فرخ منظور
لائبریرین
اس کے شرارِ حسن نے، شعلہ جو اک دکھا دیا
طور کو سر سے پاؤں تک، پھونک دیا جلا دیا
پھر کے نگاہ چار سو، ٹھہری اسی کے رو برو
اس نے تو میری چشم کو، قبلہ نما بنا دیا
میرا اور اس کا اختلاط، ہو گیا مثلِ ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا، میں نے اسے ہنسا دیا
میں ہوں پتنگِ کاغذی، ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا اِدھر گھٹا دیا، چاہا اُدھر بڑھا دیا
تیشے کی کیا مجال تھی، یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور، جس نے پہاڑ ڈھا دیا
شکوہ ہمارا ہے بجا، مفت بروں سے کس لئے
ہم نے تو اپنا دل دیا، ہم کو کسی نے کیا دیا
سن کے یہ میرا عرضِ حالِ، یار نے یوں کہا نظیر
چل بے زیادہ اب نہ بک، تو نے تو سر پھرا دیا
(نظیر اکبر آبادی)
طور کو سر سے پاؤں تک، پھونک دیا جلا دیا
پھر کے نگاہ چار سو، ٹھہری اسی کے رو برو
اس نے تو میری چشم کو، قبلہ نما بنا دیا
میرا اور اس کا اختلاط، ہو گیا مثلِ ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا، میں نے اسے ہنسا دیا
میں ہوں پتنگِ کاغذی، ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا اِدھر گھٹا دیا، چاہا اُدھر بڑھا دیا
تیشے کی کیا مجال تھی، یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور، جس نے پہاڑ ڈھا دیا
شکوہ ہمارا ہے بجا، مفت بروں سے کس لئے
ہم نے تو اپنا دل دیا، ہم کو کسی نے کیا دیا
سن کے یہ میرا عرضِ حالِ، یار نے یوں کہا نظیر
چل بے زیادہ اب نہ بک، تو نے تو سر پھرا دیا
(نظیر اکبر آبادی)