اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے

افسانہ غم


  • Total voters
    2
تحریر سید شاہ زمان شمسی

اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے

میرا افسانہ غم ان نمناک اور غمزدہ آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسووں سے شروع ہو چکا تھا کہ جب اس نے اپنی پلکیں بند کر کے الوداع کا پیغام بھیجا تھا۔ وہ آنسووں کی بوندیں میری سانسوں میں شامل ہو چکی ہیں۔ کتنی آہیں بھری ہوئی ہیں جو دم ٹوٹنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ہاں تیرے الوداعی دیدہ تر کا رزق سنبھال رکھا ہے۔ وہ چشم خوباں سے پھوٹا ہوا آخری نگینہ در نجف ( آنسو) میری انگلیوں کی پوروں سے خون بن کے صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے۔
تمہاری یاد میں جلنے کے سوا کوئی مشغلہ نہیں ہے چراغ کے سائے میں مجسم پروانہ بن کے رہ گیا ہوں۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ تم سے محروم ہو جانے کی اذیت سے تعلق رکھتا ہے۔
گر تمہیں پاگل دکھائی دے رہا ہوں تو سنو! پاگل ہوں ہاں میں پاگل ہوں۔ تمہیں پانے کی آرزو رکھنے میں پاگل ہوں۔
تمہیں کھوجتے رہنے میں پاگل ہوں۔ تمہیں شدت سے یاد رکھنے میں پاگل ہوں، یاد کرنے کا بھی لفظ استعمال کر سکتا تھا لیکن یاد تو کبھی کبھار بھی کیا جا سکتا ہے۔ تمہیں ہمیشہ سے یاد رکھنے میں پاگل ہوں۔ ہاں میں پاگل ہوں کہ میں نے تیرے جانے کے بعد بھی تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے۔ تجھے تصورات میں لا کے خود کلامی کرنے میں مصروف عمل رہتا ہوں ہاں میں پاگل ہوں۔ اے میری محبوب ! تو میرے گیتوں سے میری تحریروں سے اور وہ تمام قلمی نسخے جو میں نے تیری یادوں کی شدت کو اپنے دل میں محفوظ کر کے لکھے ہیں انہیں پڑھ کے میری سسکیوں کا بخوبی جائزہ لے سکتی ہو۔ یہی سسکیاں کسی وقت تمہاری پکار بن جائیں گی بس یہی سوچ سوچ کے پاگل ہوں۔
تیرا انداز تغافل اتنا طویل تر ہو جائے گا یہ ممکن تو نہ تھا۔ لیکن اب بھی انتظار دید میں خاک بسر تیرے رستے کی غبار بن کے بیٹھا ہوں۔ زلفیں بکھری ہیں، دامن تار تار ہے، حسرت بھری نگاہوں سے تیرے کوچہ کی طرف دیکھتا ہوں شاید باد صبا کوئی پیغام لے کر آئے۔ کیا کروں کہ رات کے چہرے سے سیاہی چلی جاتی ہے لیکن میرے دل سے وہ پرانا غم نہیں جاتا جو مجھے لا حق ہو گیا ہے۔ اے وعدہ شکن ! مجھ سے پیار کیوں کیا تھا جو بعد میں تم نبھا نہ سکی؟
بوقت رخصت اگر الوداع ہی کہنا تھا تو میری زندگی میں آئی کیوں تھی؟ کیوں مجھے داغ مفارقت دے کے ہمیشہ کے لیے چلی گئی؟ میری آہ و بکا، گریہ و زاری، نالہ درد، بے چینی اور بے قراری کا امتحان مت لو، اے جان تمنا! مجھے شربت وصل سے سرشار کردو واپس لوٹ کے آ جاو اپنے دیدار سے فیضیاب کر دو کہیں ایسا نہ ہو کہ آخری سسکی دم توڑ دے اور سانسوں کا ربط ٹوٹ جائے۔

تمہاری دید کا منتظر
 
آشکوں کی انتہا ہوں مجهے یاد کجئیے

ان الفاظ کے خالق کی زندگی پر روشنی ڈالتے آپ نے اپنی کیفیت بہتر ڈالی ہے اسکی بحر مگر ان لفظوں کی پڑهنے سے ہوئی آپکو تو مناسب ہوتا
 
Top