الف نظامی
لائبریرین
تحریر :
محمد اظہار اشرف الاشرفی الجیلانی
سجادہ نشین آستانہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف
ضلع امبیدکر نگر (یوپی)
قرآن کریم تمام علوم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اس کا نزول عربی زبان میں ہوا ۔ فارسی زبان میں بھی قرآن کریم کے متعدد ترجمے موجود ہیں جن کی تعداد باون 52 تک پہنچتی ہے۔ شاہ محمد اشرف جہانگیر سمنانی ؒ نے 727 ھ میں قرآن کریم کا عظیم نسخہ اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا اور اس کا فارسی ترجمہ بھی تحریر فرمایا۔
اس ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم کے مقتضیات و احوال کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے ہر لفظ کا ترجمہ راجح تفسیر کی بنا پر اس طرح کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی روح اور اس کا مفہوم برقرار رہنے کے ساتھ صنائع و بدائع بھی باقی رہیں۔ عربی زبان کے مقابل میں فارسی زبان کا دامن تنگ ہونے کے باوجود فارسی ترجمہ کو عربی عبارت سے ہم آہنگ کردینا مخدوم اشرف کے کمال علم ومعرفت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ قرآن کریم کا یہ فارسی ترجمہ قرآن کریم کے دوسرے تراجم کے درمیان جدت طرازی ، ندرت بیانی اور مفہوم کی ادائیگی کے اعتبار سے ممتاز ہے۔
غوث العالم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کا تحریر کردہ فارسی ترجمہ کا نسخہ مدینہ منورہ میں حرم شریف کے قریب کسی مکان میں موجود تھا۔ جب حرم شریف کی توسیع ہوئی تو یہ قرآن شریف مع فارسی ترجمہ جناب محمد علی صاحب مہاجر مدنی کو ملا اور ان سے ڈاکٹر سید مظاہر اشرف اشرفی جیلانی کو ملا۔
سید شاہ محمد ممتاز اشرفی (انہوں نے اشرف البیان کا اردو ترجمہ کیا ہے) لکھتے ہیں:
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ فارسی زبان میں سب سے پہلا ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 1176 ھ کا ہے جب کہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 808 ھ کا ترجمہ قرآن آپ سے بھی پہلے کا ہے۔ ان دونوں تراجم میں اختلافِ زمانہ کے سبب زبان ایک ہونے کے باوجود لب و لہجہ اور الفاظ میں نمایاں فرق موجود ہے۔
اشرف البیان جلد اول
اشرف البیان جلد دوم
اشرف البیان جلد سوم
اشرف البیان جلد چہارم
اشرف البیان جلد پنجم
محمد اظہار اشرف الاشرفی الجیلانی
سجادہ نشین آستانہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف
ضلع امبیدکر نگر (یوپی)
قرآن کریم تمام علوم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اس کا نزول عربی زبان میں ہوا ۔ فارسی زبان میں بھی قرآن کریم کے متعدد ترجمے موجود ہیں جن کی تعداد باون 52 تک پہنچتی ہے۔ شاہ محمد اشرف جہانگیر سمنانی ؒ نے 727 ھ میں قرآن کریم کا عظیم نسخہ اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا اور اس کا فارسی ترجمہ بھی تحریر فرمایا۔
اس ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم کے مقتضیات و احوال کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے ہر لفظ کا ترجمہ راجح تفسیر کی بنا پر اس طرح کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی روح اور اس کا مفہوم برقرار رہنے کے ساتھ صنائع و بدائع بھی باقی رہیں۔ عربی زبان کے مقابل میں فارسی زبان کا دامن تنگ ہونے کے باوجود فارسی ترجمہ کو عربی عبارت سے ہم آہنگ کردینا مخدوم اشرف کے کمال علم ومعرفت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ قرآن کریم کا یہ فارسی ترجمہ قرآن کریم کے دوسرے تراجم کے درمیان جدت طرازی ، ندرت بیانی اور مفہوم کی ادائیگی کے اعتبار سے ممتاز ہے۔
غوث العالم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کا تحریر کردہ فارسی ترجمہ کا نسخہ مدینہ منورہ میں حرم شریف کے قریب کسی مکان میں موجود تھا۔ جب حرم شریف کی توسیع ہوئی تو یہ قرآن شریف مع فارسی ترجمہ جناب محمد علی صاحب مہاجر مدنی کو ملا اور ان سے ڈاکٹر سید مظاہر اشرف اشرفی جیلانی کو ملا۔
سید شاہ محمد ممتاز اشرفی (انہوں نے اشرف البیان کا اردو ترجمہ کیا ہے) لکھتے ہیں:
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ فارسی زبان میں سب سے پہلا ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 1176 ھ کا ہے جب کہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 808 ھ کا ترجمہ قرآن آپ سے بھی پہلے کا ہے۔ ان دونوں تراجم میں اختلافِ زمانہ کے سبب زبان ایک ہونے کے باوجود لب و لہجہ اور الفاظ میں نمایاں فرق موجود ہے۔
اشرف البیان جلد اول
اشرف البیان جلد دوم
اشرف البیان جلد سوم
اشرف البیان جلد چہارم
اشرف البیان جلد پنجم
آخری تدوین: