قاضی واجد الدائم
محفلین
لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
------------------------
تشریح کریں۔
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
------------------------
تشریح کریں۔
آج علامہ محمد اقبال کا ایک شعر نظر سے گزرا مگر یہ اپنے معانی اور مفہوم میں میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
تشریح درکار ہے۔۔
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
آپ نے اس شعر کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔ آپکی رہنمائی کا بہت شکریہ۔پہلے تو وکی پیڈیا کے صفحے ’’اقبال کا مردِ مومن‘‘ سے مندرجہ ذیل اقتباس پڑھیے۔
بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ کو وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہون ِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کے لئے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے ؟ اعلیٰ ترین نصب العین کے لئے سچی لگن ، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزئوں کو پورا کرنے کے لئے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اس کے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے۔ اور کردار میں پختگی آجاتی ہے ۔
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
یہی جذبہ عشق ہے جو مسلمان کو کافر سے جد ا کرتا ہے
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
سید وقار عظیم اپنی کتاب ”اقبال شاعر اور فلسفی“ میں اس بارے میں لکھتے ہیں، " اقبال نے اس اندرونی کیفیت ، اسی ولولہ انگیز محرک اور زبردست فعالی قوت کو عشق کا نام دیا ہے۔ اور اسے خودی کے سفر میں یا انسانی زندگی کے ارتقاءمیں سب سے بڑا رہنما قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد مومن کی عملی زندگی میں اس جذبہ محرک کو سب سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔"
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام
اب فرمائیے کہ کیا محض نام کے مسلمان ایک فرد جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا عشق موجود نہیں ، وہ ان کے فرامین کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے تیار نہیں، اور ایک بظاہر کلمہ کفر’’ انالحق‘‘ کہنے والے میں وہی فرق نہیں ہے جس کی نشاندھی علامہ فرمارہے ہیں؟
آج علامہ محمد اقبال کا ایک شعر نظر سے گزرا مگر یہ اپنے معانی اور مفہوم میں میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
تشریح درکار ہے۔۔
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
صلح حدیبیہ کے واقعہ سے ایسا لگتا ہے کہ نبی کریم لکھنا پڑھنا جانتے تھے. آپ کا کیا خیال ہے. انہوں نے پہلے پڑھا ہوگا پھر کاٹا ہوگا پھر محمد ابن عبداللہ لکھا ہوگا. رہنمائی درکار ہےہم سب جانتے ہیں کہ نبی کریم کے حکم کی نافرمانی کفر ہے
صلح حدیبیہ کے موقعہ پر حضرت علی نے جب معاہدے پر محمد رسول اللہ لکھا تو اس پہ ابوسفیان نے اعتراض کیا کہ ان کے رسول خُدا ہونے سے ہی تو ہمیں انکار ہے، اس لئے یہ الفاظ حذف کے جائیں
نبی پاک نے حضرت علی کو حکم دیا کہ یہ الفاظ کاٹ دو لیکن انہوں نے نبی پاک کا حکم ماننے سے صاف انکار کردیا جس پہ آنحضرت نے خود یہ الفاظ کاٹ دیئے
اب اگر دیکھا جائے تو حضور صلعم کی نافرمانی کر کے حضرت علی کفر کے مرتکب ہوئے لیکن چونکہ اس کفر کا موجب عشق نبی کی انتہا تھی اس لئے یہ کفر بھی مسلمانی شمار ہوا
اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو عشق کے فقدان سے مسلمان کا کافر و زندیق ہوجانا خودبخود واضح ہوجاتا ہے کیونکہ یہ پہلی بات کا لامحالہ منطقی نتیجہ ہے
میں اس تشریح کے لئے، جناب طارق حسین زیدی صاحب کا ممنون ہوں
علامہ صاحب یہاں انسان کو، جو بظاہر یا جسمانی لحاظ سے اس کائنات میں ایک بلبلے کی مانند ہے، اسے اپنی حقیقت سے آشنا کروا رہے ہیںلوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
------------------------
تشریح کریں۔