وہ مسکرا دیے اور اپنے نحیف بدن کو لاٹھی کے زور پر چلاتے ہوئے میرے قریب آگئے۔ میں نے احتراماً پاس پڑی صوفے کی گدی ایک طرف کر دی۔ وہ میرے سر پر پیار بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے بیٹھ گئے۔
میں اپنے دوست سے ملنے اُس کے گھر آیا ہوا تھا‘ دوست مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر بیٹے کو سکول سے لینے گیا تھا ۔میں عموماً کسی کے گھر سگریٹ پینے سے گریز کرتا ہوں لیکن میرا دوست بھی چونکہ سموکر ہے اس لیے میں نے بھی اطمینان سے سگریٹ سلگا لیا تھا۔ میرے دوست کے والد صاحب بھی سگریٹ نوشی فرماتے ہیں ‘ ان کی عمر 70 سال ہے ‘ایک بڑے سرکاری ادارے کے سربراہ رہے ہیں اور اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔جب وہ آن جاب تھے تو اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے‘ سائلین کی ایک بڑی تعداد روز ان کے دفتر کے باہر جمع ہوتی تھی لیکن یہ کسی سے فری نہیں ہوتے تھے۔اللہ کا دیا سب کچھ تھا‘سرکاری گھر تھا‘ سرکاری گاڑی تھی اور چار ملازمین بھی ملے ہوئے تھے۔ یہ اپنی نوکری کے دور میں نہایت اصول پرست اور وقت کے پابند انسان تھے۔دفتر جانے سے لے کر رات کو سونے تک اِن کے اوقات مقرر تھے‘ چونکہ حد درجہ سنجیدہ انسان تھے اس لیے کبھی دنیاوی مشغلوں میں نہیں پڑے‘ نہ خود کسی کے دوست بنے ‘ نہ کسی کو بننے دیا۔ اپنی اولاد کی تربیت بھی انہوں نے نہایت نپے تلے انداز میں کی۔اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی‘ ایٹی کیٹس سکھائے اورکامیابی کی راہوں پر گامزن کیا۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے‘ سب سے بڑا ڈاکٹر ہے‘ اُس سے چھوٹا جو میرا دوست ہے وہ انجینئر ہے ‘بیٹی سب سے چھوٹی ہے‘ شادی شدہ ہے اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں زونل مینجر ہے۔اولادکی پرورش کے دوران اِنہوں نے خیال رکھا کہ اِن کی اولاد غیر نصابی کاموں پر اپنا وقت ضائع نہ کرے ‘ انہوں نے تینوں بچوں کے کمرے چھ سال کی عمر سے ہی الگ کر دیے تھے‘ خود چونکہ انتہائی پروقار اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے اس لیے اپنے اور بچوں کے درمیان بھی فاصلے کے قائل تھے۔انہوں نے اپنے بچوں کو بچپن میں کوئی پریوں والی کہانی نہیں سنائی‘کبھی اُنہیں ٹیڑھا میڑھا منہ بنا کر نہیں ہنسایا‘ سیر و تفریح کے لیے بھی لے کر جاتے تھے تو پوری کوشش کرتے تھے کہ بچے بلاوجہ انجوائے نہ کرنے پائیں۔اِنہیں زیادہ ہنسنے ہنسانے والے اور باتونی قسم کے لوگوں سے سخت نفرت تھی۔گھر میں کوئی عزیز رشتہ داربھی آجاتا توگھنٹوں اس کے سامنے خاموش بیٹھے رہتے‘بالآخر وہ خود ہی گھبرا کر اجازت طلب کر لیتا۔
اِن کے گھر میں کھانے پینے تک ایک خاص رکھ رکھاؤ تھا‘ چھری کانٹے کے بغیر کھانے والے کو سخت ناپسند کرتے تھے‘ اونچی آواز میں ٹی وی لگانا منع تھا‘ یہ انہی کا کمال ہے کہ انہوں نے بچوں کو کبھی سکول سے چھٹی نہیں کرنے دی‘ کئی دفعہ تو بچے بخار کی حالت میں بھی سکول گئے۔اپنی طبیعت کے جلال اور مردم بیزاری کے باعث اِن کے ہمسائے بھی اِن سے ملنے سے کتراتے تھے۔
چھ سال قبل یہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔بیوی اللہ کو پیاری ہوگئی ہے‘تینوں بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور اب وہ خود بال بچوں والے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اب یہ ہر عزیز رشتے دار کے گھر آنے جانے لگے ہیں‘ لیکن اب یہ جہاں بھی جاتے ہیں اِن کے احترام میں مکمل خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔یہ اپنے بیٹوں سے باتیں کرنے کے لیے ترستے ہیں لیکن بیٹوں کے سامنے اِن کی ساری زندگی ہے لہذا وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ابو بلاوجہ کی ڈسٹربنس پسند نہیں کرتے۔حالانکہ ابو ڈسٹربنس کے لیے ترس گئے ہیں‘ اب اِن کا دل چاہتا ہے کہ کوئی اِن کے پاس بیٹھ کر کچھ بھی بولتا رہے لیکن اِن سے محوِ گفتگو ضرور ہو‘ رشتے داروں کو فون کرکرکے بلاتے ہیں لیکن کوئی بھی اِن کے قریب پھٹکنے کو تیار نہیں۔جن بچوں کو انہوں نے’’باوقار زندگی‘‘ گزارنے کی تربیت دی تھی وہ اب بھی ان کی عزت کرتے ہیں‘ ہفتے میں دو دفعہ اپنے بچوں کو دادا سے ملانے ان کے کمرے میں لاتے ہیں‘ دادا کے لیے وٹامنز سے بھرپور پھل لے کر آتے ہیں‘دادا کی دیکھ بھال کے لیے ہمہ وقت ایک نرس رکھی ہوئی ہے ‘لیکن یہ سب کام گھمبیر خاموشی کے ساتھ ہوتے ہیں‘اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتے‘ انہیں یہی کچھ سکھایا گیا ہے۔
انہوں نے اپنی سگریٹ کی ڈبی نکالی‘ ایک سگریٹ نکال کر سلگایا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے’’تم بھی پیو ناں‘‘۔میں نے شرمندگی سے نفی میں سرہلادیا۔ وہ ہنس پڑے’’یار پی لو۔۔۔ذرا کمپنی ہی رہے گی‘‘۔ میں نے جھجکتے ہوئے اپنا سگریٹ سلگالیا۔وہ کچھ دیر کش لگاتے رہے‘ پھر آہستہ سے بولے’’کوئی لطیفہ سناؤ‘‘۔ میں بوکھلا گیا’’انکل ۔۔۔وہ اصل میں۔۔۔مجھے تو‘‘۔۔۔انہوں نے پیار سے میرے کان کھینچے۔۔۔’’زیادہ بننے کی ضرورت نہیں‘ ایک عرصے سے تمہیں جانتا ہوں اور تمہاری تحریریں بھی پڑھتا رہتا ہوں‘ سناؤ ناں کوئی شرارتی سا لطیفہ‘‘۔ میں ہونقوں کی طرح ان کا منہ دیکھ رہا تھا‘ ان کا یہ روپ میرے لیے بالکل نیا تھا۔میری جھجک دیکھ کر انہوں نے ایک گہری سانس لی اور بولے’’کچھ تو بولو یار۔۔۔مجھے پتا ہے تم رائٹرز کو کوئی اچھا لطیفہ یاد نہیں رہتا‘ کوئی بات نہیں‘ کوئی گندا لطیفہ ہی سنا دو‘‘۔میرے ماتھے پر پسینہ آگیا’’انکل ایسی بات نہیں‘ میں تو۔۔۔‘‘انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور کھانستے ہوئے بولے’’چلو پھر میں سناتا ہوں۔۔۔ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک اُستاد نے شاگرد سے پوچھاکہ بیٹا توانائی کسے کہتے ہیں؟ تو پتا ہے اُس نے کیا جواب دیا؟‘‘۔میں نے اِس لٹے پٹے لطیفے کو ہزار دفعہ سننے کے باوجود جلدی سے کہا’’نہیں‘‘۔۔۔وہ چہکے’’شاگرد کہنے لگا کہ جس توے پر نائی بیٹھا ہواُسے توانائی کہتے ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہی وہ بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنس پڑے‘ میں نے بھی ہنسنا شروع کر دیا۔صاف ظاہر ہورہا تھا کہ ان کی تنہائی ٹکریں مار مار کر باہر نکلنے کے راستے تلاش کر رہی ہے‘ آج شاید اُنہیں ایک چھوٹا سا راستہ مل گیا تھا۔
وہ مسلسل ہنسے چلے جارہے تھے‘ میں نے بھی اپنی ہنسی نہیں روکی اور ان کا ساتھ دیتا رہا۔اچانک دروازہ کھلا اور میرا دوست اندر داخل ہوا اور اندر کا منظر دیکھتے ہی اس کی آنکھیں پھیل گئیں‘ میں اور اُس کے والد صاحب ہاتھوں میں سگریٹ دبائے قہقہے لگا رہے تھے۔اُس نے شاید زندگی میں پہلی بار اپنے باپ کو ہنستے دیکھا تھا اس لیے مبہوت کھڑا تھا۔ کچھ دیر اس کی یہی کیفیت رہی‘ پھر اُس نے گھور کر میری طرف دیکھا اورسگریٹ بجھانے کا اشارہ کیا۔میں نے جلدی سے سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔ اُس کے والد صاحب نے چونک کراپنے بیٹے کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر مکمل سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔مجھے لگا جیسے وہ بیٹے سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ مجھے مت اٹھانا۔ لیکن جواب کچھ اور ہی آیا‘ بیٹے نے گھمبیر آواز میں کہا’’ابو۔۔۔پلیز ! ڈاکٹر نے آپ کو سگریٹ پینے سے منع کیا ہے‘ آئیے میں آپ کو کمرے تک چھوڑ آؤں آپ ریسٹ کریں‘‘۔ باپ نے رحم طلب نظروں سے میری طرف دیکھا‘ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن الفاظ میرے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔ میرے دوست نے اپنے باپ کو نہایت احترام سے اٹھایااور پورے ایٹی کیٹس کے ساتھ باہر لے گیا۔۔۔!
(تحریر گل نوخیز اختر )
میں اپنے دوست سے ملنے اُس کے گھر آیا ہوا تھا‘ دوست مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر بیٹے کو سکول سے لینے گیا تھا ۔میں عموماً کسی کے گھر سگریٹ پینے سے گریز کرتا ہوں لیکن میرا دوست بھی چونکہ سموکر ہے اس لیے میں نے بھی اطمینان سے سگریٹ سلگا لیا تھا۔ میرے دوست کے والد صاحب بھی سگریٹ نوشی فرماتے ہیں ‘ ان کی عمر 70 سال ہے ‘ایک بڑے سرکاری ادارے کے سربراہ رہے ہیں اور اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔جب وہ آن جاب تھے تو اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے‘ سائلین کی ایک بڑی تعداد روز ان کے دفتر کے باہر جمع ہوتی تھی لیکن یہ کسی سے فری نہیں ہوتے تھے۔اللہ کا دیا سب کچھ تھا‘سرکاری گھر تھا‘ سرکاری گاڑی تھی اور چار ملازمین بھی ملے ہوئے تھے۔ یہ اپنی نوکری کے دور میں نہایت اصول پرست اور وقت کے پابند انسان تھے۔دفتر جانے سے لے کر رات کو سونے تک اِن کے اوقات مقرر تھے‘ چونکہ حد درجہ سنجیدہ انسان تھے اس لیے کبھی دنیاوی مشغلوں میں نہیں پڑے‘ نہ خود کسی کے دوست بنے ‘ نہ کسی کو بننے دیا۔ اپنی اولاد کی تربیت بھی انہوں نے نہایت نپے تلے انداز میں کی۔اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی‘ ایٹی کیٹس سکھائے اورکامیابی کی راہوں پر گامزن کیا۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے‘ سب سے بڑا ڈاکٹر ہے‘ اُس سے چھوٹا جو میرا دوست ہے وہ انجینئر ہے ‘بیٹی سب سے چھوٹی ہے‘ شادی شدہ ہے اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں زونل مینجر ہے۔اولادکی پرورش کے دوران اِنہوں نے خیال رکھا کہ اِن کی اولاد غیر نصابی کاموں پر اپنا وقت ضائع نہ کرے ‘ انہوں نے تینوں بچوں کے کمرے چھ سال کی عمر سے ہی الگ کر دیے تھے‘ خود چونکہ انتہائی پروقار اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے اس لیے اپنے اور بچوں کے درمیان بھی فاصلے کے قائل تھے۔انہوں نے اپنے بچوں کو بچپن میں کوئی پریوں والی کہانی نہیں سنائی‘کبھی اُنہیں ٹیڑھا میڑھا منہ بنا کر نہیں ہنسایا‘ سیر و تفریح کے لیے بھی لے کر جاتے تھے تو پوری کوشش کرتے تھے کہ بچے بلاوجہ انجوائے نہ کرنے پائیں۔اِنہیں زیادہ ہنسنے ہنسانے والے اور باتونی قسم کے لوگوں سے سخت نفرت تھی۔گھر میں کوئی عزیز رشتہ داربھی آجاتا توگھنٹوں اس کے سامنے خاموش بیٹھے رہتے‘بالآخر وہ خود ہی گھبرا کر اجازت طلب کر لیتا۔
اِن کے گھر میں کھانے پینے تک ایک خاص رکھ رکھاؤ تھا‘ چھری کانٹے کے بغیر کھانے والے کو سخت ناپسند کرتے تھے‘ اونچی آواز میں ٹی وی لگانا منع تھا‘ یہ انہی کا کمال ہے کہ انہوں نے بچوں کو کبھی سکول سے چھٹی نہیں کرنے دی‘ کئی دفعہ تو بچے بخار کی حالت میں بھی سکول گئے۔اپنی طبیعت کے جلال اور مردم بیزاری کے باعث اِن کے ہمسائے بھی اِن سے ملنے سے کتراتے تھے۔
چھ سال قبل یہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔بیوی اللہ کو پیاری ہوگئی ہے‘تینوں بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور اب وہ خود بال بچوں والے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اب یہ ہر عزیز رشتے دار کے گھر آنے جانے لگے ہیں‘ لیکن اب یہ جہاں بھی جاتے ہیں اِن کے احترام میں مکمل خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔یہ اپنے بیٹوں سے باتیں کرنے کے لیے ترستے ہیں لیکن بیٹوں کے سامنے اِن کی ساری زندگی ہے لہذا وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ابو بلاوجہ کی ڈسٹربنس پسند نہیں کرتے۔حالانکہ ابو ڈسٹربنس کے لیے ترس گئے ہیں‘ اب اِن کا دل چاہتا ہے کہ کوئی اِن کے پاس بیٹھ کر کچھ بھی بولتا رہے لیکن اِن سے محوِ گفتگو ضرور ہو‘ رشتے داروں کو فون کرکرکے بلاتے ہیں لیکن کوئی بھی اِن کے قریب پھٹکنے کو تیار نہیں۔جن بچوں کو انہوں نے’’باوقار زندگی‘‘ گزارنے کی تربیت دی تھی وہ اب بھی ان کی عزت کرتے ہیں‘ ہفتے میں دو دفعہ اپنے بچوں کو دادا سے ملانے ان کے کمرے میں لاتے ہیں‘ دادا کے لیے وٹامنز سے بھرپور پھل لے کر آتے ہیں‘دادا کی دیکھ بھال کے لیے ہمہ وقت ایک نرس رکھی ہوئی ہے ‘لیکن یہ سب کام گھمبیر خاموشی کے ساتھ ہوتے ہیں‘اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتے‘ انہیں یہی کچھ سکھایا گیا ہے۔
انہوں نے اپنی سگریٹ کی ڈبی نکالی‘ ایک سگریٹ نکال کر سلگایا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے’’تم بھی پیو ناں‘‘۔میں نے شرمندگی سے نفی میں سرہلادیا۔ وہ ہنس پڑے’’یار پی لو۔۔۔ذرا کمپنی ہی رہے گی‘‘۔ میں نے جھجکتے ہوئے اپنا سگریٹ سلگالیا۔وہ کچھ دیر کش لگاتے رہے‘ پھر آہستہ سے بولے’’کوئی لطیفہ سناؤ‘‘۔ میں بوکھلا گیا’’انکل ۔۔۔وہ اصل میں۔۔۔مجھے تو‘‘۔۔۔انہوں نے پیار سے میرے کان کھینچے۔۔۔’’زیادہ بننے کی ضرورت نہیں‘ ایک عرصے سے تمہیں جانتا ہوں اور تمہاری تحریریں بھی پڑھتا رہتا ہوں‘ سناؤ ناں کوئی شرارتی سا لطیفہ‘‘۔ میں ہونقوں کی طرح ان کا منہ دیکھ رہا تھا‘ ان کا یہ روپ میرے لیے بالکل نیا تھا۔میری جھجک دیکھ کر انہوں نے ایک گہری سانس لی اور بولے’’کچھ تو بولو یار۔۔۔مجھے پتا ہے تم رائٹرز کو کوئی اچھا لطیفہ یاد نہیں رہتا‘ کوئی بات نہیں‘ کوئی گندا لطیفہ ہی سنا دو‘‘۔میرے ماتھے پر پسینہ آگیا’’انکل ایسی بات نہیں‘ میں تو۔۔۔‘‘انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور کھانستے ہوئے بولے’’چلو پھر میں سناتا ہوں۔۔۔ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک اُستاد نے شاگرد سے پوچھاکہ بیٹا توانائی کسے کہتے ہیں؟ تو پتا ہے اُس نے کیا جواب دیا؟‘‘۔میں نے اِس لٹے پٹے لطیفے کو ہزار دفعہ سننے کے باوجود جلدی سے کہا’’نہیں‘‘۔۔۔وہ چہکے’’شاگرد کہنے لگا کہ جس توے پر نائی بیٹھا ہواُسے توانائی کہتے ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہی وہ بچوں کی طرح کھلکھلا کر ہنس پڑے‘ میں نے بھی ہنسنا شروع کر دیا۔صاف ظاہر ہورہا تھا کہ ان کی تنہائی ٹکریں مار مار کر باہر نکلنے کے راستے تلاش کر رہی ہے‘ آج شاید اُنہیں ایک چھوٹا سا راستہ مل گیا تھا۔
وہ مسلسل ہنسے چلے جارہے تھے‘ میں نے بھی اپنی ہنسی نہیں روکی اور ان کا ساتھ دیتا رہا۔اچانک دروازہ کھلا اور میرا دوست اندر داخل ہوا اور اندر کا منظر دیکھتے ہی اس کی آنکھیں پھیل گئیں‘ میں اور اُس کے والد صاحب ہاتھوں میں سگریٹ دبائے قہقہے لگا رہے تھے۔اُس نے شاید زندگی میں پہلی بار اپنے باپ کو ہنستے دیکھا تھا اس لیے مبہوت کھڑا تھا۔ کچھ دیر اس کی یہی کیفیت رہی‘ پھر اُس نے گھور کر میری طرف دیکھا اورسگریٹ بجھانے کا اشارہ کیا۔میں نے جلدی سے سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔ اُس کے والد صاحب نے چونک کراپنے بیٹے کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر مکمل سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔مجھے لگا جیسے وہ بیٹے سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ مجھے مت اٹھانا۔ لیکن جواب کچھ اور ہی آیا‘ بیٹے نے گھمبیر آواز میں کہا’’ابو۔۔۔پلیز ! ڈاکٹر نے آپ کو سگریٹ پینے سے منع کیا ہے‘ آئیے میں آپ کو کمرے تک چھوڑ آؤں آپ ریسٹ کریں‘‘۔ باپ نے رحم طلب نظروں سے میری طرف دیکھا‘ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن الفاظ میرے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔ میرے دوست نے اپنے باپ کو نہایت احترام سے اٹھایااور پورے ایٹی کیٹس کے ساتھ باہر لے گیا۔۔۔!
(تحریر گل نوخیز اختر )