منیر الدین احمد
اشفاق احمد ۔اردو افسانے کا سامری
اشفاق احمد اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ انہوں نے نثر کی دوسری اصناف میں بھی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں۔مگر میں اس مضمون میں ان کو بطور ایک ایسے افسانہ نگارکے پیش کروں گا، جس نے نت نئے تجربات کئے ہیں اور اس صنف کو نئی راہیں دکھائی ہیں۔اس چیز کاجائزہ اس لئے بھی لیا جانا چاہیئے کہ اردو ادب میں افسانہ ایک نسبتاً نئی صنف ہے،جس کی عمر ایک سو سال سے زیادہ نہیں ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس عرصے میں اس نے حیرت انگیز طور پر ترقی کی ہے۔اس دوران میں جن ادیبوں نے اسالیب نو پیدا کرنے میںپہل کار کا کردار ادا کیا ہے ، ان میں اشفاق احمد کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان کے افسانو ں کا تدریجی مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ اکثر و بیشتر اپنے ہمعصروں سے دو قدم آگے نظر آتے ہیں۔
میں آج سے قریباً نصف صدی قبل پاکستان کو خیر باد کہہ کر جرمنی چلا گیا تھا۔ اس وقت تک اشفاق احمدکا نام اردو ادیبوں کے ہراول دستے میں شمار ہونے لگا تھا۔ میں نے ان کے متعدد افسانے پڑھے تھے۔ مگرکوئی افسانہ میری یادداشت میں محفوظ نہیں تھا۔ جب برسوں کے بعد صدیقہ بیگم نے اپنے جرمنی کے سفر کے دوران میری کتاب دیکھی، جس میں اردو افسانوں کا انتخاب جرمن زبان میں چھاپا گیا تھا، تو انہوں نے پوچھا کہ اس میں ماموں اشفاق احمد کا کوئی افسانہ کیوں نہیں ہے ۔ مجھے شرمندگی سے تسلیم کرنا پڑا کہ میرے پاس ان کے افسانوں کا کوئی مجموعہ نہیں تھا۔وگرنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کا افسانہ کتاب میں شامل نہ ہوتا۔ میں ان کو اردو افسانہ نگاروں میں بہت ممتاز حیثیت کا حامل مانتا تھا۔ صدیقہ بیگم نے لاہور واپس جا کر اشفاق احمد کو تحریک کی کہ وہ مجھے اپنے افسانوں کا ایک آدھ مجموعہ بھیج دیں۔ چنانچہ اس طرح ایک روز مجھے ان کی کتاب" ایک محبت سو افسانے" کا پارسل ملا۔ اس طرح ہمارا رابطہ قائم ہوا۔ البتہ ان کے ساتھ میری بالمشافہ ملاقات برسوں کے بعد جا کرہوئی۔
موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے ، تو اشفاق احمد کی نسل کے ادیبوں کے لئے تقسیم ملک ایک ایسا سانحہ تھا جو لمبے عرصے تک ان کی تخلیقی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ چنانچہ ان کی کتاب " ایک محبت سو افسانے" کے تیرہ افسانوں میں سے چھ کا موضوع یہی ہے۔ تاہم اسی موضوع پر لکھا ہواجو افسانہ ان کو اردو ادب میں ایک ممتاز مقام دلانے کا باعث بنا، وہ اس کتاب میں شامل نہیں ہے۔ میرا اشارہ "گڈریا" کی طرف ہے، جس کا جائزہ اس مضمون میںآگے چل کر لیا جائے گا۔ " ایک محبت سو افسانے" میں شامل ہونے والے جن افسانوں کا موضوع تقسیم ملک کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال ہے، ان کے عنوان یہ ہیں ۔ تلاش۔ سنگ دل۔ مسکن۔بابا۔پناہیں۔امی۔
ان میں " تلاش " ترتیب میں سب سے پہلے آتا ہے ۔ یہی ایک افسانہ نہیں ، اس مجموعے کے دوسرے افسانوں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس زمانے کی یادگار ہیں، جب اردو افسانہ جذبات کی دنیا میں ڈوبا ہوا تھا۔ البتہ یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ کہانی کا تعلق ہمیشہ جذبات سے ہوتا ہے ، جن کی عدم موجودگی میں کہانی محض رپورتاژ بن کر رہ جاتی ہے ۔اس لئے میں کہانی میں جذبات کے خلاف نہیں ہوں۔ البتہ جب افسانہ نگار جذباتی پن کو اپنی کہانی کے لئے بطور بیساکھی کے استعمال کرنے لگتا ہے، تو کہانی اپنی اصلیت سے دور ہو جاتی ہے اور اس میں مصنوعی پن در آتا ہے۔ مجھے ان کی کہانی" تلاش" اچھی لگی، مگر اس کا اختتام نہ صرف بے حد جذباتی تھا ، بلکہ ایک حد تک غیر ضروری تھا۔ یہ کہانی اس زمانے میں لکھی گئی تھی، جب قاری کو دل پسیجنے والی باتیں اچھی لگتی تھیں۔ احسان ایک چھوٹابچہ ہے، جو ایک کتے کے پلے کو تقسیم کے وقت ہندوستان سے اٹھا لایا ہے۔ وہ یہ تصور ہی نہیں کر سکتا کہ پلے کو اس کی قسمت پر چھوڑ دیا جائے۔کہانی کے اختتام پر احسان اپنے کتے جیکی کی تلا ش میںشام کے اندھیرے میں گھر سے نکل جاتا ہے اور واپس نہیں لوٹتا۔ اس کہانی کا اختتام مختلف ہو سکتا تھا اور مجھے یقین ہے کہ اشفاق احمد نے یہی افسانہ دس بیس برس بعد لکھتا ہوتا، تو وہ اسے کسی اور رنگ میں ختم کرتے ۔ پھریہ بھی ہے کہ افسانے میں تقسیم ملک کا موضوع بالکل پس پشت چلا جاتا ہے ۔مگر اس چیز کو افسانے کی کمزوری نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس موضوع کے ہزاروں پرتوں میں سے ایک پرت کو اس افسانے میں ہمارے سامنے بہت فنکاری سے رکھا گیا ہے ۔ جس کے سبب یہ افسانہ ہمیشہ دلچسپی سے پڑھا جاتا رہے گا۔
اس مجموعے کی دوسری قابل ذکر کہانی " پناہیں" ہے۔ اس کا تعلق بھی تقسیم ملک سے ہے، مگر یہ موضوع مرکزی حیثیت نہیں رکھتا، بلکہ قاری کو آخر تک اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ وہ اس قیامت صغریٰ کی تفصیل پڑھ رہا ہے، جس میں سے گزر کر ملک آزاد ہوا تھا۔ افسانے کے ابتداءمیں حملے کا ذکر آتا ہے، مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ کون حملہ کرتا ہے اور کیوں۔ تاہم مشاق قاری سمجھ جاتا ہے کہ یہاں پر مسلمانوں کی آبادی پر حملے کی روداد سنائی جا رہی ہے۔ پھر اس کے بعد کہانی گھریلو ناچاقی کی داستان سناتی ہے، جو کسی بھی فیملی میں پیش آ سکتی ہے ۔ افسانہ نگار نہایت سلیقے کے ساتھ جذباتی ہوئے بغیر ہمیں ایک شخص کی کہانی سناتا ہے ، جو ایک مختلف زندگی گزار سکتا تھا، مگر ایسا نہ کر سکا۔ درحقیقت یہ کہانی کسی بھی فیملی کو تقسیم ملک کے بغیر بھی پیش آ سکتی تھی۔ اس کہانی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک شخص کی زندگی کا المیہ بہت سلیقے اور فنکاری کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ افسانہ نگار اس میں دخل اندازی نہیں کرتا، مگرقدم قدم پر یہ احساس میرا پیچھا نہیں چھوڑتا کہ اسے علم ہے کہ اس المیے کو کیسے ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ مگر اس کی ادیبانہ غیر جانبداری اس کا ہاتھ روکے ہوئے ہے۔
یہ بات تیسری کہانی " امی " کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، جس میں مسعود کی ملاقات اپنے بچپن کے دوست کی ماں سے ہوتی ہے اور وہ اس کے پاس جا کر رہنے لگتا ہے۔ مگر بجائے احسان مندی کے جذبات دکھانے کے وہ اس گھر سے پیسے چراتا اور جوا کھیلتا ہے۔ آخر میں وہ اپنے دوست کے لئے رقم پیدا کرنے کی خاطر بھاری رقم چرا کر جوا کھیلتا ہے اور بہت سا مال جیت لیتا ہے، مگر اس کے جواری ساتھی اس کو مار ڈالتے ہیں۔یہاں پر پہنچ کر قاری جان جاتا ہے کہ یہ کہانی بھی جذباتیت کا شکار ہے۔ دوسری بات اس کے بار ے میں یہ کہی جا سکتی ہے کہ اس کا تعلق تقسیم ملک سے نہیں ہے بلکہ ایک شخص کی اندرونی کجی اور بگڑی ہوئی نفسیات سے ہے ۔
چوتھی قابل ذکر کہانی " بابا" ہے، جس میں ایک دیہاتی فیملی کے سپوت کی داستان سنائی جا رہی ہے، جو انگلستان سے نہ صرف میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے لوٹتا ہے ، بلکہ اپنے ساتھ ایلن کو بھی لاتا ہے ، جس سے اس کا ایک بیٹا مسعود ہے۔ وہ اپنی زمینوں پر نئے طریق سے کاشتکاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب ہے۔ اتفاق سے ایک انگریز ایکس۔ای۔این کی کار اس کے گاوں کے قریب خراب ہو جاتی ہے اور اس کو پتا چلتا ہے کہ یہاں پر ایک انگلینڈ پلٹ ڈاکٹر اپنا وقت کاشتکاری میں صرف کر رہا ہے۔ اس کو ایک ایمرجنسی کے تحت فوج میں بلا لیا جاتا ہے اور اس کی غیر حاضری میں نہر کے ٹوٹ جانے سے سیلاب آتا ہے اور سارا گاوں اس کی زد میں آ جاتا ہے۔ ایلن حمل سے ہے ۔ اس کے باوجود وہ اپنی جان پر کھیل کربچھڑی کو بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔ پھر وہ خود موت کے منہ میں پہنچ جاتی ہے اور اس کا خسر شہر سے کسی قسم کی طبی امداد حاصل نہیں کر سکتااور وہ اس کی غیر حاضر ی میں مر جاتی ہے۔ یہاں پر پہنچ کر اچانک تقسیم ملک کے سلسلے میں ہونے والے فسادات کا ذکر آتا ہے ، جن کی زد میں آ کر "بابا" مارا جاتا ہے اور پوتا مسعود اکیلا رہ جاتا ہے ۔ یہ کہانی بھی، جو دراصل بہت مہارت سے سنائی جا رہی تھی، اپنے جذباتی اختتام کے باعث راستے سے بھٹک جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ افسانہ نگار کو کہانی کے اختتام کا ڈھنگ نہیں سوجھ رہا تھا، اس لئے اس نے تقسیم ملک کے وقت ہونے والے فسادات کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے، تو اس افسانے کو تقسیم ملک کے سلسلے میں لکھے جانے والے ادب میں نہیں رکھا جا سکتا۔
اس کے مقابلے میں اس مجموعے کا ایک شاہکار افسانہ تنقید نگاروں کی نظر کرم سے محروم رہا ہے۔ میراا شارہ " سنگ دل" کی طرف ہے۔ اس کہانی میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں، جو اس کو ممتاز کرنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ کہانی کئی بار سنائی جا چکی ہے۔ مگر اشفاق احمد نے اس میں جو رنگ بھر دیا ہے ، وہ بالکل انوکھا ہے۔ پھر کہانی کا کردار"پمی "اپنی انسان دوستی کی بنا پر یادگار بن جاتا ہے ۔ کہانی کا راوی حکومت پاکستان کی طرف سے مغویہ عورتوں کی باز یابی کے لئے ہندوستان بھیجا جاتا ہے،جہاں پر وہ اپنے آبائی گاᄊں میں جا کر ٹھیرتا ہے ۔ وہاں پر اس کے والد کے دوست پتا جی انسپکٹر آف پولیس ہیں۔ ان کے تعلقات ان کے ساتھ اور ان کی بیٹی پمی کے ساتھ دوستانہ ہیں۔ جب وہ ایک لڑکی کے والدین کی طرف سے آنے والے ایک خط پر کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہتا، تو اس بات کو پمی جان جاتی ہے اور اپنی جان پر کھیلتے ہوئے اس لڑکی کی بازیابی کا کارنامہ سرانجام دیتی ہے۔ وہ بدلے میں صرف یہ چاہتی ہے کہ پاکستان سے ایسی ہی مغویہ لڑکیاںہندوستان بھیجی جائیں ۔ افسانے کا یہ اختتام بھی اگرچہ جذباتی ہے، مگر یہاں پر قاری کو یہ چیز بری نہیں لگتی۔ افسانہ نگار پمی کے کردار کو بہت غیر محسوس طریق سے آگے لاتا ہے ۔ وہ تو اس کو ہیروین بنانے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ اس لئے وہ اس کو کہانی میں مرکزی مقام نہیں دیتا۔ اس کو یہ مقام قاری دیتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب افسانہ اختتام کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اردو افسانوں میں ایسی فنکاری کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔
اشفاق احمدنے اس موضوع پرایک افسانہ " گڈریا" بھی لکھا تھا ، جس کو اردو کے ادب عالیہ میں شامل کیا جا چکا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس افسانے کی ابتدا بھی جذباتی انداز میں ہوتی ہے ۔ مگر جوں جوں افسانہ آگے بڑھتا جاتا ہے ، اس میں پختگی آتی جاتی ہے اور قاری پر یہ امر کھلتا جاتا ہے کہ اس کہانی کے پیچھے ہندوستان کی ثقافت کی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ کہانی کا ہیرو ایک ہندو ہے، مگر وہ اسلامی ثقافت سے اس درجہ متاثر ہے کہ کوئی مسلمان کیا ہو گا۔ اس کی دلچسپی صرف زبان اور ادب کی حد تک محدود نہیں ہے ، بلکہ وہ دین اسلامی کے رنگ میں پوری طرح رنگا ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے اردو نقادوں نے بالخصوص اس افسانے کو اہمیت کا حامل سمجھا ہے، کیونکہ وہ اس بات کی دلیل بنتا ہے کہ ہندوستان میںہندوᄊں اور مسلمانوں کی مشترکہ ثقافت ایک حقیقت تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ اس مفروضے کی بنا پر کیا گیا تھا کہ ہندو اکثریتی تہذیب میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اس کے بالمقابل اس افسانے میں اشفاق احمد دکھا رہے ہیں کہ ہندوستان ثقافتی اعتبار سے اتنا بھی منقسم نہیں تھا، جس کا تاثر سیاست دانوں نے دیا تھا اور جس کی بنا پر تقسیم ملک کو ناگزیر جانا گیا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس چیزکی نشان دہی پاکستان میں نقادوں نے نہیں کی۔
جب میں نے ان کے افسانوں میں کسی ایسے نمائندہ افسانے کی تلاش کی، جس میں واقعات اور حوادث کی بجائے کسی کردار کی تخلیق ان کے مد نظر رہی ہو، تو مجھی" ایک محبت سو افسانے "میں "عجیب بادشاہ" کے عنوان کے تحت ایک افسانہ ملا، جس میں پوری کہانی ایک شخص کے گرد گھومتی ہے ۔ البتہ اس کردار کو تخلیق کرتے ہوئے اشفاق احمد نے میانہ روی کا پلہ چھوڑتے ہوئے اس قدر غلو سے کام لیا ہے کہ قاری کو یہ تسلیم کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے ، جس کے گرد کہانی کا تانا بانا بنا گیا تھا۔ کہانی کا کردار زمان راوی کا کالج کا ساتھی ہے ۔جس کی صفت یہ ہے کہ کسی کا احسان نہیں اٹھانا چاہتا اور جو بات ایک دفعہ کہہ دیتا ہے ، اس پر قائم رہتا ہے ، خواہ دنیا ادھر کی ادھر کیوں نہ ہو جائے۔ کہانی میں اس شخص کا نفسیاتی مطالعہ بڑی مہارت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ مگر یہاں پر بھی افسانہ نگاراپنے آپ کوجذباتیت سے نہیں بچا سکا۔ جسکے سبب کہانی کا اختتام قاری کو متاثر کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
اب میں اشفاق احمد کے آخری دور کے افسانوں کی طرف متوجہ ہوتاہوں، جو اپنی پختہ کاری اور زبان پر بے مثال گرفت کے سبب ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ البتہ ان افسانوں نے ایک ایسا رخ اختیار کیا ہے، جو ہمیں ہی نہیں آنے والی نسلوں کو بھی اپنی گرفت سے آزاد نہیں کرے گا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی کہانی" قصاص "ہے، جس کو مرزا حامدبیگ نے اپنی کتاب "پاکستان کے شاہکار اردو افسانی" میں شامل کیا تھا۔ اس کہانی نے اردو ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ اس میں دو بھائی، جو چاچے تائے کی اولاد ہیں (پٹھوہاری میں اس رشتے کو دادے پوترے کہتے ہیں)پتوکی سے لاہور جا رہے تھے۔ راستے میں ان میںسے ایک بھائی کرتارسنگھ بلٹوے کی کہانی سناتا ہے، جو ویدوں کی لڑکی منورما سے پیار کرتا تھا۔ اس کو چھ بندوں نے مارا تھا،جن پر مقدمہ چلا تھا ، مگرسب بری ہو گئے تھے۔ اس کا بدلہ اس کی مشکی گھوڑی نے لیا تھا اور قاتلوں کو مار دیا تھا۔ ابھی وہ یہ کہانی سنا ہی رہے تھے کہ ایک تیز رفتار موٹر سائیکل پر سواروں نے ان کے لینڈ روور پر کلاشنیکوف سے حملہ کیا اور ان کو ہلاک کر دیا۔ ان کی موٹر کو سڑک کے کنارے پر کھڑی کر کے پولیس نے تفتیش شروع کی۔ لینڈ روور کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا اور اس کے پہیوں کے آگے ایک ایک اینٹ رکھ دی گئی۔ سارا دن گزر گیا، مگر کوئی گرفتاری عمل میں نہ آئی تھی۔ جب رات کے بارہ بجے ڈیوٹی والا سپاہی کمر سیدھی کرنے کے لئے کھوکھے میں جا کر لیٹ گیا، تو دونوں مجرم اپنی دوسری موٹر سائیکل پربیٹھ کر صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے جائے وقوعہ پرآئے۔ وہ موٹر کے قریب گئے اور اس جگہ کا جائزہ لینے لگے، جہاں پرکھڑے ہو کر انہوں نے ریپڈ فائر کئے تھے۔ قاتلوںکو اتنا قریب اس قدر پر سکون اور ایسے گھمنڈی اور مغرور دیکھ کر لینڈ روور کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس کی بتیاں ایک دم روشن ہو گئیں۔ پھر اس نے فرسٹ گیئر میں ایک سو بیس میل کی سپیڈ پر اپنے آپ کو ابھارا اور اینٹوں پر سے اچھل کر بمپر جوڑ کے گورے قاتل کو ٹکر ماری ، جو کچھ دیکھے ، سوچے، بولے بغیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔ دوسرے نے بھاگنے کی کوشش کی ۔ تو موٹر نے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر اور بائیں طرف گھوم کر بھاگتے قاتل کو زور کی ایک سائیڈ ماری اور اسے زمین پر گرا دیا۔ اس نے اوندھے لیٹے ہوئے بیہوش قاتل کا پنجر توڑنا شروع کیا اور جب تک اس کی پسلیوں کی چھوٹی چھوٹی گنڈیریاں نہیں بن گئیںلینڈ روور اپنے اگلے پہیوں کی آری اس طرح چلاتی رہی۔صبح جب ڈی آئی جی صاحب اپنے تفتیشی عملے کے ساتھ موقعہ واردات پر آئے تو لینڈ روور اسی طرح سے اپنی جگہ پر کھڑی تھی اور اس کے پہیوں کے آگے ایک ایک اینٹ بدستور رکھی ہوئی تھی۔
اس کہانی کے بارے میں مرزا حامد بیگ نے نوٹ کیا تھا کہ" قصاص "معاشرتی سطح پر بڑھتی ہوئی بد امنی اور خون آشامی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ صوفی اپروچ کا حامل افسانہ ہے " ۔
یہ الگ بات ہے کہ ایسا ہونا بظاہر ناممکنات میں سے ہے۔ مگر کیا پہلے وقتوں کی کہانیوں میں گھوڑے نہیں اڑتے تھے اور رستم کے بارے میں فردوسی نے شاہ نامے میں نہیں لکھا تھا کہ وہ کیسی کیسی ناممکن مہمات سر کرتا پھرتا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ایک افسانہ نگار کو اپنی مرضی کی دنیا آباد نہ کرنے دیں، جس میں ہر چیز ممکن ہو۔ جب سے میں نے یہ کہانی پڑھی ہے، میری نظر میں اشفاق احمد کا مقام بہت اونچا ہو گیا ہے ۔ ایک ادیب کو اس امر کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے کہ قاری اس کی خیالی دنیامیں داخل ہونے کی جرات کر سکتا ہے یا نہیں۔ رہی مرزا حامد بیگ کی یہ بات کہ یہ صوفی اپروچ کا حامل افسانہ ہے ، تو اس کے بارے میں ابن عربی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جن کی کتابوں میں ایسی ایسی محیر العقول باتیں درج ہیں کہ ہمارے وقتوں کے سائنس دان ان کو نہیں سمجھ سکتے۔ کیا ان کا حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں بیان کردہ یہ واقعہ قابل اعتبار ہے ، جو ان کو تونس کے ساحل پر پیش آیا تھا، جب حضرت خضر علیہ السلام نے اپنا مصلا زمین سے سات گز اوپر بچھا کر اس پر نفل ادا کئے تھے۔ کیا جنوبی امریکہ کے لاطینی ادب میں ایسی محیر العقول باتیں درج نہیں ہوتی؟مجھے پتا ہے کہ میرے دوست مصطفی کریم افسانوں میں اس چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں، جس کو وہ plausibility کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ گویا ایسا بیان جو ممکنات میں سے ہو۔ یہاں پر اشفاق احمد نے جو افسانہ سنایا ہے ، وہ صرف کہانیوں میں ممکن ہو سکتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری قوت واہمہ اتنی محدود ہے کہ ہم ناممکنات کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ادب کی دنیا میں جنات کی کہانیوںfairy talesکے لئے کوئی جگہ نہ پائی جاتی اور ان کے بغیر ادب کی دنیا کتنی اجاڑ ہوتی۔
پھرمیری نظر سے اشفاق احمد کا افسانہ "اشرف اسٹیل مارٹ "گزرا، جسے آصف فرخی نے "الحمراکے بہترین افسانے ۔ ئ"۲۰۰۰ میں شامل کیا ہے ۔ یہ افسانہ بھی اپنی وضع کا لاجواب افسانہ ہے۔ اس کی کہانی بھی ناقابل یقین ہے ۔ اس کے بارے میں آصف فرخی نے لکھا تھا۔ " ۔۔۔اشفاق احمد کا افسانہ شروع ہی رائے سے ہوتا ہے اور کمال چابک دستی کے ساتھ واقعاتی تفصیلات کو پہلے سے طے شدہ نتیجی/ رائے کی طرف ہنکاتا ہوا لے جاتا ہے ۔ کیا یہ ایپی فینی کے ظہور (Manifestation) کے بجائے استعمال ۔ استحصال (Manipulation) نہیں ہے؟ "
کہانی کو شروع کرنے سے پہلے ایک لمبی تمہید آتی ہے، جس میں بیان ہوتا ہے کہ کس طرح ہر زمانے میں علم والے دوسروں کو اس سے دور رکھنے کا جتن کرتے آئے ہیں۔ برہمن اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کوئی نیچی ذات والا پوتر اشلوک نہ سنے۔ اگر کبھی ایسا پیش آ گیا ،تو شودرکے کانوں میں پگھلا ہواسیسہ ڈال دیا جاتا تھا۔ بصرے میں مالک کا خفیہ قلمی نسخہ پڑھنے پر ہندوی کولی غلام کی زبان کاٹ دی جاتی ہے۔ پھر اشرف کی کہانی آتی ہے، جو ایک افسر کے گھر میں بیس روپے ماہوار اور روٹی کپڑے کی نوکری کرلیتا ہے۔ صاحب کے کند ذہن بیٹے کو دیکھ کر اسے پڑھنے کا خیال آتا ہے اور اپنے طور پر میٹرک کرلیتا ہے اور پوزیشن حاصل کرتا ہے۔ اس پر صاحب کی بیوی ناراض ہو جاتی ہے اور چوری کا مقدمہ بنوا کراس کو قید خانے میں بھیج دیا جاتاہے۔ جہاں پر اس کو فاضل وقت مل جاتا ہے اوروہ ایف۔اے کر لیتا ہے۔ پھر وہ لگ لپٹ کر بی۔اے کر لیتا ہے۔ اب اس کو ڈرائیوری کی نوکری ملتی ہے اور وہ ایک امریکن کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ جب وہ ایک روز اشرف کو نیوکلیئر فزکس کے ریڈنگ میٹریل پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے ، تو اس کو ڈرائیور کی قابلیت کا پتا چلتا ہے اور وہ اس کو امریکہ بھیج دیتا ہے، جہاں پراس کو ایم آئی ٹی میں داخلہ مل جاتا ہے ۔ وہاں پراگرچہ اس کی لیاقت کھلتی ہے، مگر وہ دو امتحانوں میں فیل ہو جاتاہے۔ایک پروفیسر کی سفارش پر اس کو Los Alamos کی سائنٹفک لیبارٹری میں رکھ لیاجاتاہے۔ وہاں پر وہ پلوٹونیم بم بنانے کافارمولا پیش کرتا ہے ۔ جب نیو ہون کے دو یہودی پروفیسروں نے اشرف کے فارمولے پر عملی کام کر کے اس کے نتائج دیکھے، تو وہ فوراً نیو میکسیکو پہنچتے ہیں۔ وہاں پر یہ طے پاتا ہے کہ اشرف کو ٹھکانے لگا دیا جائے، کیونکہ اس کو وہ ملکوتی علم حاصل ہو گیا ہے ، جس پر سوائے ارفع مخلوق کے کسی کا حق نہیں ہے ۔ اشرف کو ایک ہسپتال میں داخل کر دیا جاتا ہے، جہاں پر نیورو سرجن کو بتا دیا گیا تھا کہ اشرف ایک پاکستانی ہے اور اس نے یہاں آ کر بہت سا نیو کلیر علم حاصل کر لیا ہے ۔ اگر وہ اس مقدس علم کے ساتھ واپس تیسری دنیا میں پہنچ گیا ، تو ترقی یافتہ ملکوں کا سر بستہ راز نیچ اور کم ذات دنیا میں پہنچ جائے گااور سفلے اور بد اصل لوگ اس علم سے آشنا ہو جائیں گے، جو صرف گاڈز، ڈیمی گاڈز اور سپر ہومن بینگز کے لئے مخصوص ہے۔ نیوروسرجن اشرف کی کنپٹی کے اوپرپنسل سائز کی گول ٹکڑی کاٹ کر لیزر کی باریک نالی اس سوراخ میں رکھ کر گھوڑا دبا دیتا ہے ۔ ایک سکنڈ کے ہزارویں حصے میں اشرف کے دماغ کا یادداشت والا حصہ راکھ بن کر ٹھیکری کی طرح سخت ہو جاتا ہے ۔ پھر اشرف کو واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے، جہاں پر وہ اسماعیل فقیر دلال کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ جو اس کو داتا دربار کے پاس بھیک مانگنے کے لئے سڑک پر بٹھا دیتا ہے۔
یہاں پر افسانہ نگار کے کلیدی فقرے درج کئے جاتے ہیں، جن سے واضح ہو جائے گا کہ وہ اس افسانے کے ذریعہ کیا کہنا چاہتا ہے ۔ " علم کی ہیکٹری بھی عجیب ہیکڑی ہی¢علم والا آپ کو کچھ نہیں دیتا ۔ آپ کی ذلتوں کا معائنہ کر کے آپ کو سند خفت عطا کر جاتا ہے۔ آپ اس کے اس علم سے حصہ نہیں بٹا سکتے، جو اس کا ہے ، جو نافع ہے ۔ البتہ وہ علم جو پرانی گرگابی کی طرح ڈھیلا اور لکر چلا ہو جاتا ہے ، اسے ضرور پس ماندہ گروہوں کو عطا کر دیا جاتا ہے، جیسے پرانے لیرے بڑی محبت سے خاندانی نوکر کو دیئے جاتے ہیں۔ ہاں بس ایک امی ہوتے ہیں ، جو اپنا سب کچھ بلا امتیاز سبھوں کو دے دیتے ہیںاور اس کی کوئی قیمت طلب نہیں کرتے۔ وہ اپنا سارا وجود پورے کا پورا وجود لوگوں کو عطا کر دیتے ہیںاور ان کے باغ وجود سے علم نافع کی نہریں اب تک رواں دواں رہتی ہیں¢" ۔
آپ نے دیکھا یہاں پر اشفاق احمد کامشن ظاہر و باہر ہو جاتا ہے اور ان کا اسلامی تعصب (مثبت رنگ میں)کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ کیا ایسا افسانہ لکھا جا سکتا ہے، جو سارے کا سارا مفروضات پر مبنی ہو؟اس کا جواب یہ ہو گا کہ سارا ادب مفروضات پر مبنی ہے۔ البتہ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ادب کومقصدی ہونا چاہیئے؟ اشفاق احمد کا تعلق ادب کے اس دھارے سے تھا، جو اس کی مقصدیت کا قائل تھا۔ اس لئے کوئی عجب بات نہیں کہ وہ کھل کر ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مسلک کا پرچار کرتے تھے۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کا شغف تصوف میں اس درجہ بڑھ چکا تھا کہ وہ اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناچکے تھے۔وہ محض نمائشی صوفی نہ تھے، بلکہ عملاً اس مسلک کو اپنا ئے ہوئے تھے۔ ان کے آخری برسوں کے ادب پاروں میںتصوف اس طرح حلول کر چکا تھا، جیسے پانی میں نمکیات گھل مل جاتی ہیں۔
جب آخری بار میری ان کے ساتھ ملاقات ہوئی، تو وہ حلقہ ارباب ذوق لاہور کے اجلاس میں ایک افسانہ پیش کر رہے تھے۔ افسوس ہے کہ میرے سامنے اس افسانے کا متن نہیں ہے ، مگر مجھے یاد ہے کہ اس کا مرکزی کردار اسلامی رنگ میں رنگا ہوا تھا ، جس کے سبب حلقہ ارباب ذوق کے بائیں بازو کے جملہ ادیب ان پر ٹوٹ پڑے تھے۔ اشفاق احمدحلقہ کی روایات کی پابندی کرتے ہوئے پورے اطمینان کے ساتھ تنقید سن رہے تھے ۔ مگر کچھ نہیں کہہ رہے تھے ، کیونکہ یہ بھی اس روایت کا حصہ ہے۔ میں ان کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے میرے کان میں کہا۔ لو دیکھو کس طرح میری گت بنائی جا رہی ہے۔ کل صدیقہ بیگم کے ساتھ گھر پر آᄊ، تو بیٹھ کر اس افسانے پر بات کریں گے۔ مگر افسوس ہے کہ مجھے دوسرے روز بہت سویرے کراچی کے لئے روانہ ہو جانا تھا، اس لئے میں ان کے ہاں نہ جا سکتا تھا۔ اگر میں جاتا، تو یقینا ہمیں اس افسانے پر بھی بات کرنے کا موقع مل جاتا، جو میں ذیل میں پیش کر رہا ہوں، کیونکہ وہ مجھے اس دن سے ہضم نہیں ہو رہا ، جس دن سے میں نے اسے پڑھاہے۔ آپ اس کی وجہ ابھی جان جائیں گے۔ البتہ میں ابھی سے یہ غلط فہمی دور کر دینی چاہتا ہوں کہ میں معجزوں پر ایمان نہیں رکھتا۔
"ڈرائیور بابا" کے عنوان کے تحت ان کے ایک زیر طبع ناول کا باب ماہنامہ" کتاب"، اسلام آباد میں چھپا تھا۔ جو بجائے خود ایک مکمل افسانہ ہے ۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک پاکستانی امریکن منصورکو، جو لمبے عرصے سے امریکہ میں رہ رہا ہے، لیو کیمیا کا مرض لگ گیا جاتا ہے، جو لاعلاج مرض سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بیوی لنڈا کو یہ خبر ملتی ہے اوروہ ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ اس کا حمل گر جاتا ہے اور بچہ جس کی پیدائش کا دونوں انتظار کر رہے تھے، ضائع ہو جاتا ہے ۔ منصور کو ہسپتال میں داخل کر دیا جاتا ہے اور لنڈا یونیورسٹی سے نکل کر اب ہر روز وہاں کا چکر لگاتی ہے۔ وہ اب کار نہیں چلاتی، بلکہ ایک بس میں سفر کرتی ہے، جس کا ڈرائیور ایک دبلا پتلا، سیاہ ڈاڑھی والا عمر رسیدہ شخص ہے، جس کی شکل و صورت سے پتا چلتا ہے کہ وہ کسی مشرقی ملک کا رہنے والا ہے۔ وہ ایک بجے سبز گھاس پر کھڑا ہو کر ناف پر ہاتھ باندھ لیتا ہے اور آنکھیں بند کر کے مراقبے میں اتر جاتا ہے۔ لنڈا اگر وقت سے پہلے پہنچ جاتی ہے، تو خالی بس میں اپنی سیٹ پربیٹھ کر اس کے خضوع کا مطالعہ کیا کرتی ہے۔ اسے پتا ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہے اور اس عبادت کے رشتے مذہب اسلام سے منسلک ہیں۔ منصور بھی جب کبھی نماز پڑھا کرتا تھا اور اسی طرح ہاتھ باندھ کر آنکھیں بند کر لیا کرتا تھا، تو اس پر بھی ایسی ہی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ ایک روز لنڈا کو دیر ہو گئی اور وہ بھاگتی ہوئی آئی۔ ڈرائیور نے اس کے لئے بس روک لی اور وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ڈرائیور بس کو روک کر اس کے پاس گیا اور اپنی ہمدردی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ وہ کس طرح اس کے کام آ سکتا ہے۔ لنڈا اسے بتاتی ہے کہ اس کا خاوند جو خون کے سرطان میں مبتلا ہے ، اس کی بیماری آج رات آخری سیٹیج سے بھی آگے نکل جائے گی ور کل صبح یا کل شام تک اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ ڈرائیور مریض کو دیکھنے کی اجازت مانگتا ہے اور شام کو جا کر اسے دیکھتا ہے۔ وہ اپنی انگشت شہادت سے منصور کے ماتھے پر کچھ لکھتا ہے۔ پھر اس کے اوپر یا حی یا قیوم درج کرتا ہے اور لنڈا کو کہتا ہے کہ پرسوں اس کے خاوند کی بیماری واپسی کا سفر اختیار کرے گی۔ اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے ۔ وہ منصور کو پلانے کے لئے آب زمزم دیتا ہے ، جس کو پانی میں ملا کر دینا ہوتا ہے۔ بیمار صحت مند ہو کر گھر لوٹ آتا ہے۔ لنڈا پوچھتی ہے یہ کیسے ممکن ہو گیاکہ سرطان کا مریض بغیر کسی وجہ کے بچ جائے۔ ڈرائیور بابا کہتا ہے ۔ ہزاروں کیس اس سے بھی زیادہ خطر ناک اور کینسر کی مختلف النوع وارداتوں کے مریض صحت مندہو کر اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ بالکل بغیر وجہ کے۔ ہزاروں ایسے حقائق" ریڈرز ڈائجسٹ "میں چھپ چکے ہیں۔ لنڈا کہتی ہے کہ ہر معجزے اور ہر کرامت کے پیچھے کوئی آدمی ضرور ہوتا ہے اور ہر عجوبے اورہر شعبدے کی ڈوری کسی شخص سے ضرور بندھی ہوتی ہے۔
یہاں پر اشفاق احمد کا معجزوں پر ایمان کھل کر سامنے آ جاتا ہے ۔ میں اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ گاہے گاہے مریض کسی بیماری سے شفا پا جاتے ہیں ، جن کو اکاڈیمک میڈیسن ناقابل علاج قرار دے چکی ہوتی ہے۔ ایسی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں اور خود ہمارے وقتوں میں بھی سننے میں آتی ہیں۔ مگر کیا ایسے معجزے کسی شخص کی دعا سے وقوع میں آ سکتے ہیں(اور عین یہی بات یہاں پر اشفاق احمد کہہ رہے ہیں)اس کو ماننے کے لئے ایمان درکار ہے۔ میں بے صبری سے ان کے ناول کے چھپنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ کہانی کار اشفاق احمد کے بارے میں آخری رائے قائم کرنے میں ہمیں جلدی نہ کرنی چاہیئے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سامری ہمیں کیسے کیسے کرتب دکھائے گا۔ مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ اردو ادب میں ایک ایسا گرانڈیل ادیب پایا جاتا ہے ، جس کے زمانہ حیات میں ہمیں اس کو نزدیک و دور سے دیکھنا نصیب ہوا۔ آنے والی نسلیں اس کو تا دیر یاد رکھیں گی۔
اشفاق احمد ۔اردو افسانے کا سامری
اشفاق احمد اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ انہوں نے نثر کی دوسری اصناف میں بھی یادگار تحریریں چھوڑی ہیں۔مگر میں اس مضمون میں ان کو بطور ایک ایسے افسانہ نگارکے پیش کروں گا، جس نے نت نئے تجربات کئے ہیں اور اس صنف کو نئی راہیں دکھائی ہیں۔اس چیز کاجائزہ اس لئے بھی لیا جانا چاہیئے کہ اردو ادب میں افسانہ ایک نسبتاً نئی صنف ہے،جس کی عمر ایک سو سال سے زیادہ نہیں ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس عرصے میں اس نے حیرت انگیز طور پر ترقی کی ہے۔اس دوران میں جن ادیبوں نے اسالیب نو پیدا کرنے میںپہل کار کا کردار ادا کیا ہے ، ان میں اشفاق احمد کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان کے افسانو ں کا تدریجی مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ اکثر و بیشتر اپنے ہمعصروں سے دو قدم آگے نظر آتے ہیں۔
میں آج سے قریباً نصف صدی قبل پاکستان کو خیر باد کہہ کر جرمنی چلا گیا تھا۔ اس وقت تک اشفاق احمدکا نام اردو ادیبوں کے ہراول دستے میں شمار ہونے لگا تھا۔ میں نے ان کے متعدد افسانے پڑھے تھے۔ مگرکوئی افسانہ میری یادداشت میں محفوظ نہیں تھا۔ جب برسوں کے بعد صدیقہ بیگم نے اپنے جرمنی کے سفر کے دوران میری کتاب دیکھی، جس میں اردو افسانوں کا انتخاب جرمن زبان میں چھاپا گیا تھا، تو انہوں نے پوچھا کہ اس میں ماموں اشفاق احمد کا کوئی افسانہ کیوں نہیں ہے ۔ مجھے شرمندگی سے تسلیم کرنا پڑا کہ میرے پاس ان کے افسانوں کا کوئی مجموعہ نہیں تھا۔وگرنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کا افسانہ کتاب میں شامل نہ ہوتا۔ میں ان کو اردو افسانہ نگاروں میں بہت ممتاز حیثیت کا حامل مانتا تھا۔ صدیقہ بیگم نے لاہور واپس جا کر اشفاق احمد کو تحریک کی کہ وہ مجھے اپنے افسانوں کا ایک آدھ مجموعہ بھیج دیں۔ چنانچہ اس طرح ایک روز مجھے ان کی کتاب" ایک محبت سو افسانے" کا پارسل ملا۔ اس طرح ہمارا رابطہ قائم ہوا۔ البتہ ان کے ساتھ میری بالمشافہ ملاقات برسوں کے بعد جا کرہوئی۔
موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے ، تو اشفاق احمد کی نسل کے ادیبوں کے لئے تقسیم ملک ایک ایسا سانحہ تھا جو لمبے عرصے تک ان کی تخلیقی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ چنانچہ ان کی کتاب " ایک محبت سو افسانے" کے تیرہ افسانوں میں سے چھ کا موضوع یہی ہے۔ تاہم اسی موضوع پر لکھا ہواجو افسانہ ان کو اردو ادب میں ایک ممتاز مقام دلانے کا باعث بنا، وہ اس کتاب میں شامل نہیں ہے۔ میرا اشارہ "گڈریا" کی طرف ہے، جس کا جائزہ اس مضمون میںآگے چل کر لیا جائے گا۔ " ایک محبت سو افسانے" میں شامل ہونے والے جن افسانوں کا موضوع تقسیم ملک کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال ہے، ان کے عنوان یہ ہیں ۔ تلاش۔ سنگ دل۔ مسکن۔بابا۔پناہیں۔امی۔
ان میں " تلاش " ترتیب میں سب سے پہلے آتا ہے ۔ یہی ایک افسانہ نہیں ، اس مجموعے کے دوسرے افسانوں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس زمانے کی یادگار ہیں، جب اردو افسانہ جذبات کی دنیا میں ڈوبا ہوا تھا۔ البتہ یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ کہانی کا تعلق ہمیشہ جذبات سے ہوتا ہے ، جن کی عدم موجودگی میں کہانی محض رپورتاژ بن کر رہ جاتی ہے ۔اس لئے میں کہانی میں جذبات کے خلاف نہیں ہوں۔ البتہ جب افسانہ نگار جذباتی پن کو اپنی کہانی کے لئے بطور بیساکھی کے استعمال کرنے لگتا ہے، تو کہانی اپنی اصلیت سے دور ہو جاتی ہے اور اس میں مصنوعی پن در آتا ہے۔ مجھے ان کی کہانی" تلاش" اچھی لگی، مگر اس کا اختتام نہ صرف بے حد جذباتی تھا ، بلکہ ایک حد تک غیر ضروری تھا۔ یہ کہانی اس زمانے میں لکھی گئی تھی، جب قاری کو دل پسیجنے والی باتیں اچھی لگتی تھیں۔ احسان ایک چھوٹابچہ ہے، جو ایک کتے کے پلے کو تقسیم کے وقت ہندوستان سے اٹھا لایا ہے۔ وہ یہ تصور ہی نہیں کر سکتا کہ پلے کو اس کی قسمت پر چھوڑ دیا جائے۔کہانی کے اختتام پر احسان اپنے کتے جیکی کی تلا ش میںشام کے اندھیرے میں گھر سے نکل جاتا ہے اور واپس نہیں لوٹتا۔ اس کہانی کا اختتام مختلف ہو سکتا تھا اور مجھے یقین ہے کہ اشفاق احمد نے یہی افسانہ دس بیس برس بعد لکھتا ہوتا، تو وہ اسے کسی اور رنگ میں ختم کرتے ۔ پھریہ بھی ہے کہ افسانے میں تقسیم ملک کا موضوع بالکل پس پشت چلا جاتا ہے ۔مگر اس چیز کو افسانے کی کمزوری نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس موضوع کے ہزاروں پرتوں میں سے ایک پرت کو اس افسانے میں ہمارے سامنے بہت فنکاری سے رکھا گیا ہے ۔ جس کے سبب یہ افسانہ ہمیشہ دلچسپی سے پڑھا جاتا رہے گا۔
اس مجموعے کی دوسری قابل ذکر کہانی " پناہیں" ہے۔ اس کا تعلق بھی تقسیم ملک سے ہے، مگر یہ موضوع مرکزی حیثیت نہیں رکھتا، بلکہ قاری کو آخر تک اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ وہ اس قیامت صغریٰ کی تفصیل پڑھ رہا ہے، جس میں سے گزر کر ملک آزاد ہوا تھا۔ افسانے کے ابتداءمیں حملے کا ذکر آتا ہے، مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ کون حملہ کرتا ہے اور کیوں۔ تاہم مشاق قاری سمجھ جاتا ہے کہ یہاں پر مسلمانوں کی آبادی پر حملے کی روداد سنائی جا رہی ہے۔ پھر اس کے بعد کہانی گھریلو ناچاقی کی داستان سناتی ہے، جو کسی بھی فیملی میں پیش آ سکتی ہے ۔ افسانہ نگار نہایت سلیقے کے ساتھ جذباتی ہوئے بغیر ہمیں ایک شخص کی کہانی سناتا ہے ، جو ایک مختلف زندگی گزار سکتا تھا، مگر ایسا نہ کر سکا۔ درحقیقت یہ کہانی کسی بھی فیملی کو تقسیم ملک کے بغیر بھی پیش آ سکتی تھی۔ اس کہانی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک شخص کی زندگی کا المیہ بہت سلیقے اور فنکاری کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ افسانہ نگار اس میں دخل اندازی نہیں کرتا، مگرقدم قدم پر یہ احساس میرا پیچھا نہیں چھوڑتا کہ اسے علم ہے کہ اس المیے کو کیسے ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ مگر اس کی ادیبانہ غیر جانبداری اس کا ہاتھ روکے ہوئے ہے۔
یہ بات تیسری کہانی " امی " کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، جس میں مسعود کی ملاقات اپنے بچپن کے دوست کی ماں سے ہوتی ہے اور وہ اس کے پاس جا کر رہنے لگتا ہے۔ مگر بجائے احسان مندی کے جذبات دکھانے کے وہ اس گھر سے پیسے چراتا اور جوا کھیلتا ہے۔ آخر میں وہ اپنے دوست کے لئے رقم پیدا کرنے کی خاطر بھاری رقم چرا کر جوا کھیلتا ہے اور بہت سا مال جیت لیتا ہے، مگر اس کے جواری ساتھی اس کو مار ڈالتے ہیں۔یہاں پر پہنچ کر قاری جان جاتا ہے کہ یہ کہانی بھی جذباتیت کا شکار ہے۔ دوسری بات اس کے بار ے میں یہ کہی جا سکتی ہے کہ اس کا تعلق تقسیم ملک سے نہیں ہے بلکہ ایک شخص کی اندرونی کجی اور بگڑی ہوئی نفسیات سے ہے ۔
چوتھی قابل ذکر کہانی " بابا" ہے، جس میں ایک دیہاتی فیملی کے سپوت کی داستان سنائی جا رہی ہے، جو انگلستان سے نہ صرف میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے لوٹتا ہے ، بلکہ اپنے ساتھ ایلن کو بھی لاتا ہے ، جس سے اس کا ایک بیٹا مسعود ہے۔ وہ اپنی زمینوں پر نئے طریق سے کاشتکاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب ہے۔ اتفاق سے ایک انگریز ایکس۔ای۔این کی کار اس کے گاوں کے قریب خراب ہو جاتی ہے اور اس کو پتا چلتا ہے کہ یہاں پر ایک انگلینڈ پلٹ ڈاکٹر اپنا وقت کاشتکاری میں صرف کر رہا ہے۔ اس کو ایک ایمرجنسی کے تحت فوج میں بلا لیا جاتا ہے اور اس کی غیر حاضری میں نہر کے ٹوٹ جانے سے سیلاب آتا ہے اور سارا گاوں اس کی زد میں آ جاتا ہے۔ ایلن حمل سے ہے ۔ اس کے باوجود وہ اپنی جان پر کھیل کربچھڑی کو بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔ پھر وہ خود موت کے منہ میں پہنچ جاتی ہے اور اس کا خسر شہر سے کسی قسم کی طبی امداد حاصل نہیں کر سکتااور وہ اس کی غیر حاضر ی میں مر جاتی ہے۔ یہاں پر پہنچ کر اچانک تقسیم ملک کے سلسلے میں ہونے والے فسادات کا ذکر آتا ہے ، جن کی زد میں آ کر "بابا" مارا جاتا ہے اور پوتا مسعود اکیلا رہ جاتا ہے ۔ یہ کہانی بھی، جو دراصل بہت مہارت سے سنائی جا رہی تھی، اپنے جذباتی اختتام کے باعث راستے سے بھٹک جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ افسانہ نگار کو کہانی کے اختتام کا ڈھنگ نہیں سوجھ رہا تھا، اس لئے اس نے تقسیم ملک کے وقت ہونے والے فسادات کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے، تو اس افسانے کو تقسیم ملک کے سلسلے میں لکھے جانے والے ادب میں نہیں رکھا جا سکتا۔
اس کے مقابلے میں اس مجموعے کا ایک شاہکار افسانہ تنقید نگاروں کی نظر کرم سے محروم رہا ہے۔ میراا شارہ " سنگ دل" کی طرف ہے۔ اس کہانی میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں، جو اس کو ممتاز کرنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ کہانی کئی بار سنائی جا چکی ہے۔ مگر اشفاق احمد نے اس میں جو رنگ بھر دیا ہے ، وہ بالکل انوکھا ہے۔ پھر کہانی کا کردار"پمی "اپنی انسان دوستی کی بنا پر یادگار بن جاتا ہے ۔ کہانی کا راوی حکومت پاکستان کی طرف سے مغویہ عورتوں کی باز یابی کے لئے ہندوستان بھیجا جاتا ہے،جہاں پر وہ اپنے آبائی گاᄊں میں جا کر ٹھیرتا ہے ۔ وہاں پر اس کے والد کے دوست پتا جی انسپکٹر آف پولیس ہیں۔ ان کے تعلقات ان کے ساتھ اور ان کی بیٹی پمی کے ساتھ دوستانہ ہیں۔ جب وہ ایک لڑکی کے والدین کی طرف سے آنے والے ایک خط پر کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہتا، تو اس بات کو پمی جان جاتی ہے اور اپنی جان پر کھیلتے ہوئے اس لڑکی کی بازیابی کا کارنامہ سرانجام دیتی ہے۔ وہ بدلے میں صرف یہ چاہتی ہے کہ پاکستان سے ایسی ہی مغویہ لڑکیاںہندوستان بھیجی جائیں ۔ افسانے کا یہ اختتام بھی اگرچہ جذباتی ہے، مگر یہاں پر قاری کو یہ چیز بری نہیں لگتی۔ افسانہ نگار پمی کے کردار کو بہت غیر محسوس طریق سے آگے لاتا ہے ۔ وہ تو اس کو ہیروین بنانے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ اس لئے وہ اس کو کہانی میں مرکزی مقام نہیں دیتا۔ اس کو یہ مقام قاری دیتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب افسانہ اختتام کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اردو افسانوں میں ایسی فنکاری کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔
اشفاق احمدنے اس موضوع پرایک افسانہ " گڈریا" بھی لکھا تھا ، جس کو اردو کے ادب عالیہ میں شامل کیا جا چکا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس افسانے کی ابتدا بھی جذباتی انداز میں ہوتی ہے ۔ مگر جوں جوں افسانہ آگے بڑھتا جاتا ہے ، اس میں پختگی آتی جاتی ہے اور قاری پر یہ امر کھلتا جاتا ہے کہ اس کہانی کے پیچھے ہندوستان کی ثقافت کی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ کہانی کا ہیرو ایک ہندو ہے، مگر وہ اسلامی ثقافت سے اس درجہ متاثر ہے کہ کوئی مسلمان کیا ہو گا۔ اس کی دلچسپی صرف زبان اور ادب کی حد تک محدود نہیں ہے ، بلکہ وہ دین اسلامی کے رنگ میں پوری طرح رنگا ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے اردو نقادوں نے بالخصوص اس افسانے کو اہمیت کا حامل سمجھا ہے، کیونکہ وہ اس بات کی دلیل بنتا ہے کہ ہندوستان میںہندوᄊں اور مسلمانوں کی مشترکہ ثقافت ایک حقیقت تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ اس مفروضے کی بنا پر کیا گیا تھا کہ ہندو اکثریتی تہذیب میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اس کے بالمقابل اس افسانے میں اشفاق احمد دکھا رہے ہیں کہ ہندوستان ثقافتی اعتبار سے اتنا بھی منقسم نہیں تھا، جس کا تاثر سیاست دانوں نے دیا تھا اور جس کی بنا پر تقسیم ملک کو ناگزیر جانا گیا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس چیزکی نشان دہی پاکستان میں نقادوں نے نہیں کی۔
جب میں نے ان کے افسانوں میں کسی ایسے نمائندہ افسانے کی تلاش کی، جس میں واقعات اور حوادث کی بجائے کسی کردار کی تخلیق ان کے مد نظر رہی ہو، تو مجھی" ایک محبت سو افسانے "میں "عجیب بادشاہ" کے عنوان کے تحت ایک افسانہ ملا، جس میں پوری کہانی ایک شخص کے گرد گھومتی ہے ۔ البتہ اس کردار کو تخلیق کرتے ہوئے اشفاق احمد نے میانہ روی کا پلہ چھوڑتے ہوئے اس قدر غلو سے کام لیا ہے کہ قاری کو یہ تسلیم کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے ، جس کے گرد کہانی کا تانا بانا بنا گیا تھا۔ کہانی کا کردار زمان راوی کا کالج کا ساتھی ہے ۔جس کی صفت یہ ہے کہ کسی کا احسان نہیں اٹھانا چاہتا اور جو بات ایک دفعہ کہہ دیتا ہے ، اس پر قائم رہتا ہے ، خواہ دنیا ادھر کی ادھر کیوں نہ ہو جائے۔ کہانی میں اس شخص کا نفسیاتی مطالعہ بڑی مہارت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ مگر یہاں پر بھی افسانہ نگاراپنے آپ کوجذباتیت سے نہیں بچا سکا۔ جسکے سبب کہانی کا اختتام قاری کو متاثر کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
اب میں اشفاق احمد کے آخری دور کے افسانوں کی طرف متوجہ ہوتاہوں، جو اپنی پختہ کاری اور زبان پر بے مثال گرفت کے سبب ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ البتہ ان افسانوں نے ایک ایسا رخ اختیار کیا ہے، جو ہمیں ہی نہیں آنے والی نسلوں کو بھی اپنی گرفت سے آزاد نہیں کرے گا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی کہانی" قصاص "ہے، جس کو مرزا حامدبیگ نے اپنی کتاب "پاکستان کے شاہکار اردو افسانی" میں شامل کیا تھا۔ اس کہانی نے اردو ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ اس میں دو بھائی، جو چاچے تائے کی اولاد ہیں (پٹھوہاری میں اس رشتے کو دادے پوترے کہتے ہیں)پتوکی سے لاہور جا رہے تھے۔ راستے میں ان میںسے ایک بھائی کرتارسنگھ بلٹوے کی کہانی سناتا ہے، جو ویدوں کی لڑکی منورما سے پیار کرتا تھا۔ اس کو چھ بندوں نے مارا تھا،جن پر مقدمہ چلا تھا ، مگرسب بری ہو گئے تھے۔ اس کا بدلہ اس کی مشکی گھوڑی نے لیا تھا اور قاتلوں کو مار دیا تھا۔ ابھی وہ یہ کہانی سنا ہی رہے تھے کہ ایک تیز رفتار موٹر سائیکل پر سواروں نے ان کے لینڈ روور پر کلاشنیکوف سے حملہ کیا اور ان کو ہلاک کر دیا۔ ان کی موٹر کو سڑک کے کنارے پر کھڑی کر کے پولیس نے تفتیش شروع کی۔ لینڈ روور کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا اور اس کے پہیوں کے آگے ایک ایک اینٹ رکھ دی گئی۔ سارا دن گزر گیا، مگر کوئی گرفتاری عمل میں نہ آئی تھی۔ جب رات کے بارہ بجے ڈیوٹی والا سپاہی کمر سیدھی کرنے کے لئے کھوکھے میں جا کر لیٹ گیا، تو دونوں مجرم اپنی دوسری موٹر سائیکل پربیٹھ کر صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے جائے وقوعہ پرآئے۔ وہ موٹر کے قریب گئے اور اس جگہ کا جائزہ لینے لگے، جہاں پرکھڑے ہو کر انہوں نے ریپڈ فائر کئے تھے۔ قاتلوںکو اتنا قریب اس قدر پر سکون اور ایسے گھمنڈی اور مغرور دیکھ کر لینڈ روور کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس کی بتیاں ایک دم روشن ہو گئیں۔ پھر اس نے فرسٹ گیئر میں ایک سو بیس میل کی سپیڈ پر اپنے آپ کو ابھارا اور اینٹوں پر سے اچھل کر بمپر جوڑ کے گورے قاتل کو ٹکر ماری ، جو کچھ دیکھے ، سوچے، بولے بغیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔ دوسرے نے بھاگنے کی کوشش کی ۔ تو موٹر نے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر اور بائیں طرف گھوم کر بھاگتے قاتل کو زور کی ایک سائیڈ ماری اور اسے زمین پر گرا دیا۔ اس نے اوندھے لیٹے ہوئے بیہوش قاتل کا پنجر توڑنا شروع کیا اور جب تک اس کی پسلیوں کی چھوٹی چھوٹی گنڈیریاں نہیں بن گئیںلینڈ روور اپنے اگلے پہیوں کی آری اس طرح چلاتی رہی۔صبح جب ڈی آئی جی صاحب اپنے تفتیشی عملے کے ساتھ موقعہ واردات پر آئے تو لینڈ روور اسی طرح سے اپنی جگہ پر کھڑی تھی اور اس کے پہیوں کے آگے ایک ایک اینٹ بدستور رکھی ہوئی تھی۔
اس کہانی کے بارے میں مرزا حامد بیگ نے نوٹ کیا تھا کہ" قصاص "معاشرتی سطح پر بڑھتی ہوئی بد امنی اور خون آشامی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ صوفی اپروچ کا حامل افسانہ ہے " ۔
یہ الگ بات ہے کہ ایسا ہونا بظاہر ناممکنات میں سے ہے۔ مگر کیا پہلے وقتوں کی کہانیوں میں گھوڑے نہیں اڑتے تھے اور رستم کے بارے میں فردوسی نے شاہ نامے میں نہیں لکھا تھا کہ وہ کیسی کیسی ناممکن مہمات سر کرتا پھرتا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ایک افسانہ نگار کو اپنی مرضی کی دنیا آباد نہ کرنے دیں، جس میں ہر چیز ممکن ہو۔ جب سے میں نے یہ کہانی پڑھی ہے، میری نظر میں اشفاق احمد کا مقام بہت اونچا ہو گیا ہے ۔ ایک ادیب کو اس امر کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے کہ قاری اس کی خیالی دنیامیں داخل ہونے کی جرات کر سکتا ہے یا نہیں۔ رہی مرزا حامد بیگ کی یہ بات کہ یہ صوفی اپروچ کا حامل افسانہ ہے ، تو اس کے بارے میں ابن عربی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جن کی کتابوں میں ایسی ایسی محیر العقول باتیں درج ہیں کہ ہمارے وقتوں کے سائنس دان ان کو نہیں سمجھ سکتے۔ کیا ان کا حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں بیان کردہ یہ واقعہ قابل اعتبار ہے ، جو ان کو تونس کے ساحل پر پیش آیا تھا، جب حضرت خضر علیہ السلام نے اپنا مصلا زمین سے سات گز اوپر بچھا کر اس پر نفل ادا کئے تھے۔ کیا جنوبی امریکہ کے لاطینی ادب میں ایسی محیر العقول باتیں درج نہیں ہوتی؟مجھے پتا ہے کہ میرے دوست مصطفی کریم افسانوں میں اس چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں، جس کو وہ plausibility کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ گویا ایسا بیان جو ممکنات میں سے ہو۔ یہاں پر اشفاق احمد نے جو افسانہ سنایا ہے ، وہ صرف کہانیوں میں ممکن ہو سکتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری قوت واہمہ اتنی محدود ہے کہ ہم ناممکنات کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ادب کی دنیا میں جنات کی کہانیوںfairy talesکے لئے کوئی جگہ نہ پائی جاتی اور ان کے بغیر ادب کی دنیا کتنی اجاڑ ہوتی۔
پھرمیری نظر سے اشفاق احمد کا افسانہ "اشرف اسٹیل مارٹ "گزرا، جسے آصف فرخی نے "الحمراکے بہترین افسانے ۔ ئ"۲۰۰۰ میں شامل کیا ہے ۔ یہ افسانہ بھی اپنی وضع کا لاجواب افسانہ ہے۔ اس کی کہانی بھی ناقابل یقین ہے ۔ اس کے بارے میں آصف فرخی نے لکھا تھا۔ " ۔۔۔اشفاق احمد کا افسانہ شروع ہی رائے سے ہوتا ہے اور کمال چابک دستی کے ساتھ واقعاتی تفصیلات کو پہلے سے طے شدہ نتیجی/ رائے کی طرف ہنکاتا ہوا لے جاتا ہے ۔ کیا یہ ایپی فینی کے ظہور (Manifestation) کے بجائے استعمال ۔ استحصال (Manipulation) نہیں ہے؟ "
کہانی کو شروع کرنے سے پہلے ایک لمبی تمہید آتی ہے، جس میں بیان ہوتا ہے کہ کس طرح ہر زمانے میں علم والے دوسروں کو اس سے دور رکھنے کا جتن کرتے آئے ہیں۔ برہمن اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کوئی نیچی ذات والا پوتر اشلوک نہ سنے۔ اگر کبھی ایسا پیش آ گیا ،تو شودرکے کانوں میں پگھلا ہواسیسہ ڈال دیا جاتا تھا۔ بصرے میں مالک کا خفیہ قلمی نسخہ پڑھنے پر ہندوی کولی غلام کی زبان کاٹ دی جاتی ہے۔ پھر اشرف کی کہانی آتی ہے، جو ایک افسر کے گھر میں بیس روپے ماہوار اور روٹی کپڑے کی نوکری کرلیتا ہے۔ صاحب کے کند ذہن بیٹے کو دیکھ کر اسے پڑھنے کا خیال آتا ہے اور اپنے طور پر میٹرک کرلیتا ہے اور پوزیشن حاصل کرتا ہے۔ اس پر صاحب کی بیوی ناراض ہو جاتی ہے اور چوری کا مقدمہ بنوا کراس کو قید خانے میں بھیج دیا جاتاہے۔ جہاں پر اس کو فاضل وقت مل جاتا ہے اوروہ ایف۔اے کر لیتا ہے۔ پھر وہ لگ لپٹ کر بی۔اے کر لیتا ہے۔ اب اس کو ڈرائیوری کی نوکری ملتی ہے اور وہ ایک امریکن کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ جب وہ ایک روز اشرف کو نیوکلیئر فزکس کے ریڈنگ میٹریل پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے ، تو اس کو ڈرائیور کی قابلیت کا پتا چلتا ہے اور وہ اس کو امریکہ بھیج دیتا ہے، جہاں پراس کو ایم آئی ٹی میں داخلہ مل جاتا ہے ۔ وہاں پراگرچہ اس کی لیاقت کھلتی ہے، مگر وہ دو امتحانوں میں فیل ہو جاتاہے۔ایک پروفیسر کی سفارش پر اس کو Los Alamos کی سائنٹفک لیبارٹری میں رکھ لیاجاتاہے۔ وہاں پر وہ پلوٹونیم بم بنانے کافارمولا پیش کرتا ہے ۔ جب نیو ہون کے دو یہودی پروفیسروں نے اشرف کے فارمولے پر عملی کام کر کے اس کے نتائج دیکھے، تو وہ فوراً نیو میکسیکو پہنچتے ہیں۔ وہاں پر یہ طے پاتا ہے کہ اشرف کو ٹھکانے لگا دیا جائے، کیونکہ اس کو وہ ملکوتی علم حاصل ہو گیا ہے ، جس پر سوائے ارفع مخلوق کے کسی کا حق نہیں ہے ۔ اشرف کو ایک ہسپتال میں داخل کر دیا جاتا ہے، جہاں پر نیورو سرجن کو بتا دیا گیا تھا کہ اشرف ایک پاکستانی ہے اور اس نے یہاں آ کر بہت سا نیو کلیر علم حاصل کر لیا ہے ۔ اگر وہ اس مقدس علم کے ساتھ واپس تیسری دنیا میں پہنچ گیا ، تو ترقی یافتہ ملکوں کا سر بستہ راز نیچ اور کم ذات دنیا میں پہنچ جائے گااور سفلے اور بد اصل لوگ اس علم سے آشنا ہو جائیں گے، جو صرف گاڈز، ڈیمی گاڈز اور سپر ہومن بینگز کے لئے مخصوص ہے۔ نیوروسرجن اشرف کی کنپٹی کے اوپرپنسل سائز کی گول ٹکڑی کاٹ کر لیزر کی باریک نالی اس سوراخ میں رکھ کر گھوڑا دبا دیتا ہے ۔ ایک سکنڈ کے ہزارویں حصے میں اشرف کے دماغ کا یادداشت والا حصہ راکھ بن کر ٹھیکری کی طرح سخت ہو جاتا ہے ۔ پھر اشرف کو واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے، جہاں پر وہ اسماعیل فقیر دلال کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ جو اس کو داتا دربار کے پاس بھیک مانگنے کے لئے سڑک پر بٹھا دیتا ہے۔
یہاں پر افسانہ نگار کے کلیدی فقرے درج کئے جاتے ہیں، جن سے واضح ہو جائے گا کہ وہ اس افسانے کے ذریعہ کیا کہنا چاہتا ہے ۔ " علم کی ہیکٹری بھی عجیب ہیکڑی ہی¢علم والا آپ کو کچھ نہیں دیتا ۔ آپ کی ذلتوں کا معائنہ کر کے آپ کو سند خفت عطا کر جاتا ہے۔ آپ اس کے اس علم سے حصہ نہیں بٹا سکتے، جو اس کا ہے ، جو نافع ہے ۔ البتہ وہ علم جو پرانی گرگابی کی طرح ڈھیلا اور لکر چلا ہو جاتا ہے ، اسے ضرور پس ماندہ گروہوں کو عطا کر دیا جاتا ہے، جیسے پرانے لیرے بڑی محبت سے خاندانی نوکر کو دیئے جاتے ہیں۔ ہاں بس ایک امی ہوتے ہیں ، جو اپنا سب کچھ بلا امتیاز سبھوں کو دے دیتے ہیںاور اس کی کوئی قیمت طلب نہیں کرتے۔ وہ اپنا سارا وجود پورے کا پورا وجود لوگوں کو عطا کر دیتے ہیںاور ان کے باغ وجود سے علم نافع کی نہریں اب تک رواں دواں رہتی ہیں¢" ۔
آپ نے دیکھا یہاں پر اشفاق احمد کامشن ظاہر و باہر ہو جاتا ہے اور ان کا اسلامی تعصب (مثبت رنگ میں)کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ کیا ایسا افسانہ لکھا جا سکتا ہے، جو سارے کا سارا مفروضات پر مبنی ہو؟اس کا جواب یہ ہو گا کہ سارا ادب مفروضات پر مبنی ہے۔ البتہ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ادب کومقصدی ہونا چاہیئے؟ اشفاق احمد کا تعلق ادب کے اس دھارے سے تھا، جو اس کی مقصدیت کا قائل تھا۔ اس لئے کوئی عجب بات نہیں کہ وہ کھل کر ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مسلک کا پرچار کرتے تھے۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کا شغف تصوف میں اس درجہ بڑھ چکا تھا کہ وہ اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناچکے تھے۔وہ محض نمائشی صوفی نہ تھے، بلکہ عملاً اس مسلک کو اپنا ئے ہوئے تھے۔ ان کے آخری برسوں کے ادب پاروں میںتصوف اس طرح حلول کر چکا تھا، جیسے پانی میں نمکیات گھل مل جاتی ہیں۔
جب آخری بار میری ان کے ساتھ ملاقات ہوئی، تو وہ حلقہ ارباب ذوق لاہور کے اجلاس میں ایک افسانہ پیش کر رہے تھے۔ افسوس ہے کہ میرے سامنے اس افسانے کا متن نہیں ہے ، مگر مجھے یاد ہے کہ اس کا مرکزی کردار اسلامی رنگ میں رنگا ہوا تھا ، جس کے سبب حلقہ ارباب ذوق کے بائیں بازو کے جملہ ادیب ان پر ٹوٹ پڑے تھے۔ اشفاق احمدحلقہ کی روایات کی پابندی کرتے ہوئے پورے اطمینان کے ساتھ تنقید سن رہے تھے ۔ مگر کچھ نہیں کہہ رہے تھے ، کیونکہ یہ بھی اس روایت کا حصہ ہے۔ میں ان کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے میرے کان میں کہا۔ لو دیکھو کس طرح میری گت بنائی جا رہی ہے۔ کل صدیقہ بیگم کے ساتھ گھر پر آᄊ، تو بیٹھ کر اس افسانے پر بات کریں گے۔ مگر افسوس ہے کہ مجھے دوسرے روز بہت سویرے کراچی کے لئے روانہ ہو جانا تھا، اس لئے میں ان کے ہاں نہ جا سکتا تھا۔ اگر میں جاتا، تو یقینا ہمیں اس افسانے پر بھی بات کرنے کا موقع مل جاتا، جو میں ذیل میں پیش کر رہا ہوں، کیونکہ وہ مجھے اس دن سے ہضم نہیں ہو رہا ، جس دن سے میں نے اسے پڑھاہے۔ آپ اس کی وجہ ابھی جان جائیں گے۔ البتہ میں ابھی سے یہ غلط فہمی دور کر دینی چاہتا ہوں کہ میں معجزوں پر ایمان نہیں رکھتا۔
"ڈرائیور بابا" کے عنوان کے تحت ان کے ایک زیر طبع ناول کا باب ماہنامہ" کتاب"، اسلام آباد میں چھپا تھا۔ جو بجائے خود ایک مکمل افسانہ ہے ۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک پاکستانی امریکن منصورکو، جو لمبے عرصے سے امریکہ میں رہ رہا ہے، لیو کیمیا کا مرض لگ گیا جاتا ہے، جو لاعلاج مرض سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بیوی لنڈا کو یہ خبر ملتی ہے اوروہ ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ اس کا حمل گر جاتا ہے اور بچہ جس کی پیدائش کا دونوں انتظار کر رہے تھے، ضائع ہو جاتا ہے ۔ منصور کو ہسپتال میں داخل کر دیا جاتا ہے اور لنڈا یونیورسٹی سے نکل کر اب ہر روز وہاں کا چکر لگاتی ہے۔ وہ اب کار نہیں چلاتی، بلکہ ایک بس میں سفر کرتی ہے، جس کا ڈرائیور ایک دبلا پتلا، سیاہ ڈاڑھی والا عمر رسیدہ شخص ہے، جس کی شکل و صورت سے پتا چلتا ہے کہ وہ کسی مشرقی ملک کا رہنے والا ہے۔ وہ ایک بجے سبز گھاس پر کھڑا ہو کر ناف پر ہاتھ باندھ لیتا ہے اور آنکھیں بند کر کے مراقبے میں اتر جاتا ہے۔ لنڈا اگر وقت سے پہلے پہنچ جاتی ہے، تو خالی بس میں اپنی سیٹ پربیٹھ کر اس کے خضوع کا مطالعہ کیا کرتی ہے۔ اسے پتا ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہے اور اس عبادت کے رشتے مذہب اسلام سے منسلک ہیں۔ منصور بھی جب کبھی نماز پڑھا کرتا تھا اور اسی طرح ہاتھ باندھ کر آنکھیں بند کر لیا کرتا تھا، تو اس پر بھی ایسی ہی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ ایک روز لنڈا کو دیر ہو گئی اور وہ بھاگتی ہوئی آئی۔ ڈرائیور نے اس کے لئے بس روک لی اور وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ڈرائیور بس کو روک کر اس کے پاس گیا اور اپنی ہمدردی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ وہ کس طرح اس کے کام آ سکتا ہے۔ لنڈا اسے بتاتی ہے کہ اس کا خاوند جو خون کے سرطان میں مبتلا ہے ، اس کی بیماری آج رات آخری سیٹیج سے بھی آگے نکل جائے گی ور کل صبح یا کل شام تک اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ ڈرائیور مریض کو دیکھنے کی اجازت مانگتا ہے اور شام کو جا کر اسے دیکھتا ہے۔ وہ اپنی انگشت شہادت سے منصور کے ماتھے پر کچھ لکھتا ہے۔ پھر اس کے اوپر یا حی یا قیوم درج کرتا ہے اور لنڈا کو کہتا ہے کہ پرسوں اس کے خاوند کی بیماری واپسی کا سفر اختیار کرے گی۔ اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے ۔ وہ منصور کو پلانے کے لئے آب زمزم دیتا ہے ، جس کو پانی میں ملا کر دینا ہوتا ہے۔ بیمار صحت مند ہو کر گھر لوٹ آتا ہے۔ لنڈا پوچھتی ہے یہ کیسے ممکن ہو گیاکہ سرطان کا مریض بغیر کسی وجہ کے بچ جائے۔ ڈرائیور بابا کہتا ہے ۔ ہزاروں کیس اس سے بھی زیادہ خطر ناک اور کینسر کی مختلف النوع وارداتوں کے مریض صحت مندہو کر اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ بالکل بغیر وجہ کے۔ ہزاروں ایسے حقائق" ریڈرز ڈائجسٹ "میں چھپ چکے ہیں۔ لنڈا کہتی ہے کہ ہر معجزے اور ہر کرامت کے پیچھے کوئی آدمی ضرور ہوتا ہے اور ہر عجوبے اورہر شعبدے کی ڈوری کسی شخص سے ضرور بندھی ہوتی ہے۔
یہاں پر اشفاق احمد کا معجزوں پر ایمان کھل کر سامنے آ جاتا ہے ۔ میں اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ گاہے گاہے مریض کسی بیماری سے شفا پا جاتے ہیں ، جن کو اکاڈیمک میڈیسن ناقابل علاج قرار دے چکی ہوتی ہے۔ ایسی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں اور خود ہمارے وقتوں میں بھی سننے میں آتی ہیں۔ مگر کیا ایسے معجزے کسی شخص کی دعا سے وقوع میں آ سکتے ہیں(اور عین یہی بات یہاں پر اشفاق احمد کہہ رہے ہیں)اس کو ماننے کے لئے ایمان درکار ہے۔ میں بے صبری سے ان کے ناول کے چھپنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ کہانی کار اشفاق احمد کے بارے میں آخری رائے قائم کرنے میں ہمیں جلدی نہ کرنی چاہیئے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سامری ہمیں کیسے کیسے کرتب دکھائے گا۔ مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ اردو ادب میں ایک ایسا گرانڈیل ادیب پایا جاتا ہے ، جس کے زمانہ حیات میں ہمیں اس کو نزدیک و دور سے دیکھنا نصیب ہوا۔ آنے والی نسلیں اس کو تا دیر یاد رکھیں گی۔