کاشف اسرار احمد
محفلین
اس کی آنکھوں میں مچلتی، بے زبانی، ان کہی
لب، دعا، مّنت، ادھوری سی کہانی ،ان کہی
لب، دعا، مّنت، ادھوری سی کہانی ،ان کہی
دل، دیا، دہلیز، عفّت، چنریوں کے نم سرے
اشک حسرت، پیار کی سچّی کہانی ،ان کہی
اشک حسرت، پیار کی سچّی کہانی ،ان کہی
ایک کاغذ پر لکیریں آڑی ترچھی کھینچ کر
کیادلِ مضطرلکھیں اپنی کہانی ،ان کہی
پا لیا جب اشک نے اذن تکلم بزم میں
ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی، ان کہی
شمع محفل ہو کے بھی، تھا لن ترانی کا بیاں
تب کھلی بند قبا، کی ضو فشانی ،ان کہی
لفظِ الفت دل پہ لکھ کر، کی شرارت اس نے یوں
دو شرائط اس پہ رکھ دیں، غیر فانی، ان کہی
جو چرا لائے صبا، ملبوس کی خوشبو ترے
تشنگی میں بھی نہاں ہو شادمانی ،ان کہی
سیل غم کی موج کاشف دل سے یوں نکلا کرے
دور ہوں شکوے بھی اور کچھ بد گمانی ،ان کہی
سیّد کاشف
کیادلِ مضطرلکھیں اپنی کہانی ،ان کہی
پا لیا جب اشک نے اذن تکلم بزم میں
ہنس کے اس کم گو نے کر دی، ترجمانی، ان کہی
شمع محفل ہو کے بھی، تھا لن ترانی کا بیاں
تب کھلی بند قبا، کی ضو فشانی ،ان کہی
لفظِ الفت دل پہ لکھ کر، کی شرارت اس نے یوں
دو شرائط اس پہ رکھ دیں، غیر فانی، ان کہی
جو چرا لائے صبا، ملبوس کی خوشبو ترے
تشنگی میں بھی نہاں ہو شادمانی ،ان کہی
سیل غم کی موج کاشف دل سے یوں نکلا کرے
دور ہوں شکوے بھی اور کچھ بد گمانی ،ان کہی
سیّد کاشف