اقتباسات اشفاق احمد

ہم اچھے لوگ ہیں،پیارے لوگ ہیں۔ایک دوسرے کے لیے اچھی خوش بختی کا سامان مہیا کرتے ہیں لیکن تعریف و توصیف کے معا ملے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ رواج ابھی نہیں بن سکا اور ہم نے اس کے بارے میں غور نہیں کیا کہ تعریف و توصیف بھی واجب ہے اگر کہیں واجب نہیں بھی تو بھی کی جانی چاہیے تا کہ انسانوں کے درمیان اتحاد،ہم آہنگی اور ایک unity پیدا ہو۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں آدمی کے چلے جانے کا بعد اسکی تعریف ہوتی ہے۔
ایک واقعہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ صحا بی آےُ۔کچھ صحا بی وہاں پہلے تھے نیے آنے والوں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلئ اللہ علیہ وسلم یہ جو آپ کے صحابی ہیں یہ مجھے بہت پیارے لگتے ہیں میں ان سے زیادہ متعارف تو نہیں ہوں لیکن بہت دل والے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا آپ نے یہ بات ان سے کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جی میں نے تو نہیں کہی تھی ۔ کہنے لگے فوراً جا یُے۔ ان کے پیچھے ،ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہیے،آپ مجھے اچھے لگتے ہیں،پیارے لگتے ہیں ۔تو وہ ان کے پیچھے بھاگے ،اور جا کے کہا کہ میں آپ سے بڑی محبت کرتا ہوں۔تو انہوں نے ظا ہر ہے محبت کا جواب محبت سے دیا ہو گا۔ہمارے ہاں کچھ کچھ محبت کی کمی ہو رہی ہے۔یہ نہیں کہ ہمارے دلوں میں نہیں ہے۔میرے خیال میں ہمارے دلوں میں تو کافی محبت ہے۔ہمارے لوک گیت،لوک داستانیں بتاتے ہیں۔ہم بڑی محبت کرنے والے لوگ ہیں،لیکن زبان سے اظہار نہیں کر پاتے۔پتا نہیں کیا وجہ ہے لیکن تعریف و توصیف کا اظہار بے اختیار،بے ساختہ ہونا چاہیے۔بعض اوقات یہ تعریف و توصیف آپ کا سہارا بھی بنتی ہے اور آپ کی مدد بھی کرتی ہے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
بابا کے کیا کہنے ان کی سوچ ان کا فہم اوراندازتحریر مشعل راہ ہے
بہت شکریہ بھابی صاحبہ اس تحریر کو شئیرکرنے کے لیے اور دعا آپ کے لیے بابا کی ہی پیش ہے
AshfaqAhmed.jpg
 

تلمیذ

لائبریرین
ٹیگ کرنے کا شکریہ، @زبیرمرزا صاحب۔ جب یہ اقتباس مسز جہانزیب نے پوسٹ کیا تھا ، میں نے اسی وقت دیکھ کے ریٹ کر دیا تھا۔ فی الحقیقت اشفاق صاحب مرحوم اتنی بڑی شخصیت ہیں کہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کے بارے کچھ لکھ سکوں۔
(براہ مہربانی میرا ذاتی پیغام دیکھئے۔۔۔)
 

نایاب

لائبریرین
اک اچھی شراکت ۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا صاحبا تو " فقیرانہ صدا لگاتے سب کو خیر کی راہ دکھاتے " چلے گئے اس جہاں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر ان کی صدائیں زندہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زندہ رہیں گی ۔
اللہ تعالی ہم سب کو محبت و خلوص تقسیم کرنے کی آسانیوں سے نوازے آمین
 

نیلم

محفلین
بہت خوبصورت اقتباس ہے ۔واقعی محبت کے لیئے اظہار بہت ضروری ہوتا ہے انسان کو ریفریش کرنے کے لیئے بھی ۔
 

تعبیر

محفلین
تعبیر آپ بھی پڑھیں اُمید ہے یہ تحریر آپ کو پسند آئے گی -
بہت بہت شکریہ زحال :)
پوسٹ کا اچھا کاسا اثر ہوا ہے اس لیے جلدی سے سفینہ کی تعریف کر دوں :p
سفینہ جی بہت ہی زبردست شیئرنگ ہے اور آتی رہا کریں اور اچھا اچھا شیئر بھی کرتی رہا کریں تاکہ مجھے یہ بھی کہنے کا موقع ملے کہ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں :p
 

زبیر مرزا

محفلین
بہت بہت شکریہ زحال :)
پوسٹ کا اچھا کاسا اثر ہوا ہے اس لیے جلدی سے سفینہ کی تعریف کر دوں :p
سفینہ جی بہت ہی زبردست شیئرنگ ہے اور آتی رہا کریں اور اچھا اچھا شیئر بھی کرتی رہا کریں تاکہ مجھے یہ بھی کہنے کا موقع ملے کہ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں :p
اگرآپ سفینہ بھابی کوسہیلی بنالیں تو بہترکہ تعریف کرسکیں گی اگربھابی کہہ دیا تو نندبھاوج کے رشتے میں تعریف :p ھمھممم نامکن ہوجائے گی
اوررہی بات ہماری تو کسی نا کہا ہے نا
کالاڈوریا کنڈے نال اڑیا ای اوے
کہ چھوٹا دیورا بھابی نال لڑیا ای اوے
رہی بات ہماری ۔۔۔ تو ہم بھابیوں سے لڑنے ، دھونس جمانے اورمکھن لگانے کے عادی ہیں
 

تعبیر

محفلین
اگرآپ سفینہ بھابی کوسہیلی بنالیں تو بہترکہ تعریف کرسکیں گی اگربھابی کہہ دیا تو نندبھاوج کے رشتے میں تعریف :p ھمھممم نامکن ہوجائے گی
اوررہی بات ہماری تو کسی نا کہا ہے نا
کالاڈوریا کنڈے نال اڑیا ای اوے
کہ چھوٹا دیورا بھابی نال لڑیا ای اوے
رہی بات ہماری ۔۔۔ تو ہم بھابیوں سے لڑنے ، دھونس جمانے اورمکھن لگانے کے عادی ہیں
میں تکلفات میں نہیں پڑتی اس لیے بہن،آپا یا بھابی کے تکلف میں نہیں پڑتی۔
ضرور بننا چاہونگی سہیلی اگر سفینہ چاہیں تو :) یہاں سب دوست ہی تو ہیں ویسے ۔
آپ کیا انہیں پہلے سے جاتے ہیں زحال؟
 

زبیر مرزا

محفلین
میں تکلفات میں نہیں پڑتی اس لیے بہن،آپا یا بھابی کے تکلف میں نہیں پڑتی۔
ضرور بننا چاہونگی سہیلی اگر سفینہ چاہیں تو :) یہاں سب دوست ہی تو ہیں ویسے ۔
آپ کیا انہیں پہلے سے جاتے ہیں زحال؟
نہیں تعبیر سفینہ بھابی کے محفل میں تعارف کے دھاگے سے ہی واقف ہوا پھر ان کا بنایا ہوا حلوہ اور اب یہ دھاگہ
 
ہم اچھے لوگ ہیں،پیارے لوگ ہیں۔ایک دوسرے کے لیے اچھی خوش بختی کا سامان مہیا کرتے ہیں لیکن تعریف و توصیف کے معا ملے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ رواج ابھی نہیں بن سکا اور ہم نے اس کے بارے میں غور نہیں کیا کہ تعریف و توصیف بھی واجب ہے اگر کہیں واجب نہیں بھی تو بھی کی جانی چاہیے تا کہ انسانوں کے درمیان اتحاد،ہم آہنگی اور ایک unity پیدا ہو۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں آدمی کے چلے جانے کا بعد اسکی تعریف ہوتی ہے۔
ایک واقعہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ صحا بی آےُ۔کچھ صحا بی وہاں پہلے تھے نیے آنے والوں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلئ اللہ علیہ وسلم یہ جو آپ کے صحابی ہیں یہ مجھے بہت پیارے لگتے ہیں میں ان سے زیادہ متعارف تو نہیں ہوں لیکن بہت دل والے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا آپ نے یہ بات ان سے کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جی میں نے تو نہیں کہی تھی ۔ کہنے لگے فوراً جا یُے۔ ان کے پیچھے ،ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہیے،آپ مجھے اچھے لگتے ہیں،پیارے لگتے ہیں ۔تو وہ ان کے پیچھے بھاگے ،اور جا کے کہا کہ میں آپ سے بڑی محبت کرتا ہوں۔تو انہوں نے ظا ہر ہے محبت کا جواب محبت سے دیا ہو گا۔ہمارے ہاں کچھ کچھ محبت کی کمی ہو رہی ہے۔یہ نہیں کہ ہمارے دلوں میں نہیں ہے۔میرے خیال میں ہمارے دلوں میں تو کافی محبت ہے۔ہمارے لوک گیت،لوک داستانیں بتاتے ہیں۔ہم بڑی محبت کرنے والے لوگ ہیں،لیکن زبان سے اظہار نہیں کر پاتے۔پتا نہیں کیا وجہ ہے لیکن تعریف و توصیف کا اظہار بے اختیار،بے ساختہ ہونا چاہیے۔بعض اوقات یہ تعریف و توصیف آپ کا سہارا بھی بنتی ہے اور آپ کی مدد بھی کرتی ہے۔
سفینہ پرویز نے منقول اقتباس سے بہت خوب نقطہ اٹھایا یقینا معاشرے میں الفت و اتحاد کا ایک عنصر تعریف و توصیف بھی ہے، اللہ اس تحریر پر اجر فرماے۔ ان کی بیان کردہ حدیث کا مدلول تو یہ ہے کہ تعریف و توصیف کے سزاوار کیلیے بے غرض ہو کر بغیر مبالغہ کیے تعریف و توصیف کی جائے اور یہ یقینًا لائق تحسین امر ہے۔
اوصاف حمیدہ بیان کرنے سے اگر صاحب اوصاف حمیدہ کے "غرور یا تکبر" میں مبتلاء ہو جانے کا اندیشہ ہو تو تعریف و توصف سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس اندیشے سے مراد محض خیال مطلق نہیں بلکہ اُس کی عادت کا قرینہ ہی خدشہ ہوتا ہے۔
تعریف و توصیف کر کے جہاں کسی کا حق ادا کرنا مقصود ہوتا ہے وہاں یہ بات بھی لازمًا پیش نظر رکھیئے کہ غیر مستحق کی تعریف و توصیف نہ کی جائے جیسا کہ ذاتی مطب خواہی کی خاطر ایسے شخص کی تعریف و توصیف کر دی جانا جس شخص میں وہ اوصاف ہی نہ ہوں آج کے اس دور میں عام مروج ہے حلانکہ یہ حقیقی تعریف نہیں اور اس سے یوں مفاد اور حصول مقصد تو ہو جائے گا مگر اس کا وبال آپ کے سر ہو گا۔ اس ضمن میں ایک حدیث شریف ملاحظہ کیجیئے جس میں فاسق کی تعریف و مدح پر وعید بیان ہوئی
عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا مدح الفاسق غضب الرب و اھتز لہ العرش (بیہقی)
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو اللہ تعالٰی غضب فرماتا ہے اور فاسق کی تعریف سے عرش الٰہی کانپ اٹھتا ہے۔
واللہ اعلم
 
بہت بہت شکریہ زحال :)
پوسٹ کا اچھا کاسا اثر ہوا ہے اس لیے جلدی سے سفینہ کی تعریف کر دوں :p
سفینہ جی بہت ہی زبردست شیئرنگ ہے اور آتی رہا کریں اور اچھا اچھا شیئر بھی کرتی رہا کریں تاکہ مجھے یہ بھی کہنے کا موقع ملے کہ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں :p
ہاہاہا۔بہت شکریہ تعریف کرنے کا۔
 
میں تکلفات میں نہیں پڑتی اس لیے بہن،آپا یا بھابی کے تکلف میں نہیں پڑتی۔
ضرور بننا چاہونگی سہیلی اگر سفینہ چاہیں تو :) یہاں سب دوست ہی تو ہیں ویسے ۔
آپ کیا انہیں پہلے سے جاتے ہیں زحال؟
بہت مہربانی ہو گی آپ کی تعبیر،میرا خیا ل ہے آپ واقعی اس تکلف سے پرہیز کریں۔آپ نے درست فرمایا یہاں سب دوست ہی ہیں اس لیے میں کیوں نہیں دوست بننا چاہوں گی بھلا۔
 
نہیں تعبیر سفینہ بھابی کے محفل میں تعارف کے دھاگے سے ہی واقف ہوا پھر ان کا بنایا ہوا حلوہ اور اب یہ دھاگہ
ویسے بھایُ کسی اور نے تو حلوہ دیکھا یے یا نہیں پر آپ نے کہہ کہہ کر سب کو دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔:)
 
''یہ جو مایوسی کا بھنور ہوتا ہے۔یہ بڑا ظالم گرداب ہوتا ہے۔اسکے کنارے کنارے پر آدمی گھومتا رہے تو بچنے کی کچھ امید ہوتی ہے لیکن جب بہت گہرا اتر جاےُ تو پھر بچنے کی کوئی آس باقی نہیں رہتی۔باوجود اس کے کہ اللہ بار بار فرماتا ہے میری رحمت سے نا امید نہ ہونا۔اس میں بڑا کوئی راز ہے تو فرمایا ہے،فرمانے والے نے کہ چونکہ آپکی زندگیوں میں خواہش،آرزو،desire ,اتنی گہری اتر چکی ہے کہ آپ سواےُ مایوسی کی بیٹری کا چارج لینے کے،اس desire کو رکھ لیتے ہیں،کیونکہ ہر لمحہ آپ کے اندر کسی نہ کسی شے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ ختم نہیں ہوتی۔اس لیے آپ مایوسی کے ساتھ چلیں گے۔جب خواہش کم ہوتی چلی جاےُ گی اور آپ کی وہ جائز desires آپ کے ساتھ رہیں گی،وہ خواہشیں رہیں گی،وہ آرزوئیں رہیں گی جو کہ رہنی چاہییں پھر آپ کو کبھی مایوسی نہیں ہو گی۔آپ ایسے ہی پھریں گے جیسے بلبل ہوتا ہے،جیسے ایک چڑیا چہچہاتی ہے۔آپ کو پتا ہے بابے کہتے ہیں کہ بلبل کو پتا نہیں ہوتا کہ موت آنے والی ہے۔وہ گانا گا رہی ہوتی ہے اور موت آ جا تی ہے،آپ ہر روز مرتے ہیں،ہر روز خوفزدہ ہوتے ہیں۔خوف کے مارے آپ کا دم وقت سے پہلے ہی نکلا ہوتا ہے بلکہ''every moment every day you keep on them'' چڑیا ،گھوڑے،شیر کو اس کا نہیں پتا۔وہ بڑے مزے سے آزادی سے چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کے اندر یہ desire نہیں ہے جو ہمارے اندر اشتعال پیدا کرتی ہے۔
میرے بابوں نے یہی بتایا ہے کہ اگر آپ اپنی خواہش کو ،اپنی تمنا ،آرزووُں کو ذرا سا روک سکیں۔آپ کی desire اور آپ کے درمیان ایک فاصلہ ہونا چاہیےاس کو ساتھ ساتھ رکھیں لیکن desire کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں یہ ایک ضروری اور مشکل امر ہے لیکن اگر آپ شروع کر دیں تو پھر کوئی مشکل بھی نہیں۔

اشفاق احمد کے ''زاویہ'' سے
 
Top