امین شارق
محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
اشکِ غم بہتے ہیں یادِ رفتگاں میں اور بھی
دِل مرا مصروف ہے آہ و فِغاں میں اور بھی
پہلے ہی دِل غمزدہ تھا اس پہ یادِ یار سے
کتنی شدت آگئی اشکِ رواں میں اور بھی
ایک بس تُم ہی نہیں،عاشق ہزاروں ہیں یہاں
ہِجر کا غم سہہ رہے ہیں اِس جہاں میں اور بھی
عاشقوں یہ عشق کی منزل کٹھن ہے،راہ میں
دشت دریا بھی کئی ہیں درمیاں میں اور بھی
عِشق کی منزل کو پانا اِتنا آساں تو نہیں
ہیں ہزاروں مُشکلیں اِس امتحاں میں اور بھی
اے جگر سُنتا نہیں دِل عِشق کر بیٹھا ہے یہ
تم ذرا سمجھادو نا اپنی زباں میں اور بھی
اِک ترا قِسمت کا تارا بُجھ گیا تو کیا ہوا
ہیں کئی روشن ستارے آسماں میں اور بھی
بُلبلِ شِیریں نوا اِک گُل پہ افسردہ ہے کیوں
پُھول کتنے خوشنما ہیں گلستاں میں اور بھی
کوئی تو صیاد کو جاکر خبر دے دو ابھی
کچھ پرندے بچ گئے ہیں آشیاں میں اور بھی
آرزو ہے قتل کی تو سامنے سے وار کر
تِیر سینے پر چلا گر ہیں کماں میں اور بھی
ایک کُن سے رب نے پیدا کردئے لاکھوں جہاں
جانےکِتنی ہیں زمینیں کہکشاں میں اور بھی
کھوجتارہتاہے انساں یہ سمندر کی تہیں
ہیں ہزاروں راز بحرِ بیکراں میں اور بھی
آج تک دنیا سمجھ پائی نہیں دِل اور دماغ
راز پوشیدہ ہیں جانے کتنے جاں میں اور بھی
میر و غالب سے کوئی کہدو کہ اب شارؔق بھی ہے
اِک مسافر ہے ملا اِس کارواں میں اور بھی
یا
ایک شاعر ہے ملا اِس کارواں میں اور بھی
دِل مرا مصروف ہے آہ و فِغاں میں اور بھی
پہلے ہی دِل غمزدہ تھا اس پہ یادِ یار سے
کتنی شدت آگئی اشکِ رواں میں اور بھی
ایک بس تُم ہی نہیں،عاشق ہزاروں ہیں یہاں
ہِجر کا غم سہہ رہے ہیں اِس جہاں میں اور بھی
عاشقوں یہ عشق کی منزل کٹھن ہے،راہ میں
دشت دریا بھی کئی ہیں درمیاں میں اور بھی
عِشق کی منزل کو پانا اِتنا آساں تو نہیں
ہیں ہزاروں مُشکلیں اِس امتحاں میں اور بھی
اے جگر سُنتا نہیں دِل عِشق کر بیٹھا ہے یہ
تم ذرا سمجھادو نا اپنی زباں میں اور بھی
اِک ترا قِسمت کا تارا بُجھ گیا تو کیا ہوا
ہیں کئی روشن ستارے آسماں میں اور بھی
بُلبلِ شِیریں نوا اِک گُل پہ افسردہ ہے کیوں
پُھول کتنے خوشنما ہیں گلستاں میں اور بھی
کوئی تو صیاد کو جاکر خبر دے دو ابھی
کچھ پرندے بچ گئے ہیں آشیاں میں اور بھی
آرزو ہے قتل کی تو سامنے سے وار کر
تِیر سینے پر چلا گر ہیں کماں میں اور بھی
ایک کُن سے رب نے پیدا کردئے لاکھوں جہاں
جانےکِتنی ہیں زمینیں کہکشاں میں اور بھی
کھوجتارہتاہے انساں یہ سمندر کی تہیں
ہیں ہزاروں راز بحرِ بیکراں میں اور بھی
آج تک دنیا سمجھ پائی نہیں دِل اور دماغ
راز پوشیدہ ہیں جانے کتنے جاں میں اور بھی
میر و غالب سے کوئی کہدو کہ اب شارؔق بھی ہے
اِک مسافر ہے ملا اِس کارواں میں اور بھی
یا
ایک شاعر ہے ملا اِس کارواں میں اور بھی