اس کی آنکھوں میں مچلتی، بے زبانی، ان کہی ۔۔ ایک غزل

اس کی آنکھوں میں مچلتی، بے زبانی، ان کہی
لب، دعا، مّنت، ادھوری سی کہانی ،ان کہی

دل، دیا، دہلیز، عفّت، چنریوں کے نم سرے
اشک حسرت، پیار کی سچّی کہانی ،ان کہی

ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی کھینچ کر
کیادلِ مضطرلکھیں اپنی کہانی ،ان کہی

پا لیا جب اشک نے اذن تکلم بزم میں
ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی، ان کہی

شمع محفل ہو کے بھی، تھا لن ترانی کا بیاں
تب کھلی بند قبا، کی ضو فشانی ،ان کہی

لفظِ الفت دل پہ لکھ کر، کی شرارت اس نے یوں
دو شرائط اس پہ رکھ دیں، غیر فانی، ان کہی

جو چرا لائے صبا، ملبوس کی خوشبو ترے
تشنگی میں بھی نہاں ہو شادمانی ،ان کہی

سیل غم کی موج کاشف دل سے یوں نکلا کرے
دور ہوں شکوے بھی اور کچھ بد گمانی ،ان کہی


سیّد کاشف
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کاشف بھائی اچھا تجربہ ہے ۔ لیکن کئی اشعار میں ردیف نبھ نہ سکی اور بے ربط و بے محل معلوم ہوتی ہے ۔ نیز اسی ردیف کی وجہ سے کچھ اشعار میں ایک داخلی تضاد اور ابہام سا پیدا ہورہا ہے۔ مثلاً

لفظِ الفت دل پہ لکھ کر، کی شرارت اس نے یوں
دو شرائط اس پہ رکھ دیں، غیر فانی، ان کہی

یہاں ان کہی کے بجائے زباں بندی یا خاموشی کا محل ہے ۔ نیز غیر فانی کے بجائے دائمی یا ہمیشگی کی بات ہونی چاہیئے ۔ ویسے غیر فانی کے بجائے لافانی فصیح تر ہے ۔

اس اچھی کاوش کے لئے بہرحال داد حاضر ہے ۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
Top