اشکِ غم بہتے ہیں یادِ رفتگاں میں اور بھی غزل نمبر 118 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
اشکِ غم بہتے ہیں یادِ رفتگاں میں اور بھی
دِل مرا مصروف ہے آہ و فِغاں میں اور بھی

پہلے ہی دِل غمزدہ تھا اس پہ یادِ یار سے
کتنی شدت آگئی اشکِ رواں میں اور بھی

ایک بس تُم ہی نہیں،عاشق ہزاروں ہیں یہاں
ہِجر کا غم سہہ رہے ہیں اِس جہاں میں اور بھی

عاشقوں یہ عشق کی منزل کٹھن ہے،راہ میں
دشت دریا بھی کئی ہیں درمیاں میں اور بھی

عِشق کی منزل کو پانا اِتنا آساں تو نہیں
ہیں ہزاروں مُشکلیں اِس امتحاں میں اور بھی

اے جگر سُنتا نہیں دِل عِشق کر بیٹھا ہے یہ
تم ذرا سمجھادو نا اپنی زباں میں اور بھی

اِک ترا قِسمت کا تارا بُجھ گیا تو کیا ہوا
ہیں کئی روشن ستارے آسماں میں اور بھی

بُلبلِ شِیریں نوا اِک گُل پہ افسردہ ہے کیوں
پُھول کتنے خوشنما ہیں گلستاں میں اور بھی

کوئی تو صیاد کو جاکر خبر دے دو ابھی
کچھ پرندے بچ گئے ہیں آشیاں میں اور بھی

آرزو ہے قتل کی تو سامنے سے وار کر
تِیر سینے پر چلا گر ہیں کماں میں اور بھی

ایک کُن سے رب نے پیدا کردئے لاکھوں جہاں
جانےکِتنی ہیں زمینیں کہکشاں میں اور بھی

کھوجتارہتاہے انساں یہ سمندر کی تہیں
ہیں ہزاروں راز بحرِ بیکراں میں اور بھی

آج تک دنیا سمجھ پائی نہیں دِل اور دماغ
راز پوشیدہ ہیں جانے کتنے جاں میں اور بھی

میر و غالب سے کوئی کہدو کہ اب
شارؔق بھی ہے
اِک مسافر ہے ملا اِس کارواں میں اور بھی
یا
ایک شاعر ہے ملا اِس کارواں میں اور بھی
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
اشکِ غم بہتے ہیں یادِ رفتگاں میں اور بھی
دِل مرا مصروف ہے آہ و فِغاں میں اور بھی
مطلع ہے اس وجہ سے قبول کیا جا سکتا ہے ورنہ مفہوم کے اعتبار سے کوئی خاص نہیں

پہلے ہی دِل غمزدہ تھا اس پہ یادِ یار سے
کتنی شدت آگئی اشکِ رواں میں اور بھی
درست

ایک بس تُم ہی نہیں،عاشق ہزاروں ہیں یہاں
ہِجر کا غم سہہ رہے ہیں اِس جہاں میں اور بھی
درست

عاشقوں یہ عشق کی منزل کٹھن ہے،راہ میں
دشت دریا بھی کئی ہیں درمیاں میں اور بھی
عاشقوں سے خطاب لگتا ہے، "عاشقو" ہونا چاہئے، اس کے بعد! بھی
دشت دریا بھی الگ الگ چیزیں ہیں، دشت و دریا ہونا چاہئے


عِشق کی منزل کو پانا اِتنا آساں تو نہیں
ہیں ہزاروں مُشکلیں اِس امتحاں میں اور بھی
ٹھیک

اے جگر سُنتا نہیں دِل عِشق کر بیٹھا ہے یہ
تم ذرا سمجھادو نا اپنی زباں میں اور بھی
سمجھادنا...تقطیع اچھی نہیں۔ مفہوم بھی اہم نہیں، شعر نکال ہی دو

اِک ترا قِسمت کا تارا بُجھ گیا تو کیا ہوا
ہیں کئی روشن ستارے آسماں میں اور بھی
درست

بُلبلِ شِیریں نوا اِک گُل پہ افسردہ ہے کیوں
پُھول کتنے خوشنما ہیں گلستاں میں اور بھی
گل پہ افسردہ؟ ترکیب سمجھ نہیں سکا بلبل ایک پھول پر عاشق تو ہو سکتا ہے، لیکن افسردہ؟ شعر نکال دیا جائے
کوئی تو صیاد کو جاکر خبردے دو ابھی
کچھ پرندے بچ گئے ہیں آشیاں میں اور بھی
آشیاں ایک پرندے کا ایک ہی ہوتا ہے، اپارٹمنٹ سسٹم نہیں ہوتا پرندوں کا کہ ایک ہی آشیانہ میں اور بھی پرند ہوں؟ یہ شعر بھی زبردستی کی قافیہ بندی ہے
آرزو ہے قتل کی تو سامنے سے وار کر
تِیر سینے پر چلا گر ہیں کماں میں اور بھی
درست

ایک کُن سے رب نے پیدا کردئے لاکھوں جہاں
جانےکِتنی ہیں زمینیں کہکشاں میں اور بھی
درست

کھوجتارہتاہے انساں یہ سمندر کی تہیں
ہیں ہزاروں راز بحرِ بیکراں میں اور بھی
"یہ" سمندر کی تہیں درست نہیں، یہ شعر بھی نکال دو

آج تک دنیا سمجھ پائی نہیں دِل اور دماغ
راز پوشیدہ ہیں جانے کتنے جاں میں اور بھی
یہ بھی قافیہ پیمائی ہی لگ رہا ہے

میر و غالب سے کوئی کہدو کہ اب شارؔق بھی ہے
اِک مسافر ہے ملا اِس کارواں میں اور بھی
یا
ایک شاعر ہے ملا اِس کارواں میں اور بھی
شاعر ہو یا مسافر، 'ہے ملا' اچھا نہیں
... کہ اک شارق بھی ہے
آملا ہے اک مسافر/ایک شاعر کارواں میں اور بھی
 

امین شارق

محفلین
بہت شکریہ الف عین سر
اصلاح کے بعد۔۔
عاشقو! یہ عشق کی منزل کٹھن ہے،راہ میں
دشت و دریا بھی کئی ہیں درمیاں میں اور بھی

پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے۔۔
یہ ضروری تو نہیں سب کو میسر ہو گُلاب
پُھول کتنے خوشنما ہیں گلستاں میں اور بھی

اصلاح کے بعد۔۔
میر و غالب سے کوئی کہدو کہ اِک شارؔق بھی ہے
آ ملا ہے ایک شاعر کارواں میں اور بھی
 
بھائی میرؔ و غالبؔ سے ایسی کیا خطا ہوئی کہ ہر کوئی ان بیچاروں کو للکار رہا ہوتا ہے :)
خیر، مذاق بر طرف ۔۔۔ آپ کی شاعری میں واقعی کافی بہتری نظر آئی ہے جو نہایت خوش آئند امر ہے ۔۔۔ اسی طرح مشق جاری رکھیے ۔
 
Top