نظام الدین
محفلین
اماں کو میری بات ٹھیک سے سمجھ آگئی۔ اس نے اپنا چہرہ میری طرف کئے بغیر نئی روٹی بیلتے ہوئے پوچھا۔ ’’تو اپنی کتابوں میں کیا پیش کرے گا؟‘‘
میں نے تڑپ کر کہا۔ ’’میں سچ لکھوں گا اماں، اور سچ کا پرچار کروں گا۔ لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ہیں اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں۔ میں انہیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا ۔۔۔۔۔۔‘‘
میری ماں فکرمند سی ہوگئی۔ اس نے بڑی دردمندی سے مجھے غور سے دیکھا اور کوئلوں پر پڑی ہوئی روٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تونے سچ بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولنا، دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا۔ ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
(اشفاق احمد بابا جی کی کتاب ’’صبحانے فسانے‘‘ کا ایک اقتباس)
میں نے تڑپ کر کہا۔ ’’میں سچ لکھوں گا اماں، اور سچ کا پرچار کروں گا۔ لوگ سچ کہنے سے ڈرتے ہیں اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں۔ میں انہیں سچ سناؤں گا اور سچ کی تلقین کروں گا ۔۔۔۔۔۔‘‘
میری ماں فکرمند سی ہوگئی۔ اس نے بڑی دردمندی سے مجھے غور سے دیکھا اور کوئلوں پر پڑی ہوئی روٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تونے سچ بولنا ہے تو اپنے بارے میں بولنا، دوسرے لوگوں کی بابت سچ بول کر ان کی زندگی عذاب میں نہ ڈال دینا۔ ایسا فعل جھوٹ سے بھی برا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
(اشفاق احمد بابا جی کی کتاب ’’صبحانے فسانے‘‘ کا ایک اقتباس)