اشعار کی مراد کی وضاحت

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

از زلف سیاہ تو بدل دھوم پڑی ہے
در گلشن آئینہ گھٹا جھوم پڑی ہے

اس شعر کا مطلب میں نے سمجھنے کی کوشش کی ہے سمجھ میں اصلاح کا طالبگار ہوں

"سیاہ زلف کی وجہ سے تیری شہرت ہو گئی ہے
گلشن آئینہ کے در پہ تیری زلف گھٹا کی مانند جھوم رہی ہے"

اس شعر میں "تو بدل" سے مراد میں کافی تردد ہے

مجھی خوشی ہو گی اگر کوئی صراحۃ اس مراد پہ تنقید کرے کہونکہ میں نے یہ بطور طالب علم پیش کیا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
مشرف صاحب۔ براہِ مہربانی آئندہ اس قسم کے سوالات اصلاحِ سخن کی بجائے بزمِ سخن کے پہلے صفحے پر کیا کریں۔ میں نے آپ کا پیغام بزمِ سخن کے زمرے میں منتقل کر دیا ہے۔ بہت شکریہ!
 

m.mushrraf

محفلین
صاحب بحر الفصاحب فرماتے ہیں :

"
... چناچہ میرزا معز فطرت کہ بڑا عالم ایران کا تھا اور شاعر کامل عہد عالمگیر میں ہوا ہے، وہ مدت تک ہندوستان ہیں رہا ہے۔ اس نے زبان اردو میں یہ شعر کہا :

از زلف سیاہ تو بدل دوم پری ہے
در گلشن آئینہ گتا جوم پری ہے
"

سید قدرت نقوی صاحت اس پہ تعلیق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

"
فطرت کا شعر آج کی تحریر میں اس طرح لکھا جائے گا :
از زلف سیاہ تو بدل دھوم پڑی ہے
در گلشن آئینہ گھٹا جھوم پڑی ہے

"
شاید کے اس تفصیل میں شعر کے مطلب تک رسائی کے لئے کوئی کڑی نہ ہو لیکن میں نے حوالۃ نقل کر دیا۔

انڑرنٹ پہ تلاش کے دوران مجھے محض ایک حوالہ ملا وہ یہ ہے :

"
فارسی غزل کہنے والوں نے نقش طبع کے طور پر فارسی اور ہندی ملا کر عاشقانہ اشعار موزوں کئے۔ بعض لوگوں نے ایک مصرعے میں دو حصے کرکے فارسی اور ہندی نقوش ملائے۔ اورنگ زیب کے امراء میں ملّو خاں فطرت نے بھی تفریحا ایک شعر اسی قسم کا کہا تھا۔
از زلفِ سیاہ تو بدل دوم پری ہے
دو خانہ آئینہ گتا جوم پری ہے
"
اخبار و فکر


نیز کیا آخری مصرع کا مطلب ٹھیک ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
غالبا ’بدل‘ بَ دِ ل نہیں، بادل کا کوئی روپ ہے بگڑا ہوا۔ دوسرا مصرع جو واضح تھا، اس کا مطلب وہی ہے جو سمجھے ہیں، یعنی آئینہ میں زلفوں کو عکس سے گھٹا جھوم رہی ہے، پہلا مصرع اسی کی توسیع ہے، ’از زلفِ سیاہِ تو‘ مراد ‘تیری کالی زلف کے باعث‘، ’بدل دھوم‘ غیر واضح ہے، لیکن شاید مراد بادلوں کا چھا جانا ہی ہے۔
 

m.mushrraf

محفلین
جزاكم الله خيرا

ویسے "بادل" کی تقدیر کافی مناسب دکھائی دیتی ہے۔

ان شاء الله تعالى مزید اشعار کی وضاحت کا طالب بن کے حاضر ہوں گا٫
 

m.mushrraf

محفلین
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

نذقن یار میں کی خط نے رسائی پیدا : چاہ یوسف میں خضر بہر تماشا اترا (ناسخ)

آخری مصرع کی مراد واضح نہیں ہوئی۔ بس اتنا سمجھ آتا ہے کہ یہاں ٹھوڑی میں آنے والے سبز خط کو تشبیہ دی ہے۔ خاص طور سے خضر اور یوسف - عليه الصلوة و السلام - کے کسی تعلق کی طرف اشارہ اس میں۔
 

الف عین

لائبریرین
شعر تو واضح ہے مشرف۔ چاہِ ذقن کو چاہِ یوسف سے تشبیہہ دی گئی ہے اور خط کو خضر سے۔
 

m.mushrraf

محفلین
جزاكم الله خيرا

بس مجھے ایک شک سا تھا، شرح صدر نہیں ہو ریا تھا اس لئے وضاحت کروا لی۔

کچھ مزید باتیں :

۱: بلبل خوش نغمہ ہوں لیک اس گلستان میں جہاں
نالہ مرغ چمن سے کم نہیں فریاد زاغ

اس شعر کا مضمون کیا ہے، شاعر کا مقصود کیا ہے؟

۲: دم مصاف ترے دشمنوں کے لشکر میں
صدائے نوحہ و شیون ہے شور و غلغل کوس

اس شعر کو اگر نثر میں تبدیل کریں تو کچھ یوں ہو گا :
شور و غلغل کوس ترے دشمن کے لشکر میں صدائے نوحہ و شیون ہے

اس شعر میں "دم مصاف" کی مراد اور ضرورت واضح نہیں ہوئی۔

۳: ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا
پانی بھی پھر پیئیں تو مزہ دے شراب کا

کیا اس شعر کے پہلے مصرع میں "حباب"(بلبلے) سے آنسو کو تشبیہ دی ہے؟ اور"دل" سے مراد کیا ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
پہلا شعر تو کافی قابل فہم ہے، باقی تو مجھے بھی مزید غور کرنا پڑے گا۔
پہلے شعر کا مطلب یہ ہے کہ میں ایسے چمن میں نغمہ سرا بلبل ہوں جہاں کوے کی کائیں کائیں کو بھی نغمہ سمجھا جاتا ہے۔ میری نغمہ سرائی کو کیا سمجھے گا، بلکہ appreciate کرے گا، (اس وقت زبان پر اردو مترادف نہیں آ رہا)
 
Top