با ادب
محفلین
اصغر اور اکبر کی کہانی
ڈپٹی نذیر احمد نے مرأت العروس کیا لکھی عاقلہ اور کاملہ کی لٹیا ڈبو دی ۔ اماں کو وداع کرتے وقت ان کی میَّا نے ڈھیروں نصیحتیں انکے پلو میں اس طرز سے باندھیں کہ انھوں نے اپنے زمانے کی اصغری بننے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اب یہ تو انکے احباب اور عزیز و اقارب ہی بہتر طور پہ جانتے ہونگے کہ آیا اماں اپنی ان کوششوں میں کامیاب رہیں یا ناکام ۔ لیکن عاقلہ اور کاملہ اماں کی ہمہ وقت انھیں اصغری بنانے کی کوشش سے انتہائی عاجز تھیں ۔
وہ نئے دور کی لڑکیاں تھیں ۔ اور اماں ٹہریں اس دور کی جب لڑکیوں کے ہر قدم ' ہر آہٹ اور ہر بات پہ گہری نظر رکھی جاتی ۔ مائیں بچیوں کو گھر گرہستی سکھانے میں جان لڑا دیتیں ۔ بچیوں کو ادب آداب ' بڑے چھوٹے کی تمیز ' زیادہ زبان درازی سے گریز غرض ہر ہنر ' طریقہ اور سلیقہ سکھایا جاتا ۔
انکے زمانے نے یہ چلن کہاں دیکھا تھا کہ بچی ہاتھ میں موبائل فون پکڑے دنیا و مافیہا سے بے غرض پڑی ہے ۔
جب کہ لڑکی کی اماں خود کسی کونے کھدرے میں موبائل کی جناتی دنیا میں گم پائی جاتی ہیں ۔
ان کی دادی مرحومہ کہا کرتی تھیں ' کہ لڑکی خود سے باتیں کرنے لگے اور آپ ہی آپ مسکانے لگے تو ماؤں کے کان کھڑے ہوجانے چاہیئیں ۔ نوجوانی کی یہ دبی مسکانیں عمر بھر کے روگ میں بدلتے دیر نہیں لگتی ۔
اور یہاں عاقلہ ' کاملہ کے زمانے میں یہ سب باتیں دقیانوسی اور پرانے خیالات کی سمجھی جاتیں ۔ اب کے بچیاں آزاد اور بے باک خیالات کی حامل تھیں ۔ کھانا پکانا ' سینا پرونا ' کڑھائی بنائی کو وقت کا ضیاع سمجھتیں ۔ دفتروں میں کام کاج کو اپنی قابلیت خیال کیا کرتیں ۔ اپنوں کا کام بوجھ لگا کرتا اور دوسروں کی چاکری فخر گردانا جاتا ۔
عجیب ہوا چل پڑی تھی ۔ لیکن اسکا کیا کیجیے کہ عاقلہ اور کاملہ پیدا تو نئے زمانے میں ہوئی تھیں لیکن اماں انھیں پرانے زمانے کی مل گئیں ۔
لڑکی ذات پل بھر کو فارغ کاہے کو بیٹھی ہے ۔ جانے کن کے خیالوں میں گم رہے ۔ سو اماں فراغت کی ایک گھڑی کو حرام تصور کیا کرتیں ۔
دونوں بہنوں کی زندگی سوئیوں کی ٹک ٹک کے ساتھ چلتی ۔ کھانے کا وقت' پڑھائی کا وقت ' سینے پرونے کے اوقات کار ۔
خالی ہاتھ بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی ہیں اماں سبزی ہاتھ میں تھما دیتیں ساتھ ساتھ سبزی بناؤ اور ڈرامہ بھی دیکھتی جاؤ ۔
سارا دھیان سبزی میں رہتا کہ اماں کے سلیقے پہ دیے بھاشن سننا بھی کچھ آسان نہ تھا ۔
کسی بھی لمحے اماں انکے دراز چیک کر سکتی تھیں اور اگر وہاں بے ترتیبی نظر آتی تودونوں کی کم بختی آجایا کرتی ۔ ہر شے کو الگ رکھو کہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا نہ ہورہی ہوں ۔
دونوں سوچتیں جانے کونسا دن ہو وہ اس گھر سے بیاہ کے جائیں ۔ ساس کم از کم انکی والدہ سے تو بہتر ہونگی ۔
اماں کا تو بس نہ چلتا کہ سوتے میں لڑکی خواب بھی نہ دیکھے ۔ وہ کہا کرتیں پورا دن کام میں مصروف رہو تو نیند ایسی بھر پور آتی ہے کہ خوابوں کے سلسلے جڑ نہیں پاتے ۔
لڑکیاں ہر کام ہر ہنر میں ایسی طاق ہوئیں کہ دونوں بہنوں کے سلیقے ہنر ادب آداب شائستگی نرم خوئی کی خاندان بھر میں مثالیں دی جاتیں ۔
کتنے ہی بیٹوں کی مائیں عاقلہ اور کاملہ کو بہو بنانے کی خواہش رکھتی تھیں لیکن دونوں کی قسمت میں پھپھی اماں کے اصغر اور اکبر لکھے تھے ۔
ابا میاں کا کہنا تھا کہ انھیں اپنی بہن سے بڑھ کر کوئی نہ تھا ۔ بس بہن کو انکار نہ ہوا اور بیٹیوں کا ہاتھ بھانجوں کو تھما آئے ۔
نئی زندگی کا آغاز نئی امنگوں ' خواہشوں اور ولولوں سے ہوا ۔ دونوں بہنیں خوشی خوشی بابل کے گھر سے وداع ہوئیں ۔ کہ اب کے اماں کی نصیحتیں ' کڑی نگرانی اور بھاری ذمے داریوں سے نجات ملے گی ۔ اور ایسا ہی ہوا ۔ پھپھی امی خود بھی زیادہ سیلقے قرینے کی حامل نہ تھیں نہ ہی لڑکیوں سے ایسا کوئی تقاضا کرتیں ۔
لیکن اسکا کیا ہو کہ لڑکیوں کی خمیر میں قرینہ طریقہ اور سلیقہ گوندھ دیا گیا تھا ۔ اب اماں کی گھوری نہیں تھی لیکن فارغ بیٹھے رہنا انکی سرشت میں نہیں رہا تھا ۔
کام کاج انکی فطرتِ ثانیہ بن چکا تھا ۔ ہر چیز کی ترتیب کا خیال رکھنا تزئین و آرائش ' حسن سلوک دھیمے انداز سے بات کرنا ہمہ وقت خوش اور مطمئن رہنا ۔ شکوے شکایات کو زندگی میں جگہ نہ دینا یہ سب تو جیسے انکے رگ و پے میں داخل کر کے ان کی زندگی کا جزو بنا دیا گیا تھا ۔
لیکن ان سب خوبیوں کے پرسکون سمندر میں بے سکونی کی پہلی لہر عاقلہ کے میاں کی بے ترتیبی اور کاملہ کے میاں کی بد زبانی سے پڑی ۔
میاں اصغر دنیا بھر کے نکمے اور نکھٹو تھے ۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتے اسکا بیڑہ غرق کر دیا کرتے ۔
ابا میاں نے دو بار بزنس سیٹ کروا کے دیا سارا پیسہ ڈبو آئے ۔ کئی مرتبہ سفارش کروا کے نوکریاں لگوائیں لیکن دس پندرہ دن سے زیادہ کسی نوکری پہ ٹکنا انکی شان نہ تھا ۔
سلیقے مند بیگم کی ہر تدبیر الٹی ہوئی جاتی ۔ پیار ' دلار ' فرماں برداری ' رواداری ہر طریقہ رائیگاں ٹہرتا ۔ غربت نے گھر کی دہلیز پکڑ لی ۔ فاقوں تک کی نوبت آنے لگی ۔ تب عاقلہ نے گھر چلانے کی خاطر سلائی مشین سے ناطہ جوڑا اور عاقلہ کے ناطہ جوڑتے ہی میاں اصغر مزید نکھٹو ہوتے چلے گئے ۔
وہاں کاملہ کا میاں خوب کماتا دھماتا تھا لیکن زبان اس قدر اجڈ اور جاہلانہ تھی کہ بی بی کاملہ روز بروز مرجھائی جاتی ۔ اماں کے سکھائے زباں بندی کے اصول پہ کاربند رہتے رہتے کانوں کے اندر میاں اکبر کی بد زبانی ' گالی گلوچ سب انڈیلتی رہتی اور دل کا بوجھ آنسوؤں کے ذریعے نکالا کرتی ۔
دونوں بہنیں اپنی زندگی کا یہ حشر دیکھ کے سوچا کرتیں کہ جہاں اصغری اور اکبری کے کردار لکھے گئے تھے وہاں میاں عاقل اور میاں کامل کی اعلیٰ تربیت کیوں کسی کو یاد نہ رہی کہ گھر کے دونوں ستون اہمیت کے حامل ہوا کرتے ہیں ۔ لڑکیوں کو سلیقہ سکھانا از حد ضروری ہے لیکن لڑکوں کی تربیت سے صرف نظر کرنا بھی بھلا کہاں کی عقل مندی ہے ۔
کاملہ اور عاقلہ زندگی کےدن گزارتی خود سے عہد کیا کرتی تھیں کہ انکے ہاں اولادیں جنم لیں گی تو وہ صرف ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کو یاد نہیں رکھیں گی بلکہ اپنی زندگیوں سے بھی سبق ضرور لیں گی ۔ اور دونوں اصناف کو یکساں تربیت دیں گی ۔
سمیرا امام
ڈپٹی نذیر احمد نے مرأت العروس کیا لکھی عاقلہ اور کاملہ کی لٹیا ڈبو دی ۔ اماں کو وداع کرتے وقت ان کی میَّا نے ڈھیروں نصیحتیں انکے پلو میں اس طرز سے باندھیں کہ انھوں نے اپنے زمانے کی اصغری بننے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اب یہ تو انکے احباب اور عزیز و اقارب ہی بہتر طور پہ جانتے ہونگے کہ آیا اماں اپنی ان کوششوں میں کامیاب رہیں یا ناکام ۔ لیکن عاقلہ اور کاملہ اماں کی ہمہ وقت انھیں اصغری بنانے کی کوشش سے انتہائی عاجز تھیں ۔
وہ نئے دور کی لڑکیاں تھیں ۔ اور اماں ٹہریں اس دور کی جب لڑکیوں کے ہر قدم ' ہر آہٹ اور ہر بات پہ گہری نظر رکھی جاتی ۔ مائیں بچیوں کو گھر گرہستی سکھانے میں جان لڑا دیتیں ۔ بچیوں کو ادب آداب ' بڑے چھوٹے کی تمیز ' زیادہ زبان درازی سے گریز غرض ہر ہنر ' طریقہ اور سلیقہ سکھایا جاتا ۔
انکے زمانے نے یہ چلن کہاں دیکھا تھا کہ بچی ہاتھ میں موبائل فون پکڑے دنیا و مافیہا سے بے غرض پڑی ہے ۔
جب کہ لڑکی کی اماں خود کسی کونے کھدرے میں موبائل کی جناتی دنیا میں گم پائی جاتی ہیں ۔
ان کی دادی مرحومہ کہا کرتی تھیں ' کہ لڑکی خود سے باتیں کرنے لگے اور آپ ہی آپ مسکانے لگے تو ماؤں کے کان کھڑے ہوجانے چاہیئیں ۔ نوجوانی کی یہ دبی مسکانیں عمر بھر کے روگ میں بدلتے دیر نہیں لگتی ۔
اور یہاں عاقلہ ' کاملہ کے زمانے میں یہ سب باتیں دقیانوسی اور پرانے خیالات کی سمجھی جاتیں ۔ اب کے بچیاں آزاد اور بے باک خیالات کی حامل تھیں ۔ کھانا پکانا ' سینا پرونا ' کڑھائی بنائی کو وقت کا ضیاع سمجھتیں ۔ دفتروں میں کام کاج کو اپنی قابلیت خیال کیا کرتیں ۔ اپنوں کا کام بوجھ لگا کرتا اور دوسروں کی چاکری فخر گردانا جاتا ۔
عجیب ہوا چل پڑی تھی ۔ لیکن اسکا کیا کیجیے کہ عاقلہ اور کاملہ پیدا تو نئے زمانے میں ہوئی تھیں لیکن اماں انھیں پرانے زمانے کی مل گئیں ۔
لڑکی ذات پل بھر کو فارغ کاہے کو بیٹھی ہے ۔ جانے کن کے خیالوں میں گم رہے ۔ سو اماں فراغت کی ایک گھڑی کو حرام تصور کیا کرتیں ۔
دونوں بہنوں کی زندگی سوئیوں کی ٹک ٹک کے ساتھ چلتی ۔ کھانے کا وقت' پڑھائی کا وقت ' سینے پرونے کے اوقات کار ۔
خالی ہاتھ بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی ہیں اماں سبزی ہاتھ میں تھما دیتیں ساتھ ساتھ سبزی بناؤ اور ڈرامہ بھی دیکھتی جاؤ ۔
سارا دھیان سبزی میں رہتا کہ اماں کے سلیقے پہ دیے بھاشن سننا بھی کچھ آسان نہ تھا ۔
کسی بھی لمحے اماں انکے دراز چیک کر سکتی تھیں اور اگر وہاں بے ترتیبی نظر آتی تودونوں کی کم بختی آجایا کرتی ۔ ہر شے کو الگ رکھو کہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا نہ ہورہی ہوں ۔
دونوں سوچتیں جانے کونسا دن ہو وہ اس گھر سے بیاہ کے جائیں ۔ ساس کم از کم انکی والدہ سے تو بہتر ہونگی ۔
اماں کا تو بس نہ چلتا کہ سوتے میں لڑکی خواب بھی نہ دیکھے ۔ وہ کہا کرتیں پورا دن کام میں مصروف رہو تو نیند ایسی بھر پور آتی ہے کہ خوابوں کے سلسلے جڑ نہیں پاتے ۔
لڑکیاں ہر کام ہر ہنر میں ایسی طاق ہوئیں کہ دونوں بہنوں کے سلیقے ہنر ادب آداب شائستگی نرم خوئی کی خاندان بھر میں مثالیں دی جاتیں ۔
کتنے ہی بیٹوں کی مائیں عاقلہ اور کاملہ کو بہو بنانے کی خواہش رکھتی تھیں لیکن دونوں کی قسمت میں پھپھی اماں کے اصغر اور اکبر لکھے تھے ۔
ابا میاں کا کہنا تھا کہ انھیں اپنی بہن سے بڑھ کر کوئی نہ تھا ۔ بس بہن کو انکار نہ ہوا اور بیٹیوں کا ہاتھ بھانجوں کو تھما آئے ۔
نئی زندگی کا آغاز نئی امنگوں ' خواہشوں اور ولولوں سے ہوا ۔ دونوں بہنیں خوشی خوشی بابل کے گھر سے وداع ہوئیں ۔ کہ اب کے اماں کی نصیحتیں ' کڑی نگرانی اور بھاری ذمے داریوں سے نجات ملے گی ۔ اور ایسا ہی ہوا ۔ پھپھی امی خود بھی زیادہ سیلقے قرینے کی حامل نہ تھیں نہ ہی لڑکیوں سے ایسا کوئی تقاضا کرتیں ۔
لیکن اسکا کیا ہو کہ لڑکیوں کی خمیر میں قرینہ طریقہ اور سلیقہ گوندھ دیا گیا تھا ۔ اب اماں کی گھوری نہیں تھی لیکن فارغ بیٹھے رہنا انکی سرشت میں نہیں رہا تھا ۔
کام کاج انکی فطرتِ ثانیہ بن چکا تھا ۔ ہر چیز کی ترتیب کا خیال رکھنا تزئین و آرائش ' حسن سلوک دھیمے انداز سے بات کرنا ہمہ وقت خوش اور مطمئن رہنا ۔ شکوے شکایات کو زندگی میں جگہ نہ دینا یہ سب تو جیسے انکے رگ و پے میں داخل کر کے ان کی زندگی کا جزو بنا دیا گیا تھا ۔
لیکن ان سب خوبیوں کے پرسکون سمندر میں بے سکونی کی پہلی لہر عاقلہ کے میاں کی بے ترتیبی اور کاملہ کے میاں کی بد زبانی سے پڑی ۔
میاں اصغر دنیا بھر کے نکمے اور نکھٹو تھے ۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتے اسکا بیڑہ غرق کر دیا کرتے ۔
ابا میاں نے دو بار بزنس سیٹ کروا کے دیا سارا پیسہ ڈبو آئے ۔ کئی مرتبہ سفارش کروا کے نوکریاں لگوائیں لیکن دس پندرہ دن سے زیادہ کسی نوکری پہ ٹکنا انکی شان نہ تھا ۔
سلیقے مند بیگم کی ہر تدبیر الٹی ہوئی جاتی ۔ پیار ' دلار ' فرماں برداری ' رواداری ہر طریقہ رائیگاں ٹہرتا ۔ غربت نے گھر کی دہلیز پکڑ لی ۔ فاقوں تک کی نوبت آنے لگی ۔ تب عاقلہ نے گھر چلانے کی خاطر سلائی مشین سے ناطہ جوڑا اور عاقلہ کے ناطہ جوڑتے ہی میاں اصغر مزید نکھٹو ہوتے چلے گئے ۔
وہاں کاملہ کا میاں خوب کماتا دھماتا تھا لیکن زبان اس قدر اجڈ اور جاہلانہ تھی کہ بی بی کاملہ روز بروز مرجھائی جاتی ۔ اماں کے سکھائے زباں بندی کے اصول پہ کاربند رہتے رہتے کانوں کے اندر میاں اکبر کی بد زبانی ' گالی گلوچ سب انڈیلتی رہتی اور دل کا بوجھ آنسوؤں کے ذریعے نکالا کرتی ۔
دونوں بہنیں اپنی زندگی کا یہ حشر دیکھ کے سوچا کرتیں کہ جہاں اصغری اور اکبری کے کردار لکھے گئے تھے وہاں میاں عاقل اور میاں کامل کی اعلیٰ تربیت کیوں کسی کو یاد نہ رہی کہ گھر کے دونوں ستون اہمیت کے حامل ہوا کرتے ہیں ۔ لڑکیوں کو سلیقہ سکھانا از حد ضروری ہے لیکن لڑکوں کی تربیت سے صرف نظر کرنا بھی بھلا کہاں کی عقل مندی ہے ۔
کاملہ اور عاقلہ زندگی کےدن گزارتی خود سے عہد کیا کرتی تھیں کہ انکے ہاں اولادیں جنم لیں گی تو وہ صرف ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کو یاد نہیں رکھیں گی بلکہ اپنی زندگیوں سے بھی سبق ضرور لیں گی ۔ اور دونوں اصناف کو یکساں تربیت دیں گی ۔
سمیرا امام