سید عاطف علی
لائبریرین
کچھ اشعار برائے اصلاح و تنقید احبائے محفل کی توجہ اورقیمتی آراءکے لیے۔
ہوگئے گو شکستہ مرے بال و پر
آسماں کو ملی ان سے رفعت مگر
حاصل ِکاوش ِ اہل ِعلم و ہنر
جو ہوا بے خبر وہ ہوا با خبر
راز سینے میں ایسا ہے میرے جسے
ڈھونڈتے ہیں شب و روز شمس و قمر
زہد ِ زاہد رہا قیدِ دستار میں
قیس و فرہاد و وامق ہوے در بدر
آبلوں سے جنوں کو ملا حوصلہ
کتنی ہی منزلیں بن گئیں رہگزر
گفتگو تھی تصور سے تیرے فقط
ہمنوا ہوگئے کیوں یہ برگ و شجر
فرصتِ زندگی کا تماشہ یہی
غور سے دیکھ لے کو ئی رقص ِشرر
ہو صدائے سگا ں گو وفا کاشعار
ہے فقیری کا مشرب مگر درگزر
ہوگئے گو شکستہ مرے بال و پر
آسماں کو ملی ان سے رفعت مگر
حاصل ِکاوش ِ اہل ِعلم و ہنر
جو ہوا بے خبر وہ ہوا با خبر
راز سینے میں ایسا ہے میرے جسے
ڈھونڈتے ہیں شب و روز شمس و قمر
زہد ِ زاہد رہا قیدِ دستار میں
قیس و فرہاد و وامق ہوے در بدر
آبلوں سے جنوں کو ملا حوصلہ
کتنی ہی منزلیں بن گئیں رہگزر
گفتگو تھی تصور سے تیرے فقط
ہمنوا ہوگئے کیوں یہ برگ و شجر
فرصتِ زندگی کا تماشہ یہی
غور سے دیکھ لے کو ئی رقص ِشرر
ہو صدائے سگا ں گو وفا کاشعار
ہے فقیری کا مشرب مگر درگزر
مدیر کی آخری تدوین: