ماروا ضیا
محفلین
اس کعبہِ دل کو کبھی ویران نہیں دیکھا
اُس بت کو کب اللہ کا مہماں نہیں دیکھا
کیا ہم نے عذابِ شبِ ہِجراں نہیں دیکھا
تُم کو نہ یقیں آئے تو ہاں ہاں نہیں دیکھا
کیا تو نے میرا حال پریشاں نہیں دیکھا
اس طرح سے دیکھا کہ میری جاں نہیں دیکھا
جب پڑا وصل میں شوخی سے کسی کا
پھر ہم نے گریباں کو گریباں نہیں دیکھا
ہم جیسے ہیں،ایسا کوئی دانا نہیں پایا
تم جیسے ہو،ایساکوئی ناداں نہیں دیکھا
راحت کے طلبگا رہزاروں نظر آئے
محشر میں کوئی حور کا خواہاں نہیں دیکھا
نظروں میں سمایا ہوا ساماں نہیں دیکھا
لیلی نے کبھی قیس کو عریاں نہیں دیکھا
اُس بُت کی محبت میں قیامت کا مزہ ہے
کافر کو دوزخ میں پشیماں نہیں دیکھا
کہتے ہو کہ بس دیکھ لیا ہم نے ترا دل
دل دیکھ لیا اورپھر ارماں نہیں دیکھا
کیا ذوق ہے کیا شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں
پھر بھی یہ کہوں جلوہ جاناں نہیں دیکھا
محشر میں وہ نادم ہوں خُدا یہ نہ دِکھائے
آنکھوں سے کبھی اُس کو پشیماں نہیں دیکھا
جو دیکھتے ہیں دیکھنے والے تِرے انداز
تو نے وہ تماشا ہی میری جاں ہی نہیں دیکھا
ہر چند تیرے ظلم کی کُچھ حد نہیں ظالم
پر ہم نے کسی شخص کو نالاں نہیں دیکھا
گو نزع کی حالت ہے مگر پھر یہ کہوں گا
کُچھ تمُ نے مرِا حالِ پریشاں نہیں دیکھا
تُم غیر کی تعریف کروقہر خدُا ہے
معشوق کو یوں بندہ احساں نہیں دیکھا
کیا جذب محبت ہے کہ جب سینہ سے کھینچا
سفاک تیرے تیر میں پیکاں نہیں دیکھا
ملتا نہیں ہمکو دل گمُ گشتہ ہمارا
تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہیں دیکھا
جو دن مجھے تقدیر کی گردش نے دِکھایا
تو نے بھی وہ اے گردِشِ دوراں نہیں دیکھا
کیا داد ملے اُسے پریشانیِ دل کی
جس بتُ نے کبھی خوابِ پریشاں نہیں دیکھا
میں نے اُسے دیکھا،مرے دل نے اُسے دیکھا
تو نے اُسے اے دیدہ حیراں نہیں دیکھا
تُمکو مرے مرنے کی یہ حسرت یہ تمنا
اچھوں کو بُری بات کا ارماں نہیں دیکھا
لو اور سنو کہتے ہیں وہ دیکھ کے مجھکو
جو حال سنا تھا وہ پریشاں نہیں دیکھا
تم منہ سے کہے جاؤ کہ دیکھا ہے زمانہ
آنکھیں تو یہ کہتی ہیں ہاں ہاں نہیں دیکھا
کیا عیش سے معمور تھی وہ انجمنِ ناز
ہم نے تو وہاں شمع کو گرِیاں نہیں دیکھا
کہتی ہے مری قبر پہ رو رو کے محبت
یوں خاک میں ملتے ہوئے ارماں نہیں دیکھا
کیوں پوچھتے ہو کون ہے یہ کسکی ہے شہرت
کیا تم نے کبھی داغؔ کا دیوان نہیں دیکھ