تصوف کیا ہے عام بندہ ولی اللہ کیسے بنتا ہے۔۔۔ از روحانی بابا
اشغال و مراقبات کی حقیقت
صوفیہِ کرام نے سلوک کی ترتیب کچھ اس طرح رکھی ہے ۔اول صحبت جو کہ علم و جذبہ وعمل سے تعلق رکھتی ہے شیخ کامل کی صحبت جذبہ بیدار کرتی ہے اور شیخ کے عمل کا اثر مرید کے قلب پر ہوتا ہے اور صحبت ِ شیخ ہی علم کا باعث بنتی ہے پھر شیخ جذبات لطیفہ کے بیدار کرنے کے لیئے طالب کو اذکار جہر اور خفی تعلیم کرتا ہے اور بمطابق علم اس کو عمل پیدا ہونے کے لیئے بھی ارشاد فرماتا ہے ۔کثرت ذکر جہر و خفی کے بعد اشغال متعددہ اور مراقبات و توجہات کثیرہ بتاتا ہے۔
ان سب معاملات کے پس پردہ کیا حقائق کارفرما ہوتے یہ شیخ کامل کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے جب سالک ان پر عمل پیرا ہوتا ہے تو (تو بسبب عمل کرنے کہ یا عامل ہونے کہ)جان جاتا ہے پھر وہ بھی شیخ کامل بن جاتا ہے گویا یہ ایک عملی (راہِ) سلوک ہے جس کو وہی جان پاتا ہے جس نے عمل کیا ہو۔مثلاً ایک شخص صرف پہلوانی کا علم(بذیعہ کتاب اور آج کل بذریعہ C.D. Tutorial) اورTechniques جان کر پہلوان نہیں بن جاتا بلکہ وہ پہلوان اس وقت کہلوائے گاجب تک وہ Exercise نہ کرے اور اکھاڑے میں اُتر کر پہلوانی کے داو پیچ ظاہر نہ کرلے اور آزما نہ لے۔
صوفیانہ علوم بھی ایسے ہی ہیں یہ محض علم کی بات نہیں ہے بلکہ ریاضت سے حاصل ہونے والی صلاحیت ہے مگر اس میں عطاءومو ھبتِ الٰہی و جذبہِ حق کا شامل حال ہونا اشد ضروری ہے
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشند خدائے نہ بخشندہ
ہمارے سامنے ایک انسان ہے جس میں جذبہ ہونا شرط ہے یہ انسان عشق رکھتا ہے عشقِ اعلیٰ علین یا عشقِ اسفل السافلین۔انسان یا تو اشیائے متعددہ دنیا ،مال وزر،زن و فرزندعیش وعشرت ،طعام وشرب ،عزت ومنزلت ،جاہ و حشمت وغیرہ سے عشق کرتا ہے یا ان سے قطع نظر کرکے علائقِ دنیوی سے صرفِ نظر کرکے نور وحضور اور ذاتِ حق یا دوستانِ حق کو اپنی نظر کا مرکز بناتا ہے ۔حسب جذبہ انسان کی قدر متعین ہوتی ہے دراصل قلب میں ایک مقام ” ھم“ ہے جو یا فوق (اوپر)کی طرف ہوتا ہے یا اسفل(نیچے )کی طرف یہی مقام ” ھم“ صوفیاءکرام انسان میں بلند کرکے فوق کی طرف کرتے ہیں ۔تفصیل ” الانسان کامل “ میں دیکھیں۔
جب بقول جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ” معالی الھم “ ہمت کی بلندی پیدا ہوتی ہے تو انسان کو قلبی تحریک من الحق الیٰ الحق حاصل ہوتی ہے جس کی تربیت کے لیئے صوفیاءکرام اس کے عشق کے لیئے زاویہِ تحقیق کرتے ہیں ۔عشق ایک نسبت ہے ۔تحقیق کے لیئے ھمعات(جو کہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی معرکتہ الآراء تصنیف لطیف ہے)میں نسبت عشق و وجد کا عنوان دیکھیں۔
پھر شہود ایک نسبت ہے تحقیق کے لیئے اویسیہ سکینیت اور یاداشت کی نسبت کا عنوان دیکھیںپھر وجود ایک نسبت ہے جس کے لیئے توحید کا عنون دیکھیں۔
تین اقسام کی صلاحتیں ہر سالک میں ان تین قسم کے جذبوں میں سے ایک یا دو یا تینوں شاملِ وجود ہوتے ہیں(مندرجہ ذیل تین صلاحیتوں کی طرف اشارہ ہے یعنی ریاضت،طریقت اورشریعت)۔اب شیخ کامل جو جذبہ طبیعتِ سالک میں زیادہ ساری فی الوجود و الطبع دیکھتا ہے اسی کی طرف سالک کی راہنمائی کرتا ہے اور اشغال و مراقبات اسی جہت سے تعلیم کرتا ہے ۔
اذکار سے تزکیہِ نفس کرتے ہیں اس میں ہر طرح کے اذکار اور اوراد وغیرہ شامل ہیں ۔اشغال سے تصفیہِ قلب کرتے ہیں اس میں ہر طرح کے اشغال شامل ہیں اور مراقبات سے تجلیہ روح کرتے ہیں ۔
ان سب کے جو مل کر اثرات پیدا ہوتے ہیں ان کا نام تخلیہ سر ہے ۔
انسان فکر و نظر کے بہت سے زاویے رکھتا ہے انسانی فکر بہت اعلیٰ شئے ہے یہی ایک زینہ ہے جو بندہ کو حق کو تعالیٰ تک لے جاتا ہے فکرو تخیل کے زاویے کو درست کرنے کا نام تصوف و سلوک ہے۔خیال کو صحیح کرنا کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں
ہستی کے مت فریب میں اجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
روحانی لطافت کے ذرائع میں دراصل فکرصحیح کا خاص کردار ومقام ہے انسان اگر جذبہ درست کرے اورعملی طور پر اپنا کردار درست کرے اور مثبت طرزِ فکر اختیار کرے نوعِ انسان کے لیئے ضرر رساں نہ ہو تو فکری اصلاح کے لیئے بعض اشغال سریع الاثر ثابت ہوتے ہیں ۔
ان اشغال کا اصول کیا ہے اور یہ کیوں اثر کرتے ہیں ؟
ان کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟
یہ کیوں کرنے چاہیئے ہیں؟
ان کا ماحصل کیا ہے؟
یہ تمام سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات میں مضمون ھٰذا میں تفصیلاً اور گاہ اِجمالاً لکھ رہا ہوں تاکہ سالک خود اپنی استعداد کو دیکھتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہوکر نام نہاد بزرگانِ دین کے چنگل سے نکل سکے۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
اللہ تبارک تعالیٰ قرآنِ حکیم میں فرماتے ہیں ۔ فَاِ ذَا سَوَّیتُہ وَ نَفَختُ فِیہِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَہ سٰجِِدِینَ(ص۔۲۷)اس میں نفخ (ہوا ) یا سانس کو روح یعنی ریح یا ریحان سے تشبیہ دی گئی ہے۔سانس حرکت اور زندگی کی علامت ہے یعنی جسمِ مادی ذا ت ترابی میں جب سانس اور ہوا سے قوت تحریک پیدا ہوجائے یعنی قوائے عالم اسے سجدہ کرنا۔یعنی حرکت میں قوت تسخیر ہے ۔آگے چل کر قرآن حکیم میں آتا ہے وَیَسَلُونَکَ عَنِ الرُّ وحِ ۔ اوریہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ روح کیا ہے ۔قُلِ الرُّ وحُ مِن اَمرِ رَبِی آپ ﷺ کہہ دیجئے(کہ روح میرے رب کے امر سے ہے)۔یہاں روح کو امر فرمایا گیا یہ امر کیا ہے سورۃ یٰسین میں امر کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے انما امرۃ اذا اراد شئی ان یقول لہ کن فیکون۔اس کا امر ایسا ہے کہ جس شئے کا ارادہ کرتا ہے اس سے کہتا ہے حرکت میں آ پس وہ حرکت میں آجاتی ہے ۔
1۔روح 2۔امر 3۔ارادہ 4۔حرکت
اب ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ چاروں ارکان کا اعتدال دراصل روح کے مظاہر ہیں ۔روح امر میں (مضمر)ہے اور امر ارادہ میں (مضمر)ہے اور ارادہ کا ظہور حرکت میں ہے ۔ہمارے ہاتھ جو چیز لگی ہے وہ حرکت ہے اسی حرکت کے علم کو اگر ہم دنیوی شعبہ ہائے زندگی میں اعتدال پر لاتے ہیں تو انسان کی زندگی کے مختلف شعبے بنتے ہیں اور اگر ہم روحانیت میں حرکت کو تسخیر کرتے ہیں تو اللہ کریم تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔
حرکت دو طرح کی ہے ایک مادی ایک روحانی مادی حرکت کا تعلق تو ذاتِ ترابی (یعنی)جسم سے ہے اور روحانی حرکت کا تعلق اسی ذات ِترابی میں جو ذاتِ روحانی(پوشیدہ) ہے اس سے ہے۔
مادی (حرکت ) ذاتِ ترابی کی حرکت ہے (اس حرکت سے )امور دنیوی کی مختلف انواع ،صنعت و حرفت اور خصائص و خصائل اور اوصافِ انسانیہ ترتیب پاتے ہیں۔
اور روحانی حرکت سے معرفت و حقائق و معارف تجلیاتِ ذات و صفات تک رسائی حاصل ہوتی ہے ۔اب ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ہمارا موضوع تھا اشغال و مراقبات، دراصل جب ذاتِ ترابی سکون میں ہوتی ہے تو ذات روحانی بیدارہوجاتی ہے لِھٰذا جس قدر اوراد و اشغال اور مراقبات وضع ہوئے ہیں(جیسے اہل ہنود و بدھ مذہب میں کنڈال شکتی کو بیدار کرنا یا چکراز وغیرہ) وہ ذاتِ ترابی(ذات ترابی یعنی گوشت پوست کا بنا ہوا بدن) کو سکون دینے کے لیئے ہیں تاکہ ذاتِ روحانی بیدار ہوجائے اور حرکت میں آجائے ۔عام حالات میںذاتِ روحانی نزول کرتی رہتی ہے اور حرکات و سکنات ِ ذاتِ مادی ترابی کاسبب بنتی ہے لیکن جیسے ہی یہ مٹی کی ذات سکون میں آتی ہے اور ظاہری و باطنی حرکات کا بوجھ ذاتِ ترابی سے اتارتی ہے تو ذاتِ روحانی صعود کرکے اعلیٰ علیین جو کہ اس کا اصل مقام ہے میں پہنچ جاتی ہے۔جو شغل کیا جاتا ہے یا مراقبہ کیا جاتا ہے تو اس کا مقصد متعلقہ حواسِ ظاہری یا باطنی کو حرکت سے سکون کی طرف لانا ہے جیسے ہی ہم کسی حِس کو حرکت دیتے ہیں تو روح بیدار ہوکر ظاہر کی طرف رجوع کرتی ہے اور جب متعلقہ حِسِ ظاہری وباطنی حرکت سے سکون کی طرف لے جاتے ہیں تو اس میں باطن کے احکام بیدار ہوجاتے ہیں۔اور وہ اپنے اصل موطن کی طرف صعود کرنے لگتی ہے اور ذات سے قریب ہوجاتی ہے جسے ذاتِ حق کہا جاتا ہے روح اور ذاتِ حق میں فرق ہے وہ یہ کہ ذات میں حرکت اور سریان نہیں مگر روح میں حرکت اور سریان ہے ۔
اشغال میں حواسِ خمسہ ظاہری کی تہذیب کی جاتی ہے اور مراقبات میں حواسِ خمسہ باطنی کی تہذیب کرتے ہیں۔
حواسِ خمسہ ظاہری کے باطنی پہلو کا نام حواسِ خمسہ باطنی ہے ہر حِس کا اپنا ایک اثر ہے اور لذت ہے ۔
ذاتِ ترابی میں تمام حرکات ذاتِ روحانی اورارادہ کی ہیں اور ان کا اظہار مختلف حسیات علم ،ارادہ، قدرت، سمع ،بصر اورحیات کی صورت میں ہوتا رہتا ہے ۔
جیسے نگاہ حرکت میں
اس میں تمام تر حرکت روح کی وجہ سے ہے روح نگاہ میں آکر حرکت کی صورت میں اپنا اظہار کررہی ہے اسکا اپنا منشاءہے کہ ذاتِ ترابی کو اس حرکت کی وجہ سے عالم ظاہر سے آشنا کررہی ہے۔
جیسے ہی ہم نگاہ کو ہر زاویہ سے ساکن کرکے ایک نقطہ پر مرکوز کرتے ہیں تو حرکت سے سکون میں آتے ہیں نگاہ ذات کی بہت سی قوتوں سے مملو(بھری ہوئی) ہوجاتی ہے ۔آپ نے عام حالات میںبھی دیکھا ہوگا کہ جب آپ اِدھر اُدھر کے عام حالات کے علاوہ کبھی ایک دم خاص بات پر نظر ڈالتے ہیں (مثلاً روڈ ایسکسڈینٹ یا کسی واردات یا کسی قتل کے واقعے کا عینی گواہ ہونا)نظر ساکت ہوجاتی ہے ایسے میں جو واقعہ یا شئے نگاہ دیکھتی ہے اس کو اپنے پیچھے چھپے ہوئے باطنی محافظ خانوں میں محفوظ کرلیتی ہے۔
تو علم ہوا کہ نگاہ کا کام ہے دیکھنا حرکت میں ہو یا سکون میں حرکت کرتے ہوئے جب دیکھتی ہے تو عمومی نگاہ ہوتی ہے اور جب ساکن ہوکر دیکھتی ہے تو خصوصی نگاہ بن جاتی ہے حرکت مادہ کے زیادہ قریب ہونے سے ہوتی ہے اور سکون ذات سے زیادہ قرب کی بنا پر ہوتی ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا علمائے مشرق نگاہ کو کسی ایک زاویہ و نقطہ پر مرکوز کرکے کیسے کیسے کارہائے عجائب و غرائب اور خرق عادات پیدا کرلیتے ہیں ۔حرکت سے سکون کی طرف آنا گویا قوتوں کا خزانہ لیکر آتا ہے ایسے ہی تمام اشغال میں حرکتِ جسمانی کو کم کرنے یا نہ کرنے کا کہا جاتا ہے تاکہ عالمِ مثال سے ربط میں آسانی پیدا ہو اور انسان مادی تحریک کو روک کر روح کی اصل کے ساتھ متصل ہو۔
پورے عالمِ ظاہری و باطنی میں حرکت اور سکون کے قانون کا احاطہ ہے خواہ ظاہری ایجادات ،مثلاً بجلی،ٹیلی فون ،ریڈیو،ٹیلیویژن وغیرہ ہوں یا باطنی مثلاً وہم ،خیال،ارادہ،تصورو حیات وغیرہ۔
سب میں حرکت و سکون ہی روح رواں ہے۔
حرکت گرمی اورسکون سردی ۔طب و علم الابدان میں بھی عضو کی حرکت اور سکون کو ہی ملحوظ رکھ کر علاج کیا جاتا ہے مثلاً تحریک جگر دل و دماغ سے ہی علاج ممکن ہے(اس پر ہم نے ایک الگ تحقیق کی ہے جس کا اگر اصرار کیا گیا تو ضرور بالضرور پیش کریں گے) تحریک اصل ہے جہاں تحریک ہوگی وہاں قریب تحلیل پیداہوگی اور جہاں سے دور ہوگی وہاں سکون پیدا کرے گی اصل تحریک ہے حرکت خواہ کتنی ہی خفیف ہو ردِ عمل پیدا کرتی ہے بلکہ جس قدر لطیف ہوتی چلی جاتی ہے ردعمل زیادہ شدید پیدا کرتی چلی جاتی ہے(ہارپ ٹیکنالوجی کی روح رواں بھی Extremely Low Frequency Waves ہیں)۔جیسے ارادہ و خیال کی حرکت آخر یہ جتنے بھی مظاہر مادی دنیا میں ایجادات و تعمیرات وغیرہ کے موجود ہیں ارادہ و خیال کے ہی مظاہر ہیں اسی کی تحریک ہے۔حرکت جتنی مادی ہوگی تصرف اتنا ہی محدود اورکمزور ہوگا اور جتنی روحانی و لطیف تر ہوگی تصرف اتنا ہی شدید اور قوی ہوگا ہر مادی شئے ظاہری وباطنی دونوں تحریک رکھتی ہے ۔ہومیو پیتھی علاج بھی ادویہ کی باطنی تحریکات پر مشتمل ہے اور طب اشیاءو ادویہ جڑی بوٹیوں وغیرہ کی ظاہری خاصیتوں یعنی تحریک ظاہری کا علم ہے ۔جس طرح ادویہ ظاہری اور باطنی تحریک رکھتی ہیں اسی طرح انسان بھی ظاہری وباطنی تحریک رکھتا ہے ۔جیسا کہ ہم نے نگاہ کا قانون بیان کیا کہ جب نگاہ کی ظاہری حرکت کو ہم ایک نقطہ پر مرکوز کرکے بند کردیتے ہیں تو اس کی خاصیت مسمریزم اور ہپناٹنزم اور علمِ الاشراق جیسی قوتوں کا سرچشمہ بن جاتی ہے ۔ایسے ہی باطنی نگاہ یعنی ” توجہ “ کو جب ہم ایک مرکز پر نقطہِ روشن یا نقطہِ سیاہ وہمی پر مرکوز کرتے ہیں تو نگاہ بیدار ہو کر عالم باطنی کے احکام صادر ہونے کی وجہ سے عالمِ روحانی باطنی کے مشاہدہ کے قابل ہوجاتی ہے۔
اس مقصد کے لیئے آنکھیں بند کرکے جو سیاہ چادر نظر آتی ہے اس پر نگاہِ توجہ سے ایک نقطہِ خیالی یا نقطہِ روشن یعنی اسم ” اللّٰہ “ ذات کا خیال کرتے ہیں یا بعض صوفیاءکرام کانوں پر نگاہ توجہ کرتے ہیں اور وہم خیال و ادراک کو ایک صوتِ سرمدی(اہل ہند شغل انہد کہتے ہیں اور تکنیکی نام صلصلۃ الجرس ہے) پر مرکوز کرکے مختلف آوازوں کی تحریک کو ختم کرکے ایک آواز کی حرکت متصل و منفصل پر لگاتے ہیں جس سے انسان کی سماعت بیدار ہوکر آوازِ کن فیکون یعنی آواز حق تک الہام الٰہی تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔
یا بعض نگاہِ ظاہری کے لیئے شغلِ "محموداً" یا "نصیرا" کرتے ہیں دراصل جیسے ہی ارادہ میں یکسوئی آتی ہے تو شغل میں یا مراقبہ میں کامیابی ہوجاتی ہے ۔دراصل ارادہ چونکہ روح یا حرکت کا محل و ظروف ہے۔ اس لیئے انسان ارادہ کو کسی ایک نقطہِ ظاہری یا فکر باطنی پر مرکوز کرکے اس کی حرکتِ کثرت کو روک دے اور وحدت پیدا کرے تو انسان ذاتِ حق کے زیادہ قریب ہوجائے گا۔
درحقیقت ہم جس طرف متوجہ ہوتے ہیں ارادہ اس طرف حرکت شروع کردیتا ہے اورظاہری و باطنی تمام حواس کو اسی طرف تحریک دینا شروع کردیتا ہےاورادراک اور وہم و خیال کو اپنا اپنا کام کرنے کے لیئے کہتا ہے اور متعلقہ حواس کو حرکت میں لے آتا ہے ۔دراصل ارادہ ذات ہے اور صورت و ہیکلِ انسانیہ میں مظہر ذات ہے ۔
انسان جب ایک فکر و خیال پر مطمئن ہوجاتا ہے اور دل و جان سے اس کو تسلیم کرلیتا ہے اور صمیم قلب سے اس کو قبول کرلیتا ہے توایسے تفکر پر ارادہ اور نفس ناطقہِ انسانیہ اس رنگ یعنی اس فکر کےرنگ کو قبول کرلیتا ہے ۔اب یہ فکر الٰہی ہو یعنی اللہ کا کوئی رنگ ہو یا مخلوق کا کوئی رنگ ۔جب انسان اس رنگ کو قبول کرلیتا ہے تو متعلقہ فکر غالب ہوجاتی ہے اور اپنے احکام سے پوری طرح ظاہر ہوجاتی ہے ۔فکر صحیح ہی وہ قوت ہے جو صاحبِ مراقبہ کی معراج ہے ۔فکر کو درست کرنا ہی اصل بات ہے قوتِ خیال ،وہم وغیرہ تو اسی کے مناسبت سے حرکت کرتے ہیں۔فکر و نظر کے دونوں زاویوں میں جب ایک توازن قائم ہوجاتا ہے تو مشاہدہ کھل جاتا ہے اگر نظر کے زاویے تو درست ہوں لیکن فکر کے زاویے تاریک ہوں تو مشاہدہ جہل تو ہوسکتا ہےیعنی کہ شیطان اچک لے مگر درست صراطِ مستقیم کی طرف مشاہدہ کھلنا ممکن نہیں ہے۔اسی لیئے تو کتاب اللہ کی آخری اور حتمی شکل(Last and Final Version)جس کو قران کہتے ہیں میں اِسی بات کو بالکل شروع میں کہا گیا ہے ۔الم (1)ذَلِکَ الکِتَابُ لاَ رَیبَ فِیہِ ہُدًی لِّلمُتَّقِین۔اس کتاب میں کوئی شک نہیں اور ہدایت ہے اہل تقویٰ کے لیے۔
مثلاً اسمِ اللہ اگر نظرکے زاویے درست کرکے آپ تصور کررہے ہیں تو جب تک فکر یعنی خیال کو اللہ کے متعلق درست نہیں کریں گے اور تصورِ اسم ذات اللہ کے ساتھ ساتھ قوتِ ” فکریہ “ اپنے زاویے درست نہیں کرے گی تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اسم اللہ اپنی باطنی شان سے بندہ میں جلوہ گری کرے یا مسمیٰ سے تعلق کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا
جب تک فکر و نظر کے زاویوں میں توازن نہیں ہوگا اور ہم آہنگی نہیں ہوگی کسی قسم کا معاملہ روحانی بیدارنہیں ہوسکتا ۔جب اس معاملے کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا تو بات کھل کر سامنے آجائے گی۔
اس میں بہت سے عوامل بروئے کار لائے جاتے ہیں جیسے استغراق۔ گہرے استغراق کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ یقظہ(نیند کا خمار۔یا نیند اور بیداری کی درمیانی شکل ) کی کیفیت رکھنا اور
طاری کرنا بہت ضروری ہے ۔
دراصل انسان جس کو بیدارای سمجھتا ہے وہ نیند ہے اور جو نیند ہے وہ ہلکی بیداری ہے اور جو موت ہے وہ مکمل بیداری ہے النّاس نیامُُ فاذا ماتُو فانتبھو۔ لوگ سوئے ہیں جب مریں گے تو جاگ جائیں گے اس حال کو مد نظر رکھیں۔
انسان اپنی اسی بیداری کی کیفیت میں نیند کے حواس اگر لے آئے تو بیدار ہوجائے گا ۔اسی مقصد کے لیئے اولیاءکرام شب بیدار رہے ۔شب بیداری کے سلسلہ میں ہر دین کے لوگ مختلف ریاضات شاقہ کرتے ہیں۔ جس کو ہم بیداری کہتے ہیں دراصل یہ لطیفہِ قلب کی حالت ہے چونکہ ہم اس کو بیداری سمجھتے ہیں اس لیئے ہم کواسی حالت میں کچھ نظرآئے تواس کوحقیقت کہتے ہیں اورجواس حالت کے علاوہ نظر آئے اسکو خواب ،وہم اورخیال کہتے ہیں صوفیاءکرام نے اسی حالت قلبی کی تہذیب کے لیئے تصفیہِ قلب کر کےاورغیر انسانی خواہشات کو نکال کرتہذیب کی ہے لیکن اس کی صفائی کے بہت سے طریقے ہیں ۔ایک طریقہ یہ ہے کہ نیند اور بیداری کی مختلف حالتوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو
ہمیں چند کیفیات حاصل ہوتی ہیں۔
مثلاً بیداری ،خوشی یا غمی کی کیفیت ہلکی نیند یعنی اونگھ کی کیفیت ،نیند کی کیفیت اور گہری نیند کی کیفیت پھر گہری نیند کے بعد ہلکی نیند کی کیفیت اور نیند کے بعد جب آنکھ ابھی نہیں کھلی ہوئی ہوتی،خمار کیفیت ۔ان مختلف کیفیتوں اور حالتوں کا نقشہ پیش خدمت ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمیں دو طرح کی زندگی کا شعوردیا گیا ہے اورشریعت مطہرہ کا تقاضہ ہے کہ انسان اس بات پر ایمان لے آئے۔ملاحظہ فرمائیے:
ایمان مفصل: اٰمَنتُ باللّٰہ و ملآئِکَتہ و کتبہ و رُسُلہ و الیوم الاٰخر والقدر خیرہ و شرہ من اللّٰہ تعالیٰ والبعث بعد الموت۔(میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے سب فرشتوں پر اور اسکی سب کتابوں پر اور اس کے سب رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر پر کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر)
جس طرح ایک ظاہری زندگی ہے بالکل اسی ہی طرح ایک باطنی زندگی بیداری کے بعد شروع ہوتی ہے ۔اسی طرح باطنی زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے ۔گویا اصل حیثیت بیداری اور موت کو حاصل ہے اور زندگی کی تمام تر حرکات بعد میں شروع ہوتی ہیں ۔گویا روح کا کام حرکت ہے یہ بیداری کے بعد اور موت کے بعد جاری رہے گی۔
روح جسم کے بغیر بھی حرکت کرسکتی ہے ۔انسان گرزندگی میں موت جیسی حالت کا تصور کرے تو وہ نیند کو نظرِ تفکر سے دیکھے ۔اس کی ساری مشابہت موت کی طرح ہے ۔سوائے ایک دو امتیازی خصوصیات کے سب حرکاتِ نیند ،موت سے مشابہ اور قریب تر ہیں انسان اس میں ایک زندگی کی سی تحریک خواب میں دیکھتا ہے خواب کی زندگی سے ہرانسان بخوبی متعارف ہے خواہ آپ اسے ایک خیالی بات کہیں مگر خواب میں انسان زندگی کے متعدد سال گزارتا ہے ۔جب انسان سو جاتا ہے تو روح اپنی زندگی کی حرکات کو جاری رکھتی ہے اور خواب میں منتقل کردیتی ہے ۔پھر انسان چلتا پھرتا ہے اور کھاتا پیتا ہے۔اگر کوئی کہے کہ خواب کی باتوں کا تو ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا تو ہم کہتے ہیں کہ زندگی کی باتوں کا بھی انسان کو پتہ نہیں چلتا جب تک انسان متوجہ نہیں ہوتا اور حاضر ذھن نہیں ہوتا ہے۔اپنے شعور کو حرکت دےکر ہی حرکت واقفیت پیدا کی جاسکتی ہے ۔جب ذھن بے خیالی کا شکار ہوگا تو حرکت خواہ بیداری میں ہو خواہ خواب میں آپ حرکتِ روحی سے واقف نہیں ہوسکیں گے۔مشاہدہ کا اصول یہیں سے وضع ہوتا ہے کہ انسان بیداری یا خواب سے مشاہدہ کیسے کرسکتا ہے توجہ کو بیدار کرکے
آپ مشاہدہ کے مقام پر فائز ہوسکتے ہیں ۔اب رہا یہ معاملہ کہ توجہ کو بیدار کیسے کیا جائے ۔
تو اس کے لیئے ذرا غور کریں اور دیکھیں کہ بیداری یا نیند اب چونکہ موت تو ہمیں مرنے کے بعد حاصل ہوگی۔بیداری میں موت کی بہن یعنی نیند کو موت سمجھ کر موت کے بعد کی زندگی کا تجزیہ کریں ۔نیند جب گہری اور دائمی ہوتی ہے تو موت بن جاتی ہے (النوم اخ الموت) یا (موتو قبل انتموتو) اسی لیئے فرمایا گیا کہ موت نیند کی بہن ہے یا مرنے سے قبل مر جاو۔جیسا کہ نقشہ سے ظاہر ہے کہ استغراق کی کیفیت کے مختلف مدارج ہیں بیداری ایک کیفیت ہے جو مثلِ نور ہے دراصل
بیداری ہی ایک نور ہے اور باقی کیفیات ظلمت یا سیاہ نور ہے ۔
مثلاً بیداری کے بعد حواس یقظہ یعنی خمارِ نیند اونگھ کا شکار ہوئے ہیں اس وقت بیداری کا نور اونگھ جسے سنۃ عربی میں کہتے ہیں منتقل ہوجاتا ہے پھر بیداری کا نور ہلکی نیند میں چلا جاتاہے پھر گہری نیند میں عوام الناس کا سفر تو یہاں تک پہنچ کر واپسی کا سفر اختیار کرلیتا ہے ۔
لیکن خواص کا سفر گہری نیند کے موت جیسے استغراق میں چلا جاتا ہے پھر موت اور بعد ازاں موت سے بھاری اور گہرے استغراق میں چلا جاتا ہے دراصل عام لوگ موت جیسے استغراق کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ درجہ بدرجہ چل کر استغراق کی منزلیں عبور نہیں کرتے لیکن جو لوگ درجہ بدرجہ بتدریج منازل استغراق قطع کرتے ہیں وہ اس قسم کے استغراق میں زندہ رہتے ہیں بلکہ موت کے بعد بھی زندہ ہی رہتے ہیں ان پر معنوی موت واقع ہوتی ہے دراصل وہ قبور میں زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں۔