سید اِجلاؔل حسین
محفلین
غزل
اشک آنکھوں میں گر نہیں ہوتا
سینے میں کیا جگر نہیں ہوتا!
میرا ہمدرد ہے مرا ہم دم
شامِ غم وہ مگر نہیں ہوتا
قصۂ مختصر کہ دیر نہ کر
اب اکیلے سفر نہیں ہوتا
جان تم پر لٹائی ہے پھر بھی
حالِ دل معتبر نہیں ہوتا
ضبط اپنا شعار تھا لیکن
کیا کریں اب اگر نہیں ہوتا
تیری عزت عزیز تھی ورنہ
ڈوبتے کو خطر نہیں ہوتا
کوئی امید اب نہیں باقی
دل کو رکنے کا ڈر نہیں ہوتا
خاک چھانی ہے ریگزاروں کی
قیس بھی اب اُدھر نہیں ہوتا
اور شدت سے یاد آتے ہو
پینا اب بے اثر نہیں ہوتا
شب اندھیری تھی کٹ گئی اِجلؔال
کیوں ظہورِ سحر نہیں ہوتا
(سید اِجلؔال حسین - 1 مارچ، 2013)
فاتح
امجد علی راجہ