اس گلی کے کنارے پر
دھوپ،
بہت سارے دکھ اوڑھے،
اداس درودیوار کے ساتھ،
لپٹ گئی ہے،
اس گلی کی،
ایک ایک اینٹ پر،
کئی گزرے نام ہیں،
مرجھائی ہوئی شاموں کے ،
کئی لمحے،
سیلن زدہ دروازوں،
اور کھڑکیوں کی درزوں میں،
جم گئے ہیں،
اس گلی کے ہر دروازے پر،
گزرے سال دستک دیتے ہیں،
اور چپ چاپ لوٹ جاتے ہیں،
یونہی کبھی کبھی،
اس گلی کے کنارے،
بچوں کے جھرمٹ میں ،
کوئی اپنا بچپن تکتا ہے،
تو،
تتلی پکڑنے کے دن،
آنکھوں میں ،
آنسوؤں کے جگنو بھر دیتے ہیں،
اس گلی کے کنارے پر،
تم کبھی جاؤ تو،
دھوپ،
ماضی کے بہت سارے دکھ ،
لپیٹے،
برستی بارشوں کا،
انتظار کر رہی ہے۔
دھوپ،
بہت سارے دکھ اوڑھے،
اداس درودیوار کے ساتھ،
لپٹ گئی ہے،
اس گلی کی،
ایک ایک اینٹ پر،
کئی گزرے نام ہیں،
مرجھائی ہوئی شاموں کے ،
کئی لمحے،
سیلن زدہ دروازوں،
اور کھڑکیوں کی درزوں میں،
جم گئے ہیں،
اس گلی کے ہر دروازے پر،
گزرے سال دستک دیتے ہیں،
اور چپ چاپ لوٹ جاتے ہیں،
یونہی کبھی کبھی،
اس گلی کے کنارے،
بچوں کے جھرمٹ میں ،
کوئی اپنا بچپن تکتا ہے،
تو،
تتلی پکڑنے کے دن،
آنکھوں میں ،
آنسوؤں کے جگنو بھر دیتے ہیں،
اس گلی کے کنارے پر،
تم کبھی جاؤ تو،
دھوپ،
ماضی کے بہت سارے دکھ ،
لپیٹے،
برستی بارشوں کا،
انتظار کر رہی ہے۔