کاشفی

محفلین
اشعارِ رند
رند تخلص، سید محمد خان

تعارف:
رند تخلص، سید محمد خان خلف نواب سراج الدولہ غیاث الدین محمد خان نیشاپوری ، باشندہء فیض آباد ، مقیم لکھنؤ، شاگرد خواجہ حیدر علی آتش ۔ شعر صاف و عاشقانہ اچھا کہتے تھے۔ ان کے اشعار اراکینِ محفل کی نظر ہیں۔

ٹوٹے بت ، مسجد بنی، مسمار بُت خانہ ہوا
جب تو اِک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ ہوا
----------------------------
کب مٹا عشق کا نشاں دل سے
زخم اچھا ہوا تو داغ رہا
----------------------------
کھلی ہے کنج قفس میں‌مری زباں صیاد
میں‌ماجرائے چمن کیا کروں بیاں صیاد
دکھایا کنجِ قفس مجھ کو آب و دانے نے
وگر نہ دام کہاں، میں‌کہاں ، کہاں‌صیاد
----------------------------
رُخ کو پوشیدہ عبث ماہ لقا کرتے ہیں
اچھی صورت کو چھپاتے ہیں بُرا کرتے ہیں
----------------------------
گلے لگائیں، بلائیں لیں، تم کو پیار کریں
جو بات مانو تو منت ہزار بار کریں
----------------------------
غیر نے لاکھ جوڑ مارے ہیں
پر ہم اُن کے ہیں وہ ہمارے ہیں
----------------------------
تمہارے ہاتھ سے تنگ آئے ہیں خون اپنا کرتے ہیں
بہ مجبوری گلے کو کاٹتے ہیں تم پہ مرتے ہیں
نہیں‌معلوم اُنہیں کیا ‌حال میری بیقراری کا
غلط کہتے ہیں دم دیتے ہیں‌جھوٹے ہیں مکرتے ہیں
----------------------------
ہو کے بیزار عبث گھر نہ جاؤ، آؤ
تھوڑے سے رنج کو اتنا نہ بڑھاؤ، ‌آؤ
دل نہیں دیتا میں اس واسطے آزر دہ ہو
روٹھے جاتے ہو اِسی بات پر آؤ آؤ
----------------------------
نگہِ یاس سے دیکھوں تو یہ کہتا ہے وہ شوخ
پھر بُری آنکھ سے اِس نے دیکھا دیکھو
دیکھ کر اپنی گلی میں‌کئی پتھر مارے
مجھ کو دیوانہ بنایا ہے پری نے دیکھو
----------------------------
پاسِ دین کفر میں بھی تھا ملحوظ
بُت کو پوجا خدا ‌خدا کر کے
----------------------------
خیال اور کچھ ہے رشکِ حور ہوتا ہے
خطا معاف ہو مجھ سے قصور ہوتا ہے
----------------------------
چمپئی او مہروش تجھ کو نہ دھانی چاہئیے
چاند مکھڑا ہے دوپٹہ آسمانی چاہئیے
----------------------------
آزردہ ہو کہ خوش ہو میں کہتا ہوں صاف صاف
ہاں ہاں نہیں پسند تمہاری نہیں مجھے
----------------------------
 

کاشفی

محفلین
تعارفِ رند:
رند 11ربیع الاول 1212ہجری میں فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ چونکہ ان کی دادی نواب سعادت علی خان برہاں الملک کی حقیقی بہن تھیں۔ اس لیے 28 سال تک نواب شجاع الدولہ مرحوم کی بیوی امہ الزہرا بیگم عرف بہو بیگم کے پاس بہت لاڈ پیار میں پرورش پائی۔ جب تک فیض آباد میں رہے۔ میر انیس کے باپ میر مستحن خلیق سے اصلاح لیتے رہے۔ اس زمانہ میں اپنا تخلص وفا کرتے تھے۔ وہین ایک دیوان بھی مرتب کر لیا تھا۔
جب بہو بیگم کا انتقال ہوگیا اور میر خلیق بھی فرخ آباد چلے گئے تو یہ رجب 1240ہجری میں لکھنؤ آئے اور یہیں رہ پڑے۔ یہاں خواجہ آتش کی شاگردی اختیار کی۔ خواجہ صاحب نے ان کا تخلص بدل کر رند رکھ دیا۔
اخیر عمر میں تمام باتوں سے توبہ کر لی۔ بلکہ استاد کے مرتے ہی شاعری بھی چھوڑ دی۔ اس زمانہ میں اودھ کے دربار میں بہت ابتری رونما ہورہی تھی ۔ ایک دوسرے کی اکھاڑ پچھاڑ میں گیا ہوا تھا۔ یہ باتیں ان کو پسند نہ آئیں اور حج اور زیارت کی نیت سے انہوں نے لکھنؤ چھوڑا ۔ یہ نیکی ان کی قسمت میں نہ تھی۔ اس لیے بمبئی پہنچ کر بیمار ہوئے اور آخرت کا سفر اختیار کیا۔
پہلا دیوان تو لکھنؤ پہنچ کر ضائع کردیا۔ اس کے بعد دو دیوان اور مرتب کئے۔ جو "گلدستہ عشق" کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ مگر ان دیوانوں میں بھی میر خلیق کا رنگ جھلکتا ہے۔
ان کے کلام میں سادگی اور صفائی زیادہ ہے۔ اور اسی وجہ سے ان کے کلام میں زیادہ تاثیر پیدا ہوگئی ہے۔ محاورے اور روز مزے کا استعمال ان کے گھر کی بات تھی۔ عاشقانہ مضامین کو اچھی طرح ادا کرتے تھے۔ رازونیاز کے معاملات میں کوئی جگ بیتی کہتا ہوگا۔ یہ آپ بیتی کہتے تھے۔ لیکن ان کا بازاری مذاق نہ تھا۔ بلکہ ہر ایک مضمون نہایت تہذیب کے ساتھ دلکش لفظوں میں ادا کرتے تھے۔

محفلین ان کے کلام کا نمونہ مندرجہ ذیل لڑیوں میں ملاحظہ کریں۔
1 - کھلی ہے کنج قفس میں مری زباں صیاد
2 - دل کو پھر کاکل میں الجھاتے ہیں ہم
 

کاشفی

محفلین
محمد وارث صاحب، فرخ منظور صاحب اور سید محمد نقوی صاحب آپ تینوں احباب کا بیحد شکریہ۔۔خوش رہیں۔
 
Top